جناب عمران احمد خان صاحب
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آج آپ سے مخاطب ہونے کا مقصد یہ ہے ربیع الاول کے مہینے میں ملک بھر میں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جاری پروگراموں کے تناظر میں کچھ گزارشات آپ کے سامنے رکھی جائیں۔ آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت ملک کی مقبول سیاسی شخصیت بھی ہیں۔ آپ سے ملک کی نوجوانوں اور پڑھے لکھے خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد وابستہ ہے اور وہ ملک میں بہتر حکمرانی کے اپنے خوابوں کی تعبیر کو آپ کی سیاسی جدوجہد میں تلاش کرتے ہیں۔ مجھے سردست آپ کی سیاسی حکمت عملی اور موقف کے بارے میں تبصرہ نہیں کرنا۔ میری اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے ایک اہم اور مقبول سیاسی راہنما کو سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اس کی ذمہ داریوں کی یاددہانی کروائی جائے۔ امید ہے کہ آپ ٹھنڈے دل سے ان معروضات پر غور فرمائیں گے۔
جناب عمران خان صاحب!
اللہ نے آپ کو لوگوں میں مقبولیت عامہ عطا فرمائی اور عزت افزائی کے وہ تمام مواقع آپ کو میسر آئے جن کے بارے میں لوگوں کی اکثریت خواہش مند ہی رہتی ہے۔ یہ اللہ کا خاص انعام ہی تھا کہ آپ کو اسلامی جمہوریہ پاکستانی کا وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔ آپ کی گفتگو اور تقریروں میں اسلام اور نبی مکرم علیہ السلام کی ذات مبارکہ کا تذکرہ بہت تواتر سے سامنے آتا ہے جو بہت ہی اطمنان بخش بات ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد آپ نے ریاست مدینہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے تعلق و محبت کے ڈسکورس کو اپنی پالیسی سطح کی تقریروں اور اظہار خیال میں نمایاں کیا۔ اسی طرح اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں آپ نے ملک میں رحمة للعالمين اتھارٹی کے قیام کی بنیاد بھی رکھی اور ملک کی ایک بہت ہی محترم شخصیت ڈاکٹر انیس احمد صاحب کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔ آپ کے سیاسی مخالفین کے بیانیہ سے قطع نظر یہ اقدامات اپنی جگہ قابل ستائش تھے اور ان پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے بار بار محبت کے اظہار کے باوجود آپ سیرت رسول اللہ ﷺ کے اہم ترین تقاضے یعنی توحید کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو مکمل طور پر اختیار نہ کر سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور توحید کا پیغام اسلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ ہے۔ اسلام دراصل نام ہی اللہ کے صحیح تعارف اور عبودیت کا ہے! آپ اپنی تقریروں کا آغاز اياك نعبد واياك نستعين سے کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کی توحید کا بھرپور اعلان کیا جا رہا ہے۔ مگر مجھے کہنے دیجیے کہ جس طرح بعض مواقعوں پر آپ نے سجدہ کرنے کے انداز میں جھک کر مزارات کو بوسہ دیا وہ عمل توحید کے تقاضوں کے منافی تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو اس بارے میں تنبیہ کرنے پر بہت سے لوگ مشتعل ہوں گے مگر جناب عمران خان صاحب اللہ کی توحید کسی بھی انسان کے لئے سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کے ابلاغ کے لئے کسی قسم کی مداہنت تمام اعمال کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ حکمت و مصلحت کا پیغام اپنی جگہ پر مطلوب و معروف ہے مگر توحید پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز درست نہیں۔ یہ قطعی طور پر فرقہ واریت کی بات اور کسی مخصوص مسلک پر تنقید نہیں ہے۔ تمام مسالک و مکاتب فکر کے سنجیدہ فکر اور راسخ علماء کے نزدیک مزارات و قبور پر جو غلو بھرا انداز آپ نے اختیار کیا وہ درست اور جائز نہیں ہے۔ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے لئے سب سے اہم اور اولین پیغام یہی ہے کہ آپ اپنے اس طرز عمل اور فہم دین پر از سر نو غور فرمائیں۔
جناب عمران خان صاحب!
آپ کی کرشماتی شخصیت کی مضبوطی کے قائل سیاسی مخالفین بھی ہیں۔ آپ کو اس شخصیت کی بدولت ایسی ٹیم تیار کرنی چاہیئے جو ریاست مدینہ کی تشکیل نو میں صحیح معنوں میں ممد و معاون بن سکے۔ اس وقت ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں ساتھ گھل مل کر مشاورت کرنے اور “ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم” جیسا ماحول پیدا نہیں کر سکے۔ آپ کی شخصیت کا سخت اور بے لچک ہونے کا تاثر سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں کے منافی ہے۔ رسول کریم علیہ السلام تو بہت نرم طبیعت کے مالک تھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ محبت و دلجوئی کا معاملہ فرماتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اس طرز عمل سے بہت ہی مختصر وقت میں ایک ایسی انقلابی ٹیم تشکیل دی جس نے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کر کے دکھایا۔ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام آپ کو حرز جان بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کی شخصیت میں موجود اس بے لچک رویہ نے اداروں اور کئی خیرخواہوں کے ساتھ تصادم کی راہ کو پروان چڑھایا اور نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔ لوگوں کی عزت افزائی’ انکساری’ دلجوئی’ مہمان نوازی جیسی نبوی عادات اختیار کرنے سے آپ بہت سے مسائل سے بچ سکتے تھے۔
محترم خان صاحب!
آپ کے لئے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کا پیغام بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ آپ اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد درشت زبان اور نعرے بازی کے رسیا بن گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر آپ کی جماعت سے وابستہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے سیاسی مخالفین کے لئے جو زبان استعمال کرتی ہے اور جس قسم کا تضحیک آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ آپ خود بھی بسا اوقات مخالفین کو مخاطب کرنے میں اعتدال سے ہٹی ہوئی زبان استعمال کرتے ہیں۔ میرا قطعی طور پر آپ کو یہ بات کہنے کا مقصد نہیں ہے کہ آپ کے سیاسی مخالفین بہت خوش اخلاق اور قابل ستائش زبان استعمال کرتے ہیں۔ یقینا آپ کے بارے میں بھی زبان درازی کی جاتی ہے مگر یہاں چونکہ آپ سے مخاطب ہوں سو آپ کے طرز عمل پر ہی سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کچھ باتیں گوش گزار کی جا رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلم اخلاق تھے اور آپ کی شخصیت سرتاپا اخلاقی وجود تھی۔ جناب عمران خان صاحب میری آپ سے درخواست ہے کہ سیرت کے اس نمایاں ترین روشن پہلو پر مزید غور فرما کر اپنے طرزعمل کا محاسبہ کریں۔ آپ کی اصلاح صرف آپ کی ذات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس سے ملک کے ہزاروں نوجوانوں کو بھی مہمیز ملے گی اور وہ بھی آپ کی پیروی میں خود کو گفتگو و تخاطب کے اعلی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔
سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات میں سے ایک اہم پیغام لوگوں کی پردہ پوشی اور پرائیویسی کی حفاظت ہے۔ اللہ کریم خود ستار العیوب ہیں اور نبی مکرم علیہ السلام نے بھی ہمیں دوسروں کے عیوب و خلوت کے معاملات پر پردہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ ہماری ملکی سیاست میں بدقسمتی سے ویڈیو اور آڈیو لیکس کا چلن چل پڑا ہے جو ملک و قوم کے لئے بہت معیوب اور نقصان دہ ہے۔ اس بارے میں عمران خان صاحب آپ نشانہ بھی ہیں اور نشانہ باز بھی! حساس نوعیت کے ملکی و ریاستی معاملات کو وقتی اشتعال میں عوام کی سطح پر افشا کرنا اور اس سے اپنے دشمنوں میں اضافہ کرنا مومن کی فراست کے منافی ہے۔ اس طرز عمل سے آپ کے شخصی اعتبار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مکالمے کا آغاز کر کے بقائے باہمی پر مبنی ماحول کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے کفار و مشرکین کے ساتھ بھی گفتگو اور معاہدے کئے۔ آج ہمیں ملکی سیاست میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اس گندگی کی روک تھام کے لئے کھلے دل سے مکالمے کی آغاز کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے ماضی کے بیانیے کا اسیر بن کر ضد کا شکار نہیں ہونا چاہیئے اور زندگی کو تدبیر کی خوش اسلوبی سے آگے لے جانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
مجھے امید ہے کہ آپ ان معروضات پر غور فرمائیں گے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
ڈاکٹر حافظ عزیزالرحمن
اسلام آباد
azeez.rehman@gmail.com
6 ربیع الاول 1444 ہجری
کمنت کیجے