( ایک صاحب جو کہ ایم فل کے مقالہ نگار ہیں ان کی تحریر نظر سے گزری ۔ وہ للکارتے ہوئے چند مدارس کو نشانہ بنا رہے تھے کہ غربت، بے انصافی، بدامنی، استحصال، جبر، سب کے ذمہ دار مدارس ہیں ۔ ایم فل کے مقالہ نگار صاحب کی خدمت میں ہماری گزارشات )
جناب !
ماشاءاللہ آپ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ہیں ۔ تو یونیورسٹیاں جو علم و عرفان کا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔ وہاں کا جو منظم ، مربوط نظام تعلیم ہے جس میں سب کے حقوق کی ادائیگی کی جاتی ہے ، مساوات ہے ، اخوت ہے ، بے راہ روی کا نام و نشان تک نہیں اور وہاں کے منتظمین تو جنیدِ وقت ہیں ۔
آسائش اور سہولیات ایسی کہ دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں ،علم کی دنیا میں گرمی بازار کا یہ عالم ہے کہ طلبہ دھڑا دھڑ نئی الماریاں خرید رہے ہیں جہاں وہ نوٹس سنھبال کر رکھ سکیں ،
امن و امان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ عورت داخلہ لینے کے لئے قطار میں کھڑی ہے جسے یو نیورسٹی کی اس نکر سے دوسری نکر تک سونا اچھالتے گزر جانا ہے اور کسی نے باہر سے آکر ریپ نہیں کرنا کیونکہ اس نے ن م راشد کو پڑھ رکھا ہے اور جانتی ہے کہ یونیورسٹی ہی وہ زمیں ہے جہاں
’’فلسفی نے دیکھا تھا… ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشم جاں فروز کی آرزو کا پرتو‘‘۔
المختصر یونیورسٹیوں کے فضائل بھی تحریر کر دیتے ۔
دوسرے یہ کہ ہم جناب کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ ہمیں آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ پیروں کا صرف دو مدرسوں پر قبضہ ہے اور دونوں مدرسے تباہی کے دھانے پر ہیں ۔ اور جملہ مدارسِ دینیہ کا نام انہی کی وجہ بدنام ہے ۔ آپ کی بصیرت کو سلام عقیدت کہ لاہور ، کراچی اور فیصل آباد جیسے معروف و مشہور شہروں کو چھوڑ کر مقالہ لکھنے کے لیے خانقاہوں پہ واقع دو مدرسوں کے واشرومز کا انتخاب کیا جن کا پہلے نام تک آپ نے نہیں سنا تھا ۔
عالی جاہ !
ان دیگر شہروں میں واقع اداروں کے ہر کوارٹر، کوچہ ، عمارت حتی واشرومز میں جو چاروں طرف پھیلا ہوا اس قدر حسن ہے کہ مجھ ایسوں نے تو صرف نوبل انعام یافتہ ناولوں، کلاسیکی موسیقی کی دھنوں اور دل میں اتر جانے والی شاعری کی بیاضوں میں ہی دیکھا ہو گا۔ ان اداروں میں جس جانب بھی نگاہ دوڑا لو، آنکھ کو ہر طرف سے آرٹ میں گندھا حسن ہی دکھائی دے گا۔ وزٹ تو آپ نے کیا ہی ہو گا بس اس کی تفصیلات بھی تحریر کر دیتے ۔۔۔۔۔ !!!
تیسرا یہ کہ آپ کی قوت ادراک کو 21 توپوں کا سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ آپ نے ایک وزٹ میں وہ معلومات اکٹھی کرلیں کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے جیسا کہ محرر سالوں وہاں رہا ہے اور اپنی بھڑاس نکال رہا ہے ۔
ایسے ابن رشد آپ کی صورت میں آج بھی موجود ہیں ۔ سبحان اللہ ، زیارت کے لائق ہیں ۔
اگر آپ کان قریب کریں تو ایک زمینی حقیقت بھی جناب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا ۔
ہم جب بھی کسی دینی یا علمی ادارے کا ذکر کر بیٹھیں اور ان کو درجہ محبوبیت پہ رکھتے ہوئے ان کے جمال کی بات کریں تو کچھ لوگ اپنی فطرت کا پاس رکھتے ہوئے ناک کان بہنے اور پیشاب پاخانے کا ذکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
پاس فطرت اور ذاتی کد سے ہٹ کر دیکھیے یہ وہ ادارے ہیں جو ان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ رہے ہیں ۔ جن کے پاس آپ کی یونیورسٹی کے ناز اٹھانے کے پیسے نہیں ہوتے ۔
لیکن صاحب ! انہیں کون سمجھائے کہ جو بڑے سے بڑے ادارے کا وزٹ کرنے جاتے ہیں تو ان کی نظر سیدھی پا خانے پہ جا ٹکتی ہے !!!
اور ادارے بھی ایسے کہ جو صدیوں سے فروغ علم کےلیے کوشاں ہیں ۔ صرف واویلا نہیں مچاتے کہ یوں ، یوں ہونا چاہیے ۔ بلکہ انہوں نے اپنے عمل سے معترضین کو بتایا ہے کہ
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
دبستان خیر آبادی کے فرد فرید ،حضور شیخ الاسلام و المسلمین خواجہ قمرالدین سیالوی ،قادیانیت کو فتح کرنے والے مجدد ملت پیر مہر علی شاہ ، منطق و کلام کے عالم ، متصوفانہ رموز کے عارف پیر محمد چشتی ، قلب و شعور پہ حکومت کرنے والے دلنواز ادیب جسٹس پیر محمد کرم شاہ ، تدریس کو زینت بخشنے غلام محمد تونسوی استاذ العلماء علامہ عطا محمد بندیالوی اور حضرت اشرف العلماء رحھمم اللہ علیہم جیسے درجنوں علماء کی کھیپ بھی کسی یونیورسٹی نے نہیں اسی مدرسے نے معاشرے کو دی ہے اور اسی مدرسے سے لاتعداد طلبہ مفت سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے ۔
لیکن ذاتی تعصب کی عینک لگائے وزٹر جب جاتا ہے تو اس کی نظر باتھ روم پہ جا رکتی ہے۔
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
کمنت کیجے