زید حسن
1۔ غیر متعصبانہ رویہ
غزالی کے امتیازات میں سے سب سے اہم وصف ان کا تحقیقی میدان میں غیر متعصبانہ رویہ ہے ۔ غزالی جب کسی چیز کی تحقیق کے درپئے ہوتے ہیں تو کسی قسم کا تعصب انکے آڑے نہیں آتا خواہ وہ سماجی و سیاسی ہو یا علمی و مذہبی ۔ غزالی اپنے مقدمات اور دعاوی کو بلا تعصب اپنے فکری دلائل کے سامنے پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ انکی سرگزشت اس بات پر واضح دلیل ہے ۔
محمد لطفی جمعہ لکھتے ہیں :
“هذه حرية في البحث واستقصاء في الدرس يدلان على سعة صدره وسمو فكره، إذ لا يمكن للمحقق أن يستوعب سبل الحقيقة بغير الجمع بين سائر مظاهرها مما يقال للشيء وعليه، كما كان شأن قانت في كتابه الجليل ” نقد العقل الصحیح او العقل الصراح ”
ترجمہ: بحث میں آزادی اور ہمہ دانی غزالی کی فراخدلی اور بلند خیالی پر دلالت کرتی ہے ۔کیونکہ محقق کے لئے راہِ حقیقت کا پتا چلانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ حقیقت کے مظاہر کو دریافت نہ کر لے جس سے اس کے موافق یا مخالف کچھ کہا جا سکے ۔ جیسا کہ کانٹ کا رویہ اسکی بلند پایہ کتاب ” تنقیدِ عقلِ محض ” میں رہا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ غزالی محض اس وجہ سے کہ کسی فن کا کوئی خاص پہلو مذہبی ذہن یا عوامی اعتقاد کے لئے نقصان دہ ہے ، اس فن کی کلیتا کبھی تردید نہیں کرتے ۔ چنانچہ فلسفہ جس کی تردید کی نسبت غزالی کی طرف معروف ہے اور انہیں ناقدِ فلسفہ ہی کے وصف سے جانا جاتا ہے ۔ جب غزالی فلسفہ پر بھی تنقید کرتے ہیں تو اپنی تحریر میں مخاطب کا لحاظ رکھتے ہوئے فنِ فلسفہ کی ابحاث کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں اور صرف اس پہلو کی تردید پر اکتفاء کرتے ہیں جو واقعتا تردید کے قابل بھی ہو اور اس مقامِ بحث میں موزوں بھی ہو ۔ تہافۃ الفلاسفہ کے مقدمے میں غزالی نے ان لوگوں پر سخت تنقید کی ہے جو علومِ فلسفہ میں الہیات سے اختلاف کی بناء پر اس کے ان حصوں کی بھی تردید کی جسارت کرتے ہیں جن کی بنیاد حتمی اور یقینی مقدمات پر ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
“القسم الثانی ما لا یصدم مذھبھم فیہ اصلا من اصول الدین ، ولیس من ضرورۃ تصدیق الانبیاء منازعتھم فیہ ، کقولھم ان الکسوف القمری عبارۃ عن انمحاء ضوء القمر بوسظ الارض بینہ وبین الشمس ، والارض کرۃ ، والسماء محیط بھا من الجوانب ، فاذا وقع القمر فی ظل الارض انقطع عنہ نور الشمس ۔۔۔۔ وھذا الفن ایضا لسنا نخوض فی ابطالہ اذ لا یتعلق بہ غرض ومن ظن ان المناظرۃ فی ابطال ھذا من الدین فقد جنی علی الدین و ضعف امرہ ، فان ھذہ الامور تقوم علیھا براہین ھندسیۃ حسابیۃ لا یبقی معھا ریبۃ ”
ترجمہ : اختلاف کی دوسری قسم وہ ہے جس میں مذہب کے اصولوں میں سے کسی بھی اصل سے نزاع نہیں ہوتا اور نہ انبیاء کی تصدیق کا منشاء یہ ہے کی اہلِ فلسفہ سے اس بارے میں نزاع کیا جائے ۔مثلا ان کا یہ قول کہ چاند گرہن کی وجہ یہ ہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے ۔کیونکہ چاند سورج سے روشنی مستعار لیتا ہے اور زمین ایک کرہ ہے اور آسمان اسکے اطراف گھرا ہوا ہے ۔جب چاند پر زمین کا سایہ پڑ جائے تو اس سے سورج چھپ جاتا ہے ۔اس قسم کی باتوں میں ہمیں ابطال کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔کیونکہ یہ چیزیں مذہبی اصول سے متصادم نہیں ہیں ۔ جو لوگ خوامخواہ ان باتوں کو بھی مذہب سے مناقشہ پر محمول کرتے ہیں وہ خود شریعت کی بے وقعتی اور اسکے معاملے کو کمزور کرتے ہیں ۔ کیونکہ ایسے امور کا علم ہندسہ ریاضیہ کے ایسے دلائل پر قائم ہوتا ہے جس میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہتا ۔
2۔تفہیم قبل از تنقید کا اہتمام
غزالی کا یہ رویہ تمام فنون کے متعلق نظر آتا ہے کہ جب تک وہ کسی بھی فن پر مکمل غالب نہیں آ جاتے اس وقت تک اس پر تنقید کی ابتداء نہیں کرتے ۔ غزالی نہ صرف خصم کے دلائل کو خود سمجھنے پر اکتفاء کرتے ہیں بلکہ تنقید سے پہلے مقابل کے مذہب کو ان کے دلائل کے ساتھ مدون کرتے ہیں تاکہ کسی کے ذہن میں تنقید قبل از تفہیم کا شبہہ بھی باقی نہ رہے ۔ چنانچہ باطنیہ پر ” المستظہری ” لکھنے سے قبل اور فلاسفہ پر تہافہ لکھنے سے قبل مقاصد لکھنے کا غزالی نے ایسا اہتمام کیا کہ ان کے بعض ہم عصر اس معاملہ میں ان سے خفاء ہوئے ۔ خفگی کی وجہ یہی تھی کہ غزالی نے انکے مذاہب کے ایسے ایسے گوشوں کو واضح کیا کہ شاید اگر وہ خود اپنے مسلک یا مذہب کی تائید میں کتاب لکھتے تو ایسا نہ کر سکتے ۔ انکے مذاہب کو دلائل فراہم کرنا بعض علماء کو ناگوار گزرا ۔لطفی جمعہ لکھتے ہیں :
” أخذ يدرس مبادئ الطائفة التعليمية فابتدأ بطلب كتبهم كما فعل في كتب الفلسفة، وترتيب كلامهم ورتبه ترتيبًا محكمًا مقارنًا للتحقيق، واستوفى الجواب عنه حتى أنكر بعض أهل زمانه من العلماء عليه مبالغته في تقرير حجتهم، وقالوا إن هذا سعي لهم أي لطائفة التعليمية، وإنهم كانوا يعجزون عن نصرة طائفتهم لولا تحقيق الغزالي وترتيبه.
ترجمہ : فلاسفہ کی کتب کی طرح سب سے پہلے غزالی نے فرقہء باطنیہ کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کیا ۔ ان کے کلام کو خوب تحقیق کر کے ترتیب دیا اور پھر اسکے شافی جوابات دئیے ۔غزالی کے بعض ہم عصر علماء نے باطنیہ کے دلائل میں ان پر مبالغے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ یہ کوشش تو تعلیمیہ کے حق میں مفید ہے کیونکہ اگر غزالی تحقیق و ترتیب نہ دیتے تو لوگ از خود یہ کام کرنے سے عاجز تھے ۔
خود غزالی نے ” المنقذ من الضلال ” میں اس شبہے کو ان الفاظ میں رفع کیا ہے :
“لكن في شبهة لم تنشر ولم تشتهر ، فأما إذا انتشرت ، فالجواب عنها واجب ولا يمكن الجواب عنها إلا بعد الحكاية. نعم ، ينبغي ألا يتكلف إيرادها ، ولم أتكلف أنا ذلك ، بل كنت قد سمعت تلك الشبهة من واحد من أصحابي المختلفين إليّ ، بعد أن كان قد التحق بهم ، وانتحل مذهبهم ، وحكى أنهم يضحكون على تصانيف المصنفين في الرد عليهم ، بأنهم لم يفهموا بعد حجتهم. وذكر تلك الحجة وحكاها عنهم. فلم أرض لنفسي أن يظن فيّ الغفلة عن أصل حجتهم ؛ فلذلك أوردتها ، ولا أن يظن بي أني وإن سمعتها لم أفهمها ؛ فلذلك قررتها. والمقصود أني قررت شبهتهم إلى أقصى الإمكان ، ثم أظهرت فسادها بغاية البرهان ۔”
ترجمہ : یہ اعتراض اس وقت درست ہو سکتا ہے جبکہ شبہہ شائع نہ ہوا ہو لیکن جب شبہہ شائع ہو جائے تو اسکا جواب دینا واجب ہے ۔اور جواب اصل شبہہ کی تقریر سے قبل ممکن نہیں ہے ۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ زبردستی کر کے شبہہ پیدا نہ کیا جائے چنانچہ میں نے کوئی شبہہ بذریعہ ء تکلف پیدا نہیں کیا ۔بلکہ یہ شبہات میں نے اپنے احباب میں سے ایک ایسے شخص سے سنے جو اہلِ تعلیم میں شامل ہو گیا تھا ۔اور انکا مذہب اختیار کر چکا تھا ۔وہ کہتا تھا کہ اہلِ تعلیم ان مصنفین کی تصانیف پر جو وہ اہلِ تعلیم کے رد میں تصنیف کرتے ہیں ہنستے ہیں کیونکہ انہوں نے اہلِ تعلیم کے دلائل کو سمجھا ہی نہیں ۔ چنانچہ اسی دوست نے ان دلائل کو ذکر کیا اور اہلِ تعلیم کی طرف ان کو حکایتا ذکر کیا ۔مجھے یہ گوارا نہیں ہوا کہ میری طرف یہ نسبت کی جائے کہ میں ان لوگوں کے اصل دلائل سے ناواقف ہوں ۔پس میں نے اسی لئے انہیں بیان کیا اور مقصودِ کلام یہ ہے کہ جہاں تک انکے دلائل کی تقریر ممکن تھی میں نے کی اور پھر انکا دلیل سے فاسد ہونا ظاہر کیا ۔
کمنت کیجے