حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاخلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی لخت جگر ہیں یہ وہ مبارک خاندان ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب نبی ﷺکی رفاقت واعانت کے لئے انتخاب کیا۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے عرب کے اس معاندانہ اور مخالفانہ ماحول میں جہاں اپنے بھی غیر بن گئے تھے اورجان کے دشمن بن گئے تھے` دوجہاں کے سردار ﷺکے دامن سے اپنی وابستگی کی اورایک مخلص صدیق ہونے کا عملی ثبوت دیا اور پھر ساری زندگی اپنے محبوب کی پہرہ داری کی گھر کی چاردیواری کے باہر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور ﷺکے حضرو سفر کے رفیق تھے جبکہ گھر میں صدیقہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر عزیز کے لئے صدق و فا کا کامل نمونہ تھیں۔
روایات میں آتا ہے کہ نکاح سے پہلے حضور ﷺنے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے سامنے کوئی چیز پیش کررہا ہے- آپ نے استفسار کیا کہ یہ کیا ہے ؟تو جواب ملا آپ کی بیوی آپ ﷺنے کھول کردیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺسے دریافت کیا کہ یارسول اللہ آپ دنیامیں سب سے زیادہ کسے محبوب رکھتے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا”عائشہ “کو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺمیں نے مردوں سے متعلق سوال کیا تھا تو فرمایا “عائشہ کے ابا کو۔
ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مقابلہ نہ کیا کرو اس لئے کہ وہ حضور ﷺکو محبوب ہیں۔ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ مردوں میں تو بہت کامل گذرے لیکن مریم بنت عمران اورآسیہ زوجہ فرعون کے سواعورتوں میں کوئی کامل نہ ہوئی اورعائشہ کوعورتوں پراس طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔
ایک دفعہ ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا “ام سلمہ مجھ کو عائشہ کے معاملے میں دق نہ کرو کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور بیوی کے لحاف میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی۔” کھانا کھانے میں محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ وہی ہڈی چوستے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چوستی تھیں، پیالہ میں وہیں منہ رکھ کر پیتے تھے جہاں پر آپ رضی اللہ عنہامنہ لگاتی تھیں۔
ایک دفعہ ایک ایرانی پڑوسی نے آپ کی دعوت کی توآپ ﷺنے فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ہوں گی؟ اس نے کہا نہیں۔ ارشاد ہواتو میں بھی قبول نہیں کرتا۔ میزبان دوبارہ آیا اورپھر یہی سوال و جواب ہوااوروہ واپس چلا گیا۔ تیسری دفعہ پھر فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہاکی بھی دعوت ہے ؟عرض کی “جی ہاں”۔ اس کے بعدآپ ﷺاور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے گھر گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی برکت سے امت کو تیمم کا حکم ملنا اورآپ کی پاک دامنی پرقرآن کریم کی آیات کا نزول یہ آپ کے علو درجات اوراللہ تعالی ٰ کے ہاں بلنددرجہ ہونے کی واضح نشانی ہے۔
ایک نبی کی زندگی امت کے افراد کی زندگی کے ہرپہلو کے لئے آئیڈیل اورنمونہ ہوتی ہے۔وہ اللہ تعالی کانبی اور پیغمبر ضرورہوتا ہے لیکن وہ ایک شوہر کا کردار بھی ہوتاہے لہذایہ کردار بھی مثالی ہونا چاہئے، لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اوردیگر ازواج مطہرات سے محبت والفت ہمیں بھی سبق دیتا ہے کہ ہم نے اپنے گھروالوں سے کیسابرتاوٴکرنا ہے- ایک موقع پرارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے اچھا ہواورمیں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہوں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا صدقے کا اجر رکھتا ہے۔
حضرت عائشہ رضہ اللہ عنہا نے حضورﷺکی صحبت میں ایک عرصہ گذاراجس کے آپ کی شخصیت پر گہرے اثرات تھے۔ آپ کا حجرہ چونکہ مسجد نبوی سے بالکل متصل تھا اس لئے آپ مسجد میں صحابہ رضی اللہ عنہا سے کئے جانے والے تمام مواعظ کو سنتی اوریاد کرلیتیں اوراگر کسی چیز بارے کوئی تردد ہوتاتوآپ ﷺجب حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے تو اس کی تشفی کرلیتیں۔
احادیث کامعتد بہ حصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے بلکہ علماء نے لکھاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں جس سے آپ کے کمال علم کا پتہ چلتا ہے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر کسی بات یامسئلہ میں کوئی ترددہوتا تو وہ پردہ میں جاکر آپ سے پوچھ لیتے اوروہ انتہائی احسن انداز میں سائل کی تشفی فر ما دیتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانہایت ہی عبادت گذار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والد اورپیارے محبوب ﷺکی طرح بہت ہی سخی تھیں۔ جومال ان کے پاس آتاتھا، اس کو راہ خدامیں غریبوں، مسکینوں اورلاچارومجبور لوگوں پر خرچ کردیتیں تھیں اورخوداکثر بھوکا رہ کر زندگی بسر کرتی تھیں۔آپ کو امورخانہ داری میں بھی کمال درجہ کی مہارت تھی۰ گھر کے سارے کام کاج خود کرلیتی تھیں۔آپ ایک اطاعت گذارو فرمانبرداربیوی تھیں اور ہر معاملے میں اپنے شوہر نامدارﷺکے آرام و سکون کا خیال رکھتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا وصال 17رمضان البارک کو مدینہ منورہ میں ہوااورمدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔
کمنت کیجے