(شیبانی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام نوجوان محقق مراد علی کی تصنیف ’’مولانا مودودی کا تصور جہاد’’ کا مقدمہ)
الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ، وعلی آلہ اصحابہ ومن والاہ۔
جہاد ہمیشہ سے اسلام کے معترضین کے ایک مرغوب موضوع رہا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی (م 1979ء)کی شہرۂ آفاق کتاب الجہاد فی الاسلام کی وجہِ تصنیف بھی مختلف نوعیت کے اعتراضات بنے جو مخالفین کی جانب سے اسلام کے تصورِ جہاد پر پیش کیے جارہے تھے اور جن کا مدلّل اور خاطر خواہ جواب مسلمان اہلِ علم کے ذمہ قرض تھا۔ مولانا مودودی نے اس موضوع پر لکھنے والے اپنے پیش رووں کی طرح معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجاے پورے اعتماد اور ایقان کے ساتھ اسلام کا تصورِ جہاد اس طرح پیش کیا جس طرح انھوں نے اسے سمجھا تھا۔ چنانچہ انھوں نے زندگی اور موت اور کائنات میں انسان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیمات کا ایک جامع تصور پیش کیا تاکہ اس تصورِ جہاں (worldview) کی روشنی میں اسلام کے نظام میں جہاد کی حیثیت اور حقیقت واضح کی جاسکے۔ اس کے بعد معترضین کے اعتراضات سے بچنے کےلیے اسلامی شریعت کے احکام کی بے جا تاویل یا سیرت و تاریخ کے واقعات سے بے بنیاد انکار کی روش اختیار کرنے کی انھیں ضرورت ہی نہیں رہی اور انھوں نے بہت خوبی سے ان اعتراضات کی لغویت دکھائی۔بعد میں مولانا نے اپنی دیگر تحریرات میں اس بات کو مزید آگے بڑھایا۔ ان میں خصوصی اہمیت کی حامل تحریر ان کی کتاب سود کا تیسرا ضمیمہ ہے جس میں انھوں نے “دار الحرب میں سود” کے مسئلے کی تنقیح اور توضیح کرتے ہوئے دار الاسلام اور دار الحرب کے تصورات کی تفصیل دی ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کی مختلف صورتوں کے متعلق قانونی اصول پوری شرح و بسط کے ساتھ واضح کیے ہیں۔بہت اہم تفصیلات ان کی دیگر کتب، خصوصاً تفہیم القرآن، اسلامی ریاست، رسائل و مسائل اور تفہیمات میں ملتی ہیں۔
جہاد گویا مولانا کے فکری ورثے کا ایک اہم جزو ہے اور اس وجہ سے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ “سیاسی اسلام” (Political Islam)، “اسلام ازم” (Islamism) “جہادازم” (Jihadism) جیسی گمراہ کن تراکیب گھڑنے والوں کے حملوں کےلیے مولانا کی شخصیت، ان کا لٹریچر اور ان کی فکر خصوصی ہدف رہے ہیں۔ سوویت روس کے بکھرنے کے بعد “اسلامی خطرہ” (Islamic Threat) کا ہوّا کھڑا کرنے والوں نے خصوصاً جن مسلمان اہلِ علم کو “اسلامی انتہا پسندی” (Islamic Extremism) کےلیے ذمہ دار ٹھہرایا، ان میں مولانا مودودی کا نام سرِ فہرست تھا۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد جب ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے عام طور پر “اسلامی دہشت گردی” (Islamic Terrorism) کی ترکیب رائج کی گئی، تو اس موضوع پر لٹریچر کا ایک سیلاب آیا اور کئی نامی گرامی لکھنے والوں نے عمومی طور پر “اسلامی دہشت گردی” کا شجرہ یوں تخلیق کیا:
اسامہ بن لادن ۔۔۔ عبد اللہ عزام۔۔۔ سید قطب۔۔۔ مولانا مودودی۔۔۔ امام ابن تیمیہ۔
ان لکھنے والوں میں بہت کم ایسے تھے جن کی رسائی مولانا مودودی یا امام ابن تیمیہ کے اصل کام تک تھی، اور ایسے افراد تو تقریباً معدوم ہی تھے جنھوں نے مولانا مودودی یا امام ابن تیمیہ کے فکری اور اصولی نظام کو سمجھ کر انھیں پڑھا تھا اور پھر کوئی راے قائم کی تھی۔ یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ مولانا کے تصورِ جہاد پر لکھنے والوں نے الجہاد فی الاسلام کے علاوہ ان کی دیگر کتب کو بالعموم نظرانداز کیا ہے۔ اس عموم سے ایک اہم استثنا افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک فاضل دوست ڈاکٹر احمد خالد حاتم، چانسلر جامعہ کاردان، کابل، کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کرتے ہوئے لکھا۔ اس مقالے میں انھوں نے جہاد کے متعلق مولانا مودودی اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے تصورات کا موازنہ کیا۔ مجھے اس مقالےکے ممتحن کی حیثیت سے اس کے مطالعے کا موقع ملا اور یہ یقیناً اس موضوع پر ایک اہم دستاویز ہے۔ تاہم پی ایچ ڈی مقالات کی اپنی تحدیدات بھی ہوتی ہیں اور تحدیات بھی، بالخصوص جب مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے دو نابغہ روزگار شخصیات کے افکار کے درمیان موازنہ بھی کرنا ہو۔ انگریزی میں لکھا گیا یہ مقالہ ہنوز غیر مطبوع ہے۔
جہاد پر مولانا مودودی کے کام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ بالعموم اس میں براہِ راست قرآن و حدیث سے استدلال پیش کیا گیا ہے اور فقہی تراث سے تفصیلی حوالے بہت کم دیے گئے ہیں۔ اس سے ایک اہم استثنا سود کا تیسرا ضمیمہ ہے جو مولانا کی فقاہت کا شاہ کار ہے اور جس میں وہ ایک کہنہ مشق فقیہ کی حیثیت سے فقہی تراث سے عبارات بھی پیش کرتے ہیں، ان کا تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں، ان سے اصول بھی مستخرج کرتے ہیں اور ان اصولوں کی تطبیق بھی کرتے ہیں۔تاہم عموماً مولانا کی تحریرات میں براہِ راست آیات و احادیث سے استدلال ہوتا ہے جس سے بعض سطح بین قارئین کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ان کا انفرادی موقف ہے اور اس کا مسلمانوں کی علمی و فقہی روایت سے تعلق نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ مولانا کے تصورِ جہاد پر کوئی ایسا شخص لکھے جس کی نہ صرف مولانا کے لٹریچر پر گہری نظر ہو، بلکہ وہ ان کے نظامِ فکر سے بھی کما حقہ آگاہ ہو، ساتھ ہی وہ اس تصورِ جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کرسکتا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فقہی تراث پر بھی اس کی ایسی نظر ہو کہ وہ مختلف امور میں مولانا کی آرا کی فقہی بنیادیں بھی تلاش کرسکتا ہو اور جہاں ضرورت ہو، تو فقہاے کرام کی آرا کی روشنی میں مولانا کی راے کی توضیح یا تاویل بھی کرسکتا ہو۔ یہ قرعۂ فال اس کتاب کے فاضل مؤلف،نوجوان محقق جناب مراد علی کے نام نکلا۔ وہ ان جوانوں میں ہیں جن کی عقابی روح بیدار ہوچکی ہوتی ہے اور اس وجہ سے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے، جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں، جن کا شباب بے داغ اور جن کی ضرب کاری ہو اور جن کے بارے میں دعا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پیروں کا استاد کردے!
مراد سے میری پہلی واقفیت جہاد ہی کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں ہوئی، پھر فیس بک پر ان کی فاضلانہ تحریرات نے متوجہ کیا اور پھر جب ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا، تو ان کے متجسس ذہن اور وسعتِ مطالعہ نے بہت متاثر کیا۔ پھر جب ان کے ساتھ سفر کا بھی موقع ملا اور مختلف مواقع پر ان کے کردار کو جانچنے کا بھی موقع ملا، تو ان سے میری محبت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ ان کی حق گوئی اور جرات و ہمت کی صفات نے سونے پر سہاگہ کا کردار ادا کیا اور اب تو میں ان کے متوالوں میں سے ہوں۔ اس سے قبل ان کی ایک کتاب اسلام اور مغرب کا مکالمہ: ایک تحقیقی مطالعہآچکی ہے جس میں انھوں نے اس موضوع پر اہلِ علم کی منتخب تحریرات پیش کرکے ان پر اپنی تحقیق اپنے فاضلانہ مقدمے میں پیش کی۔
2021ء میں مراد علی نے بعض دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر “شیبانی فاؤنڈیشن”کی داغ بیل ڈالی اور انتہائی اعلی معیار پر تحقیقی کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ نیز اس فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام انھوں نے کئی اہم اور سلگتے مسائل پر سیمینارز اور ویبینارز کا بھی انعقاد کیا۔ اس فاؤنڈیشن کی نسبت امام محمد بن الحسن الشیبانی (م 189ھ/ 805ء) کی طرف ہے اور اسی سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس فاؤنڈیشن کے بانیوں کو اپنے فقہی تراث اور علمی روایت سے کتنی محبت ہے!
زیرِ نظر کتاب میں فاضل مصنف نے مولانا موودودی کے نظامِ فکر کی بنیادی خصوصیات بھی واضح کی ہیں، ان کے تصورِ جہاد کی تفصیلات بھی دی ہیں، اس کی فقہی بنیادیں بھی واضح کی ہیں اور اس نظامِ فکر اور تصورِ جہاد پر عام طور پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا محاکمہ بھی کیا ہے۔میرے نزدیک اس کتاب کا سب سے اہم حصہ آخری باب ہے جس میں فاضل مصنف نے انتہا پسندی کو مولانا مودودی کے ساتھ، یا ان کی فکر کے ساتھ، جوٖڑنے کی کوشش کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کیوں یہ نسبت غلط اور بالکل ہی بے بنیاد ہے۔ اس باب کا مطالعہ مولانا مودودی کے ناقدین کےلیے تو ضروری ہے ہی، مولانا مودودی کے نام لیواؤں اور ان کی تحریک سے وابستہ افراد کےلیے بھی اس باب کا بغور مطالعہ بہت مفید ہے اور امید ہے کہ اس کے نتیجے میں مولانا مودودی کے متعلق اور ان کی فکر کے متعلق ان کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی اور بہت سے مفروضات غلط ثابت ہوجائیں گے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی یہ کاوش قبول کرے، اسے ان کےلیے دنیا وآخرت میں کامیابیوں کا سبب بنائے اور انھیں مزید ایسی علمی اور تحقیقی کاوشوں کی توفیق مسلسل دیتا رہے۔ آمین!
کمنت کیجے