از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
مملوک خاندان کی حکومت پر ایک نظر:
سلطان شہاب الدین غوری کے زمانے میں تمام شمالی ہندوستان پر اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اس معنی میں بلاشبہ یہ اسلامی حکومت تھی کیونکہ حکمران مسلمان تھے۔ اس معنی کے اعتبار سے یقینا اسلامی حکومت نہ تھی کہ حکومت کی تنظیم و تشکیل اسلام کے طریق پر ہوئی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انتخاب اور شوری کے ذریعے وجود میں نہیں بلکہ استبداد اور فوجی قوت کے ذریعے منصۂ شہود پر آئی تھی اور اس کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اُمویوں اور عباسیوں کی خلافت بھی ایسی ہی تھی۔ عباسی خلافت کے سب سے طاقتور اور نامور بادشاہ ابو جعفر المنصور نے جب ایک موقعہ پر امام اعظم ِابو حنیفہ سے اپنی حکومت کے بارے میں دریافت کیا تو امامِ اعظم کی قانونی عدالت کا بے لاگ فیصلہ یہ تھا اور یہ بات انہوں نے ابو جعفر منصور کے سوال کے جواب میں فرمائی تھی:
“ما اجتمع على خلافتك اثنان من أرباب الفتوى والتقوى”.[1]
ترجمہ: تیری خلافت پر اُن لوگوں میں سے دو بھی متفق نہیں جن کے پاس فتوی اور تقوی کی قوت ہے۔
مطلب یہ ہے کہ تو فوجی قوت کے ذریعے حکمران بنا ہے ، تیری حکومت استبدادی ہے، شورائی اور انتخابی نہیں ہے۔ یعنی اسلام نے حکومت سازی کے بارے میں جو نظام مقرر کیا ہے تو اس پر پورا نہیں ہے۔ یہ نظام ِعمل استبدادی نہیں،شخصی اور نسلی نہیں، یہ شورائی اور جمہوری ہے۔ یعنی امت کی صائب الرائے جماعت جن کو قانون کی زبان میں اہلِ حل وعقد کہتے ہیں کو شرائط و مقاصدِ خلافت کے مطابق اپنا خلیفہ منتخب کرنا چاہئے۔ “امرهم شورى بينهم” [2] کا تقاضا بھی یہی ہے اور یہی اسلام کا نظام ِحکومت ہے۔ امام ابو حنیفہ نے اُسی کی وضاحت کی ہے لیکن یہاں یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اگر یہ نظام باقی نہ رہے ، امت کی اجتماعی رائے کا اس میں دخل نہ ہو، محض طاقت وقوت کی بنا پر کوئی خاندان ، کوئی طاقتور شخص، کوئی فوجی سربراہ اقتدار پر قبضہ کر لے تو اُس صورت میں اسلام کی راہنمائی کیا ہے، مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے، اس کی حکومت کو مان کر طاعت کرنی چاہئے، یا اس کی بغاوت کرنی چاہئے؟ وہ شرعا اسلامی حکومت ہو سکتی ہے اور اُس کی نگرانی میں وہ تمام کام انجام دئیے جا سکتے ہیں جو ازروئے شرع اسلامی حکومت کے وجود پر موقوف ہیں۔ اس کو زکوۃ دینی چاہئے، اس کے پیچھے جمعہ و عیدین ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
یہ سوال امت کی اجتماعی زندگی کا بنیادی اور اہم سوال ہے اور ممکن نہیں ہے کہ اسلام اس کا جواب نہ دیتا۔
اس سوال کا جواب احادیث ِصحیحہ اور عملِ صحابہ میں صاف صاف موجود ہے۔ اس لئے تمام امت بلا اختلاف اس پر متفق ہو گئی کہ جب ایک مسلمان منصبِ حکومت پر قابض ہو جائے اور اُس کی حکومت جم جائے تو وہ مملکت اسلامی ہے، خواہ بالفعل اسلامی نظام نافذ نہ ہو، اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اُس کو اسلامی حکومت تسلیم کرے، اُس کی اطاعت کرے۔ اِسی پر اجماع امت ہے اور تیرہ سو سال سے اِسی پر عمل ہے۔ اُمویوں، عباسیوں، فاطمیوں، سلجوقیوں اور غلام خاندانوں کی ہندوستان میں حکومت اِسی کے لحاظ سے اسلامی حکومت ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث مولانا ابو الکلام آزاد نے مسئلۂ خلافت میں، شاہ ولی اللہ نے ازالۃ الخفاء میں، الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں، ابو یعلی نے الاحکام السلطانیہ میں ، حافظ ابن تیمیہ نے السیاسۃ الشرعیۃ ، الحسبۃ اور منہاج السنۃ میں کی ہے۔ اِس لئے مملوک خاندان کی حکومت بھی اسلامی حکومت ہے۔ شہاب الدین غوری نے شمالی ہند پر اسلامی حکومت قائم کی۔ مملوک سلاطین میں سے قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش نے شمالی ہند کے کچھ بچے ہوئے علاقوں کو بھی فتح کر کے اسلامی حکومت کو مضبوط و مکمل بنایا۔
اِس خاندان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اُن کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر بحیثیت مجموعی علمی اور عملی زندگی میں صحیح اسلامی جذبات بہت نمایاں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جو بادشاہ اُن میں حکومت کرنے کی زیادہ صلاحیت، قابلیت، اہلیت کا مالک ہوتا اُس کو حکومت کرنے کا زیادہ موقعہ ملتا۔ لیکن اگر کوئی بادشاہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد نااہل ، ناقابل اور نالائق ثابت ہوتا تو اہلِ حل و عقد اور صائب الرائے امراء اُسے ہٹا کر دوسرے کو تخت حکومت پر بٹھا دیتے ۔
اس دور کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ حکمرانی کسی خاندان میں محدود نہ تھی۔ شہاب الدین غوری کے بعد اس کا غلام قطب الدین ہندوستان کا مطلق العنان بادشاہ تھا۔ قطب الدین کے بعد شمس الدین کو سب نے بادشاہ بنا لیا۔ التمش کی اولاد میں محمود میں حکمرانی کی صلاحیت موجود تھی، بیس سال تک اُسے حکومت کرنے کا غیاث الدین کی وزرات کے ذریعے موقع ملا۔ محمود کے بعد غزنی سے بنگال تک غیاث الدین بلبن مطلق العنان حکمران تھا۔ جب بلبن کی اولاد کو نالائق دیکھا تو حکومت خلجی قوم کے ایک معمر شخص کے سپرد ہوئی۔
شاید آپ کے ذہن میں یہ خلش ہو کہ غلاموں کی حکومت اسلامی حکومت کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اسلام میں سربراہ ِمملکت کے لئے قرشی ہونا ضروری ہے۔ یہ حکم ارادہ و اختیار سے متعلق ہے اور اس وقت ہے جب سربراہ کے مقرر کرنے میں رائے عامہ کا دخل ۔ وسط ایشیا میں سلجوقیوں کی حکومت، مصر میں غلاموں کی حکومت کو اُس دور کے علماء نے بلا چون و چرا تسلیم کیا ہے اور اس بنیاد پر اہل علم کی جانب سے حکومت کے خلاف کوئی آوازنہیں اٹھی۔ باقی جہاں تک آثارِ صحابہ کا تعلق ہے، کوئی نص ِقطی موجود نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اسلام نے نظام ِحکومت کی تشکیل کے لئے قرشیت کو شرط کا درجہ دیا ہے۔ اِس موضوع پر ارشاداتِ نبوت صحیح ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجمعِ صحابہ میں حدیث” الائمۃ من قریش” کو پیش کیا ۔ اِس موضوع پر حضرت مولانا ابو الکلام نے مسئلۂ خلافت میں جو دادِ تحقیق دی ہے وہ بہترین ہے اور اِس قابل ہے کہ آج کے دور میں اہلِ علم اس کا مطالعہ کریں۔
مملوک سلاطین کے زمانے میں نظامِ حکومت بہت ہی سادہ اور راحت رساں تھا۔ صرف بڑے بڑے راجاؤں سے حکومتیں چھینی گئی تھیں ، مگر اُن بڑے بڑے راجاؤں کے تحت جو چھوٹے رانا اور رائے ضلعوں اور برگنوں پر حکومت کر رہے تھے ، اُن کو بدستورادائے خراج کے اقرار پر قائم رکھا گیا۔ بڑے بڑے شہروں میں مسلمان گورنر، قاضی اور سپہ سالار مقرر تھے، لیکن چھوٹے قصبات اور دیہات میں قاضیوں اور مفتیوں کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ دیہات میں تمام تر آبادی غیر مسلموں کی تھی۔ وہ بدستور ہندو راجاؤں، راناؤں اور رایوں کے تحت زندگی بسر کر رہے تھے۔ حکومت اگرچہ اسلامی تھی اور سلطان اور اعیانِ سلطنت اسلام سے محبت کرتے تھے اور دین سے لگاؤ رکھتے تھے،قاضیوں اور شیخ الاسلام کا باقاعدہ تقرر ہوتا تھا۔ احتساب کا محکمہ قائم تھا۔ قاضی کے فیصلے واجب التعمیل تھے، مدارس میں آزاد دینی تعلیم ہوتی تھی۔ لیکن سارے نظامِ حکومت میں اصل کارفرما سلطان کی ذات اور اُن کے وزرا اور ارکانِ سلطنت کی تھی۔ اُنہی کا فیصلہ اور منشا حکومت کا اصل قانون تھا۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کا رقبہ اُن کی وسیع سلطنت میں بہر حال محدود تھا۔ نظامِ حکومت تقریبا فوجی تھا جس کا نہ تو کئی مرتب و مدون دستور تھا، نہ کوئی مقرر و معین نظام اور نہ کوئی مجلس شوری تھی۔
ناصر الدین محمود اور غیاث الدین بلبن اِس کی ضرور کوشش کرتے رہے کہ اُن کی حکومت کے قوانین و ضوابط کو علماء کی تائید حاصل ہو۔ مشہور مؤرخ منہاج سراج نے ناصر الدین محمود کی مِن جملہ اور خوبیوں کے ایک خوبی یہ بتائی کہ وہ علم اور اہلِ علم سے بہت محبت کرتا تھا[3]۔ مشہور مؤرخ اور شاعر عصامی کا بیان ہے:
ہمہ بیت مال آن شان محتشم
سپردے صحاب عِلم و عَلم
بعد کے مؤرخوں مثلا شیخ عبد الحق محدث دہلوی نظام الدین بخشی نے بھی اس کی علم دوستی اور علماء پروری کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اِس اجمال کی تفصیل کہیں نہیں ملتی۔ غیاث الدین بلبن کی اپنی بیٹے کو وصیت تو ضرور ہے کہ :
“اپنے دار السلطنت کو علماء، مشائخ و سادات، مفسروں، محدثوں، حافظوں، فاضلوں اور ہر فن کے ماہروں سے بھرنا”۔[4]
لیکن خود بلبن کا نظریۂ حکومت کیا تھا، اس کا اندازہ کرنا ہو تو برنی کی یہ بات پڑھئے:
“اس نے پرانے بادشاہوں کی بہت سی رسموں کا اتباع کیا اور سلاطینِ عجم کے محلات کے طرز پر اپنے دربار کو سجایا”۔[5]
اس ایک جملہ میں بلبن کے نظریۂ حکومت اور سیاسی کردار کے متعلق سب کچھ کہہ دیا۔ فی الواقع اُس کے سیاسی افکار کا سرچشمہ ساسانی نظریات کا رہینِ منت تھا۔ اس نے اپنے دربار کا پورا ماحول اور اُس کے آداب و رسوم کی ہر تفصیل ایرانی روایات سے لی تھی۔ پا بوسی کی ایرانی [6] رسم تو دربار میں التمش کے زمانے سے رائج تھی۔ بلبن نے ایرانی تہوار نوروز بڑی شان سے منانا شروع کر دیا۔ بلبن نے اسلام سے ہٹ کر اپنے سیاسی افکار و اعمال کا جواز مصلحت ِ وقت میں تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ وہ کہتا تھا کہ جب تک بادشاہ کا دلوں پر رعب نہ ہو رموزِ جہاں بانی اور مصالحِ جہانداری کا حق ادا نہیں ہوتا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ بادشاہی کے حقوق کو عمر بن الخطاب اور عمر بن عبد العزیز کی طرح ادا کرنا چاہئے۔
لیکن سیاسی مصلحتوں نے اُسے کبھی یہ اجازت نہ دی کہ ساسانی نظریۂ حکومت سے ہٹ کر خلفائے راشدین کے قائم کئے ہوئے اصولوں پر گامزن ہو سکے۔
علاء الدین خلجی کے بارے میں تاریخِ فیروز شاہی میں ہے کہ بادشاہ ہونے پر اُس کے دل میں یہ بات جم گئی کہ ملک داری اور جہاں بانی ایک علیحدہ چیز ہے اور احکامِ شریعت و روایت ایک الگ کام ہے۔ احکامِ بادشاہی کا تعلق قاضیوں اور مفتیوں سے ہے۔ بادشاہ اِسی اعتقاد کے مطابق ملک داری کے کاموں میں جو چاہتا کرتا خواہ وہ شرعا جائز ہو یا ناجائز۔ [7]
زیادہ تفصیل دیکھنی ہو تو قاضی مغیث الدین اور علاء الدین خلجی کی اس موضوع پر گفتگو پڑھیے۔
بتانا یہ چاہتا ہوں کہ نظامِ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن حکومت کی بنیاد ساسانی روایات پر قائم تھی۔ حکومت پر قبضہ جبرو استبداد کے نتیجے میں ایک دوسرے کو منتقل ہوتا رہا ۔
تاریخِ اسلامی کے اُس دور میں قائم ہونے والی دہلی میں سلطنت بالکل غیر اسلامی سیاست کی پیداوار تھی اور سلاطینِ دہلی گو مسلمان اور گو اُن کی حکومت اسلامی حکومت تھی ،لیکن وہ اسلام کی نمائندہ نہ تھی۔ اربابِ حکومت کی انفرادی زندگی میں اسلام کو خواہ کوئی درجہ حاصل ہو لیکن سیاسی معاملات اسلام کی روشنی سے سر تا سر محروم تھے۔
ملک کی اجتماعی حالت:
مملوک حکمران طبقہ اپنی برتری کا احساس رکھتا تھا۔ قطب الدین ایبک سے قطب الدین مبارک تک یہ احساس رہا کہ ہر چیز میں عام شہری کی زندگی ہے۔ بلاشبہ وہ علماء کے قدر داں، مشائخ کے معتقد، مدارس کے قیام میں کوشاں اور مساجد کی تعمیر کے شائق تھے۔ عہدوں کی تقسیم میں کسی خاص نسل اور طبقہ کی تخصیص نہ تھی۔ پھر بھی بڑے بڑے فوجی اور انتظامی عہدے اپنے ہی سرداروں کو ملتے تھے۔ حکام اور بڑے بڑے جاگیر دار حکمران نسل کے ہوتے تھے۔ علاءالدین خلجی نے اپنے زمانے میں کوشش کر کے زمین کی پیمائش کرائی اور پچاس فیصدی مالگذاری مقرر کی۔ اِس طرح تمام زمینوں کی بندو بست کی شرح ایک ہو گئی اور بڑے بڑے زمیندار کاشتکاروں کی صف ایک ہو گئی۔ اُن کی بے جا آمدنی رک گئی۔ پیداوار کا نصف حصہ حکومت کو چلا جاتا اور جو نصف بچا رہتا اُس سے چرائی اور دوسرے ٹیکس وصول کر لئے جاتے۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کی تن آسانی اور عیش پسندی بالکل جاتی رہی۔ سرکار پیداوار کا جو نصف حصہ لیتی وہ سرکاری گوداموں میں جمع رہتا۔ا ِس معاملہ میں اِس قدر احتیاط کی کہ کسی کی مجال نہ تھی کہ کاشتکار سے ایک دانہ بھی زیادہ وصول کر سکے۔ رشوت قطعا ختم ہو گئی۔ ملک میں ضروریات ِزندگی اس قدر ارزاں ہو گئیں کہ گندم صرف چیتل کا ایک من میں آتا تھا۔ چیتل تانبے کا سکہ ہوتا تھا۔ ایک روپے میں 6 چیتل ہوتے تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک روپے میں چھے من گندم آتی تھی۔ اقتصادی اصلاح کے ساتھ معاشرتی اصلاح کے لئے علاؤ الدین نے مسکرات کو قانونا ممنوع قرار دیا۔ پہلے شراب پر پابندی لگائی۔ پھر تمام نشہ آور چیزوں پر پابندی لگا دی۔ قمار بازی بند کر دی۔
اس موقعہ پر شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے ملفوظات خیر المجالس کا اقتباس پیش کرنا ضروری ہے:
“اس کے بعد یہ حکایت فرمائی کہ قاضی حمید الدین ملک التجار اُن دنوں اودھ گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دعوت کی اور مجھے بلایا۔ جب بعد دعوت لوگ روانہ ہو گئے ، میں اور وہ ایک جگہ بیٹھ گئے تو اُنہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ ایک بار میں نے سلطان علاء الدین کو دیکھا کہ تخت پر بیٹھا ہے، ننگے سر کسی خیال میں ڈوبا ہوا ہے، زمین پر پاؤں مار رہا ہے۔ میں آگے بڑھا مگر بادشاہ خیالات میں اتنا مستغرق تھا کہ اسے بالکل پتہ نہ چلا۔ میں واپس آ گیا، باہر آ کر میں نے ملک قرابیگ سے کہا کہ میں نے بادشاہ کو ایسا دیکھا ہے، آؤ مل کر صورتِ حال معلوم کریں۔ ملک قرا بیگ اور میں اندر گئے اور سلطان کو باتوں میں لگا لیا۔ اُس کے بعد میں نے عرض کیا کہ بادشاہ ِ مسلماناں میری ایک گذارش ہے۔ حکم ہوا کہ کہو۔ میں نے کہا کہ میں اندر آیا تھا، آپ کو اِس حال میں دیکھا کہ ننگے سر خیالات میں مستغرق ہیں، آپ کو کیا فکر لاحق ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا: مجھے چند روز سے یہ فکر ہے کہ میں دل میں سوچتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالی نے اپنی مخلوق پر حاکم بنایا ہے۔ اب کوئی کام ایسا کرنا چاہئے کہ میرے سے ساری مخلوق کو فائدہ ہو۔ دل میں سوچا کہ کیا کروں۔ اگر تمام خزانہ جو میرے پاس ہے اس سے سو گنا بھی تقسیم کروں پھر بھی ساری مخلوق کو نفع نہ ہو گا۔ اگر گاؤں اور ولایتیں تقسیم کر دوں پھر بھی سب کو نہیں مل سکتی ۔ اسی فکر میں تھا کہ کیا کروں کہ میری ذات سے سب کو فائدہ پہنچے۔ اس وقت ایک تدبیر خیال میں آئی ہے۔ تم سے کہتا ہوں، میں نے سوچا کہ غلہ کی ارزانی ہو تاکہ اِس سے سب کو نفع ہو۔ اور غلہ کس طرح سستا ہو سکتا ہے۔ اِس کی صورت یہ ہے کہ بنجاروں کو حکم دوں کہ حاضر ہوں اور ان کو بھی جو غلہ اطراف و جوانب سے شہر میں لاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ہزار بیل لاتے ہیں اور بعض بیس ہزار۔ میں ان کو بلاتا ہوں، ان کو کپڑے دوں گا، چاندی دوں گا۔ ان کے گھروں کا خرچ دوں گا تا کہ وہ غلہ لائیں۔ اور جو نرخ میں مقرر کروں گا اس پر فروخت کریں۔ چنانچہ اس نے یہی حکم دیا۔ اطراف و جوانب سے غلہ آنا شروع ہو گیا، چند دنوں میں نرخ سات چتیل فی من ہو گیا۔ گھی شکر اور ضروریات کی ساری چیزیں ارزاں ہو گئیں اور اس سے سب کو فائدہ پہنچا، کیا بادشاہ تھا! “۔[8]
سڑکوں کا نظام اِس قدر اعلی تھا کہ بنگال کے راستے دریائے شور کے کنارے تک اور سندھ اور گجرات کی راہیں تلنگانہ اور مالا بار تک اور لاہور کی سٹرکیں کابل اور کشمیر تک دہلی کی گلی کوچوں کا نمونہ بن گئیں۔ راہ گیر جس قدر مال چاہتے تھے اپنے ہمراہ لے جاتے تھے اور جس جنگل میں اُن کا جی چاہتا تھا اُس کو ہفت خانۂ حصار سمجھ کر پھینک دیتے تھے اور خود بے خوف و خطر رات کو آرام سے سوتے تھے۔ مسافر اور غریب الوطن جس گاؤں میں پہنچتے تھے اس کا چوہدری اور دوسرے مکین اُن لوگوں کی مہمانی کرتے تھے۔[9]
جمہوریت کے اِس ارتقائی دور میں دو چیزیں حکومت کے حسنِ انتظام اور شہریوں کی عام خوش حالی کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ دولت کی تقسیم مساوی ہو تا کہ سرمایہ دار لوگ اپنی دولت کے نشے میں غریبوں پر بے جا ظلم اور زیادتی نہ کر سکیں، دوسری یہ کہ اجناس اور دوسری چیزوں کے نرخ سرکار کی جانب سے مقرر کر دیئے جائیں اور اِن چیزوں کی فراہمی کا کام بھی حکومت کے سپرد ہو تا کہ دولت مند اور غرض مند طبقہ حد سے زیادہ نفع خوری کی لعنت میں مبتلا ہو کر عوام کے لئے پریشانی کا باعث نہ بنے۔ عجیب بات ہے کہ علاء الدین خلجی نے باوجود اَن پڑھ ہونے کے اِن دو باتوں کی طرف توجہ دی۔ اور اس نے اس کا ایسا اچھا انتظام اور بندو بست کر دیا کہ آج جمہوریت کے علمبردار بھی ساری طاقتیں اور علم و تحقیق کے ہر میدان میں دعوائے فرزانگی کے باوجود نہیں کر سکے۔
علاء الدین نے اجتماعی زندگی کی استواری کے لئے ملک سے بے دینی کا خاتمہ کیا ۔ امیر خسرو نے لکھا ہے:
“تمام اصحابِ ا باحت کو بلایا اور جاسوس مقرر کر دیئے کہ اُن میں سے ہر ایک کو دربار میں حاضر کیا جائے”۔[10]
یہ اصحاب ِاباحت کون تھے؟ نہ امیر خسرو نے اس کی وضاحت کی ہے، نہ برنی نے۔ پروفیسر حبیب کا خیال ہے کہ اصحابِ اباحت سے قرامطہ اور اسماعیلی مراد ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ہندووں کے واما مارگی کا فرقہ بتایا ہے۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے بھی پروفیسر حبیب کی تائید کی ہے ۔ یعنی یہ لوگ قرامطہ اسماعیلی تھی۔ عصامی نے واضح طور پر اُن کو ملاحدہ میں شمار کیا ہے۔ بہرحال علاؤ الدین نے اِن اصحابِ اباحت کے ساتھ نہایت سختی کا برتاؤ کیا۔
اجتماعی زندگی کی اصلاح میں یہ بھی علاؤ الدین خلجی کا کارنامہ ہے کہ اُس نے طوائفوں اور بازاری عورتوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے پیشہ چھوڑ کر پاک دامنی کی زندگی بسر کریں۔ سلطان نے اُن کے زبردستی نکاح کر دیئے۔ اُس کا نتیجہ جو ہوا امیر خسرو کی زبانی سنیئے:
“اتنی پرہیز گار ہو گئیں کہ فسق و فجور کا نام و نشان باقی نہ رہا”۔[11]
[1] ۔ مناقب الإمام الأعظم ، ابن البزاز الکردری، جلد-2، ص: 15 ـ 16
[2] ۔ سورۃ الشوری: 38
[3]۔ طبقاتِ ناصری، محولہ بالا، جلد-2، ص: 102
[4] ۔ تاریخ فیروز شاہی ، محولہ بالا، ص: 119
[5] ۔ تاریخ فیروز شاہی ، محولہ بالا، ص:170
[6] ۔ یعنی بوقتِ حاضری بادشاہ کی قدم بوسی کرنا۔
[7] ۔ تاریخ فیروز شاہی ، محولہ بالا، 1 ص: 250
[8] ۔ خیر المجالس، ملفوظات شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلی، مولانا حمید قلندر، شعبہ تاریخ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، تاریخِ طبع نہ دارد، ص: 241-242
[9] ۔ تاریخ فرشتہ، محولہ بالا، ص: 390
[10] ۔ خزائن الفتوح بتصحیح مولوی سید معین الحق، حضرت امیر خسرو دہلوی، مطبوعات انجمن تاریخ، علیگڑھ، ص: 102
[11] ۔خزائن الفتوح بتصحیح مولوی سید معین الحق، حضرت امیر خسرو دہلوی، مطبوعات انجمن تاریخ، علیگڑھ، ص: 103
کمنت کیجے