Home » جمع بین النقیضین اور ہیگل کی جدلیات کی غلطی
شخصیات وافکار فلسفہ

جمع بین النقیضین اور ہیگل کی جدلیات کی غلطی

ایک صاحب نے ایک تحریر کی جانب توجہ دلائی جس میں جرمن فلسفی فریڈرش ھیگل (م 1831ء) کی جدلیاتی منطق(dialectical        logic)  کو استعمال کرتے ہوئے جمع بین النقیضین کے اصول (law        of        non-contradiction)پر نقد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس اصول کے مطابق “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”، یہ دونوں حکم کسی شے میں ایک ساتھ جمع (true) نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ دونوں میں سے صرف ایک ہی درست ہوسکتا ہے۔ صاحب تحریر کا متعلقہ تجزیہ کئی طرح کی اغلاط سے پر ہے اور اس میں بے معنی دعوے کئے گئے ہیں جیسے اے اے ناٹ کے مساوی ہوتا ہے، سرخ ہے کے اندر سرخ نہ ہونا پایا جاتا ہے، سرخ ہونا سرخ نہ ہونے کے مساوی ہے، وجود محض کے اندر عدم پایا جاتا ہے وغیرہ۔ اس سب تجزیہ کاری کا حاصل یہ کہنا ہے کہ بنیادی تصور وجود نہیں بلکہ “بکمنگ” (becoming) ہے جس میں وجود و عدم جمع ہوجاتے ہیں، لہذا جمع بین النقیضین کا اصول غلط ہوا۔ مصنف مزید تجزیہ کاری کرتے ہوئے یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ اہل مذہب کا خدا کو وجود کہنا ھیگل کی منطق کی رو سے غلط ہے کیونکہ بنیادی تصور بکمنگ ہے نہ کہ وجود محض۔ اس سب کی دلیل اس مدعا پر رکھی گئی ہے کہ اشیاء اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں (       thing        are        known         by        their opposites)۔ اس کا مطلب یہ مقرر کیا گیا ہے کہ جب تک شے کا غیر نہ ہو، نہ صرف یہ کہ وہ قابل شناخت و تمییز نہیں بلکہ موجود بھی نہیں ہوتی۔ اس تحریر میں ہم بنیادی امور کی تنقیح کریں گے تاکہ اس تجزئیے کی غلطی واضح ہوسکے، وما توفیقی الا باللہ۔

1۔ وجود محض اور عدم کا مطلب

بات کو سمجھنے کے لئے چند امور کو سمجھنا لازم ہے۔ وجود محض اور عدم کا مطلب، نقیض اور ضد کا مطلب اور اشیاء کا تعارف ضد سے ہوتا ہے کا دائرہ کار۔ جونہی یہ تصورات درست طور پر سمجھ لئے جائیں، جمع بین النقیضین پر ھیگل کی جدلیات کی بنیاد پر کیا گیا نقد بے معنی ہوجاتا ہے۔

وجود محض

انسان بذریعہ حس کثیر جزیات (particulars) کا مشاہدہ کرتا ہے جن میں کسی ایک پر صادق آنے والا مفہوم کسی دوسرے پر درست نہیں ہوتا۔ مثلاً زید، عمر، صہیب، گھوڑا، مرغا، درخت، پھول، دیوار، پتھر، سرخ، سفید وغیرہ۔ عقل انہیں کلیات (universals) کے تحت جمع کرتی ہے۔ جیسے زید عمر و صہیب سب انسان کی کلی میں جمع ہیں، انسان، گھوڑا و مرغا حیوان کی کلی میں، پھر حیوان، درخت اور پھول جسم نامی (growing        body)کی کلی میں، پھر جسم نامی ، پتھر اور دیوار جسم کی کلی میں، پھر جسم جوھر (atom) کی کلی میں۔ اسی طرح مختلف اعراض (modes        or        accidents) جیسے سرخ و نیلا “رنگ” کی کلی میں جمع ہیں، رنگت وغیرہ کیف (quality) کی کلی میں، کیف و کم (quantity)  وغیرہ عرض کی کلی میں۔ اس کے بعد جوھر و عرض “وجود فی الحیز”  (being        in        space) کی کلی میں جمع ہیں۔ جوں جوں ہم جزیات پر لاگو متعین قید (مثلاً زید ہونا، عمر ہونا، گھوڑا ہونا، درخت ہونا وغیرہ) ھٹاتے چلے جاتے ہیں، جزیات اپنی سے اوپری کلی یا زیادہ وسیع تر تصور وجود میں ضم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اگر ہم تمام قیود بشمول “حیز” (یا مکان) ھٹا دیں تو آخر میں “وجود محض یا وجود مطلق” باقی رہے گا، یعنی صرف “ہونا یا پایا جانا”۔ اسے یوں بھی سمجھئے کہ گھوڑا ہے، سرخ ہے، انسان ہے، دیوار ہے وغیرہ میں آخری سطح پر “ھویت” (is-ness) مشترک ہے۔ اس “وجود محض” کا مزید تجزیہ و تحلیل ناممکن ہے کیونکہ اس کی تحلیل کے لئے جو بھی چیز فرض کی جائے گی اسے بہرحال “ہونا” ہوگا۔

یہاں ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے کہ کلی کا خارجی (extramental) وجود ہوتا ہے یا نہیں، متکلمین اسلام کی ایک جماعت کے نزدیک اس کا خارجی وجود نہیں اور ان متکلمین کے نظام فکر میں ھیگل کا سارا تجزیہ محض لفظی (verbal) ہے۔ لیکن چونکہ ھیگل کا نظام فکر اسے فرض کرتا ہے تو ہم اس کے مفروضے پر بات کریں گے۔

عدم کا مطلب

عدم (non-existence        or        nothing) کے بارے میں تین باتیں سمجھنا ضروری ہیں:

الف)      عدم ثبوتی (existential) شے نہیں بلکہ نفی محض (pure        negation)ہے، یعنی یہ “نہ ہونا “(negation         or        absence        of        being) ہے۔ “نہ ہونا” کوئی ذات ہے، نہ کوئی ماھیت ہے اور نہ ہی یہ کسی کی صفت ہے بلکہ یہ ان امور کا بس “نہ ہونا” (absence) ہے جس کی از خود کوئی خارجی ثبوتی حیثیت نہیں۔

ب)         عدم ایک اضافی یا اعتباری (relative) تصور ہے نہ کہ مطلق یا حقیقی (absolute)، جبکہ وجود حقیقی تصور ہے۔ “عدم مطلق یا محض”  (absolute or        pure        non-existence) کوئی شے نہیں اور نہ ہی متحقق ہے، عدم مطلق یا محض تب متحقق ہوسکتا ہے جب کوئی وجود سرے سے نہ ہو، نہ ممکن الوجود اور نہ ہی واجب الوجود۔ اگر کوئی ایک بھی شے موجود ہے تو عدم کا تحقق محال ہے کیونکہ ایک ذات موجود ہے اور وجود کے ہوتے ہوئے عدم کا کوئی مطلب نہیں۔ عدم دراصل ایک ایسا اعتباری (relative) تصور ہے جو ممکن الوجود (یعنی حادث) سے متعلق ہے نہ کہ وجود محض یا واجب الوجود سے۔ جو اعتباری عدم مفہوم ہوتا ہے وہ دو مقید موجودات کی تقدیم و تاخیر سے جنم لیتا ہے، جیسے دو جزیات کی تقدیم و تاخیر میں ایک موجود اور دوسرا غیر موجود ہو یا واجب الوجود اور ممکن الوجود کی وجودی تقدیم و تاخیر۔ مثلاً میرے والد کی پیدائش کے وقت میں معدوم تھا تو یہاں “زاہد کا عدم” مفہوم ہوا نہ کہ “عدم مطلق یا عدم محض”۔ جب جزیات پر لاگو سب قیود ھٹا کر وجود محض باقی رہ جائے تو اعتباری عدم کا تصور ختم ہوگیا کہ اب صرف وجود “ہونا” رہ گیا اور ایسی کوئی قید نہیں جس پر نفی وارد کرکے عدم مفہوم ہوسکے کیونکہ عدم نفی ہے۔ الغرض عدم زمانی و مکانی جزیات کی نفی سے مفہوم ہوتا ہے اور یہ اعتباری عدم دراصل وجود کے مقابلے پر نہیں بلکہ زمان و مکان کے مقابلے پر بولا جاتا ہے، یعنی جب یہ کہا جاتا ہے کہ “جب عالم نہ تھا تو عدم تھا” تو یہاں عدم یا زمان کے مقابلے پر ہے اور یا مکان کے نہ کہ وجود محض کے، وجود تو ازل سے متحقق ہے بھلا اس کے مقابلے پر عدم کیسے آسکتا ہے؟ تو اس بات کو سمجھئے کہ عدم کوئی “مطلق نہ ہونا” نہیں ہے۔ ایسا مطلق عدم نہ ذات باری کے اعتبار سے متحقق ہے کہ وہ ذات ازل سے ہے اور نہ تخلیق کے بعد مخلوق کے اعتبار سے جبکہ کوئی نہ کوئی مخلوق موجود ہو۔ یعنی معاملہ یوں ہے:

  • ذات باری ازل سے موجود ہے، تو ذات باری کے لحاظ سے عدم ثابت نہ ہوا
  • تخلیق کے بعد کوئی نہ کوئی مخلوق موجود تو پھر بھی عدم متحقق نہ ہوا، اور سب مخلوقات ختم کردی جائیں تو بھی عدم مطلق متحقق نہیں ہوا کہ ذات باری موجود ہے

ج)          اب یہ سمجھئے کہ وجود محض پر عدم دائر نہیں ہوسکتا کیونکہ وجود پرائمری تصور ہے۔ “عدم محض” بطور تصور “وجود محض” کے سامنے صرف اس طور پر مفہوم ہے کہ متحیز (spatial) وجود معدوم ہے لیکن غیر متحیز موجود ہے۔ اس اعتبار سے عدم (یعنی متحیز کے نہ ہونے) کا انتزاع وجود مطلق سے ہوتا ہے، اگر وجود محض نہ ہو تو عدم محض کا کوئی تصور بھی مفہوم نہیں۔ خوب سمجھ رکھنا چاھئے کہ اس عدم محض کا اطلاق وجود مطلق پر ممکن ہی نہیں کیونکہ وہ واجب الوجود ہے۔ اسے یوں بھی سمجھئے کہ عدم نفی سے عبارت ہے اور نفی ثبوت پر دائر ہوتی ہے۔ چنانچہ نفی مفہوم ہونے کے لئے خود وجود اور ثبوت کے سوا کوئی ریفرنس نہیں (یعنی پہلے ذھن میں “ثبوت” متصور ہوگا پھر اس پر نفی دائرہ ہونا مفہوم ہوگی)۔ الغرض “ہونے” کو اپنے تحقق اور تعارف دونوں کے لئے عدم کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ تصور عدم ہے جو وجود سے منتزع ہو کر صرف ذھناً مفہوم ہوپاتا ہے (نہ کہ خارج میں کہیں موجود ہوتا ہے)۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ وجود عدم سے مفہوم ہوتا ہے یا یہ دونوں مساوی ہیں یا عدم وجود کے اندر ہوتا ہے، وہ بنیادی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہے کیونکہ عدم نفی ہے اور نفی کسی ثبوت پر ہی لاگو ہوسکتی ہے۔ الغرض وجود بنیادی (primary) تصور ہے اور قائم بالذات ہے جسے کسی سے غیریت (contrast) کی نسبت رکھنے کی ضرورت نہیں، نہ تحقق میں اور نہ تعقل میں۔

اس گفتگو کا حاصل یہ کہ وجود پرائمری، ثبوتی اور مطلق ہے جبکہ عدم ثانوی، نفی اور اعتباری ہے جو قیودات کے کسی خاص تناظر میں لاگو ہوتا ہے۔ ان دونوں میں وجودیاتی مساوات (ontological        parity) فرض کرلینا، یہ زیر بحث جدلیات کی بنیادی غلطی ہے اور اسی غلطی کی وجہ سے یہ نظام فکر دو امور کو خلط ملط کردیتا ہے:

  • نسبتی نفی یا اعتباری عدم (یعنی ایک “تصوری غیر موجودگی” جو زمان سے مشروط حالات میں پائی جاتی ہے)
  • وجود محض (یعنی وجودِ مطلق، جو کسی بھی شرط سے آزاد ہوتا ہے)

ہم آگے دیکھیں گے کہ یہ غلطی ہی اس دعوے کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے کہ بکمنگ میں بینگ (being)اور نتھنگ (nothing)جمع ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ دو مختلف کیٹیگریزی (یعنی “مطلق” اور “اضافی”) کے درمیان غلط مساوات کو فرض کرلینا ہے۔

2۔     اشیاء کی معرفت ضد سے ہونے” کا اصول نقیضین نہیں ضدین سے متعلق ہے

مدعی کا دعوی اس بات پر قائم ہے کہ ہر شے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ ایک علمیاتی بیان ہے جسے آگے بڑھ کر مدعی نے یہ وجودیاتی معنی بھی پہنا دیا ہے کہ “شے اپنی ضد کی وجہ سے موجود ہوتی ہے”۔ گویا “الاشیاء تعرف باضدادھا” کو انہوں نے “الاشیاء توجد باضدادھا” قرار دیا ہے۔ لیکن یہ سب کرتے ہوئے یہ دھیان بھی نہیں رکھا گیا کہ “اشیاء کا تعارف ضد سے ہوتا ہے” کا اصول نقیضین (contradictories) سے نہیں بلکہ ضدین (contraries) سے متعلق ہے۔ پہلے ان کا فرق سمجھیں۔

ضدین اور نقیضین کا مطلب

ضدین وہ دو قضایا ہیں جو ایک ساتھ درست (true) تو نہیں ہوسکتے لیکن ایک ساتھ غلط (false) ہوسکتے ہیں، اس لئے کہا جاتا ہے کہ ضدین کا جمع ہونا محال ہے مگر ان کا مرتفع ہونا ممکن ہے۔ جیسے کسی شے کا کالا ہونا اور سفید ہونا، تو ہم کہیں گے کہ ایک ہی شے بیک وقت یا ایک ساتھ کالی و سفید نہیں ہوسکتی لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ نہ کالی ہو اور نہ سفید ہو (مثلا کچھ اور رنگ کی ہو یا رنگ اس پر لاگو ہی نہ ہو)۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ضد کا تعلق دو ثبوتی امور (affirmative        statements        or        positive        attributes) کو کسی شے پر دائر کرنے سے پیدا ہوتا ہے، جیسے جب یہ کہا کہ “ایک شے سفید ہے یا کالی ہے”، تو سفید ہونا اور کالا ہونا دو ثبوتی دعوے ہیں جو رنگ کی کلی سے ہیں لیکن یہ دونوں بیک وقت ایک محل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے ضدین کا بیک وقت ارتفاع جائز ہوتا ہے، یعنی دونوں بیک وقت معدوم ہوسکتے ہیں کیونکہ ضدین کے مابین وجود اور عدم کی نسبت نہیں ہوتی بلکہ اس نسبت کے دونوں جانب وجود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نقیضین ایسے دو قضایا ہیں جو نہ بیک وقت درست ہوسکتے ہیں اور نہ بیک وقت غلط، یعنی ان دونوں میں سے ایک لازما درست ہوگا۔ اس کی مثال یہ ہے: “شے یا الف ہے اور یا الف نہیں ہے (مثلا شے یا سفید ہے اور یا سفید نہیں ہے)”۔ نقیض ایک ہی شے پر ایک ہی جہت سے ایک ساتھ اثبات (وجود) اور نفی (“لاوجود”) لاگو کرنے سے عبارت ہے (جیسے کہا جائے کہ “یہ شے یا پنسل ہے اور یا پنسل نہیں ہے”، نہ یہ کہ “یہ شے یا پنسل ہے اور یا قلم ہے” کہ موخر الذکر ضد کا تعلق ہے)۔ اسی لئے اگر ضدین کو نقیضین (یعنی اثبات و نفی) کی صورت ڈھال دیا جائے تو پھر ایک لازما درست ہوگا اور دونوں کا جمع و ارتفاع محال ہوگا، جیسے کہا جائے کہ “ایک شے یا سفید و کالی ہوگی اور یا سفید و کالی نہیں ہوگی” (یا یوں کہا جائے کہ شے یا سفید ہوگی اور یا سفید نہیں ہوگی وغیرہ)۔

اشیاء کی معرفت اور نقیضین

اشیاء کی معرفت ضد سے ہوتی ہے، یہ اصول نقیض کی نسبت پر لاگو ہی نہیں ہوتا کیونکہ نقیض “وجود و عدم کی نسبت” ہے اور ہم اوپر دیکھ چکے کہ وجود کا تحقق و تعقل قطعاً عدم پر منحصر نہیں۔ پھر یہ بھی واضح ہے کہ عدم کسی شے کی حقیقت و ماھیت کے تعین میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا کہ یہ بس نفی (نہ ہونا) ہے۔ مثلاً “سفید نہ ہونا” سفیدی کی ماھیت طے کرنے یا اس کی تعریف مقرر کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ اسی طرح روشنی کا وجود کسی بھی طرح اندھیرے (یعنی روشنی نہ ہونے) کا رھین منت نہیں۔ اگر صرف دن ہی دن (یعنی روشنی) ہو اور رات (روشنی کا عدم وجود) کبھی نہ ہو تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوگیا کہ روشنی معدوم ہے نیز روشنی کا ہونا اور روشنی کا نہ ہونا مساوی ہے؟ اسی طرح اگر میں ہاتھ میں کچھ چھپا کر کسی سے کہوں کہ میرے ہاتھ میں جو ہے وہ نہ کالا ہے نہ سفید، نہ نیلا ہے نہ ہرا، نہ انسان ہے نہ گھوڑا وغیرہ اور اس پر اس طرح کئی مزید نفیاں (negations) بھی وارد کردوں تو اس سے یہ قطعاً معلوم نہ ہوگا کہ ہاتھ میں کیا ہے۔ الغرض عدم کسی وجود و ماھیت کے تعین ہونے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتا کیونکہ عدم نفی ہے اور بس۔ لہذا اس اصول کو نقیض سے متعلق فرض کرکے تجزیہ کرتے چلے جانا نری کیٹیگری مسٹیک ہے۔

اشیاء کی معرفت اور ضدین

اب یہ سمجھئے کہ ضدین میں یہ اصول کیوں کام کرتا ہے۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ضدین کا تعلق ایک جنس میں مستقل طور پر پائے جانے والی دو صفات میں جاری ہوتا ہے جیسے رنگ کی کلی میں کالا و سفید۔ ضدین میں سے ہر ایک “وجود” کی مختلف حالتوں (variation) کے ساتھ اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے اور اپنی خاص تعیین کے طور پر ان میں سے ہر ایک کا وجود نہ اپنی ضد کے اور نہ ہی خود اپنے عدم سے متحقق ہوتا ہے۔ ضدین کی نسبت ہمیں اشیاء کا تعارف اس لئے کراتی ہے کیونکہ اس نسبت میں گندھی ہوئی دونوں اشیاء وجود کی حالتوں کی عکاسی کرتی ہیں نہ کہ وجود اور عدم کے مابین۔ باالفاظ دیگر ضد کی نسبت ہمیں “بذریعہ عدم” نہیں بلکہ ثبوتی یا وجودی صفات کے درمیان امتیاز کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ “اشیاء کی معرفت ضد سے ہوتی ہے” کا اصول بذات خود وجود کے فریم ورک کے اندر لاگو ہے جہاں وجود کی مختلف حالتوں سے ہم انہیں ایک دوسرے سے ممیز کرتے ہیں۔ عدم نہ کسی شے کی تعیین اور نہ ہی شناخت کا ذریعہ ہے۔ سرخ ہونے کا مطلب نہ تو صرف “سرخ نہ ہونے” سے سمجھ آسکتا ہے اور نہ ہی سرخ ہونے میں سرخ نہ ہونے کا مفہوم شامل ہے اور نہ ہی سرخ کا وجود سرخ نہ ہونے سے ماخوذ ہے، ہاں جب “سرخ وجود” کے سامنے ایک دوسرا مقید مثلا “نیلا وجود” آئے تو اب ہم ان دو وجودوں کے مابین نسبت قائم کرکے ان میں تمیز قائم کرلیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ تمیز قائم کرنا ان دونوں کا خارجی وجود متحقق کرنے کے ہم معنی نہیں۔ خارج میں میری جانب سے شناخت کرنے سے قبل سرخ اور نیلا دونوں متحقق تھے۔ خلاصہ یہ کہ اشیاء وجود کے پردے پر مختلف حالتوں میں جھلک کر اپنی الگ شناخت حاصل کرتی ہیں نہ کہ عدم میں شرکت کی بنا پر۔

“اے مساوی ہے اے ناٹ” دعوے کی لغویت

جب یہ معلوم ہوگیا تو یہ بات سمجھ آگئی کہ “سرخ ہونا” اور “سرخ نہ ہونا” مساوی ہے نیز “سرخ کے اندر ہی سرخ کا نہ ہونا ہے”، یہ سب لغو جملے ہیں۔ سرخ کی شناخت (نہ کہ تحقق) “بطور سرخ” اگر نیلے کے وجود پر ہی منحصر ہو تب بھی اس سے یہ بات نہیں نکلتی کہ “سرخ ہونا = سرخ نہ ہونا”، بلکہ اس سے یہ بات نکلی کہ “سرخ نہ ہونا = مثلا نیلا ہونا” (کیونکہ یہ نیلا ہے جو سرخ نہیں ہے)۔ تو “سرخ نہ ہونے” ہی کو “سرخ ہونا” کہنے کا مطلب یہ بنا کہ “سرخ ہونا = نیلا ہونا” جس کی لغویت بالکل ظاہر ہے۔ ذرا جملوں کی ترتیب پر غور کیجئے۔ مدعی کا کہنا ہے کہ:

سرخ ھونا = سرخ نہ ھونا

لیکن یہ سوچئے کہ “سرخ نہ ھونے” کا اطلاق کس پر ہے؟ یعنی وہ کیا ہے جو سرخ نہیں؟ ہماری مثال میں وہ “نیلا ہونا ہے” جو سرخ نہیں۔ تو بات یہ ہوئی:

سرخ نہ ہونا = نیلا ہونا

تو مدعی کے دعوے پر نتیجہ نکلا:

سرخ ہونا = نیلا ہونا

جس کا لغو ہونا ظاہر ہے کیونکہ مدعی نے خود کہا کہ “سرخ ہونا” الگ ہے اور “نیلا ہونا” بہرحال الگ، تبھی سرخ سرخ ہوا نہ کہ نیلا۔ چنانچہ درست بات یہ ہے کہ:

سرخ ھونا ≠ نیلا ھونا (≠ کا مطلب ناٹ ایکول یا مساوی نہ ہونا)

اور چونکہ

نیلا = سرخ نہ ھونا

لہذا

سرخ ہونا ≠ سرخ نہ ہونا

یہ درست منطق ہے اور مدعی کا دعوی نری لغویت ہے۔ یہی لغویت “اے کی اے ناٹ” اور بطریق اولی “وجود محض کی عدم سے مساوت” کے دعوے میں پائی جاتی ہے۔

پس ہمیں دو باتیں معلوم ہوگئیں: وجود محض پرائمری تصور ہے جو اپنے تحقق و تعقل دونوں میں عدم کا محتاج نہیں۔ اسی طرح کوئی ایک مقید وجود خود اپنے اوپر لاگو قید سے اپنی ماھیت کا تحقق پاتا ہے جبکہ کسی دوسرے مقید وجود کی بنا پر اس سے تمیز حاصل کرتا ہے اس لئے کہ دونوں میں وجود کا حال الگ ہے۔ عدم نہ کسی شے کے تحقق میں اور نہ تعقل میں کردار ادا کرتا ہے۔

نتائج بحث

زیر بحث گفتگو میں مدعی کی جانب سے جس جدلیات کو استعمال کیا گیا ہے اس کی رو سے ایک تھیسز (thesis) اور اینٹی تھیسز (anti-thesis) مل کر ایک سنتھیسز (synthesis) کی تشکیل کرکے اس میں جمع ہوجاتے ہیں (لیکن یاد رہے کہ دونوں کی یہ جمع “من وجہ” ہوتی ہے)۔ یہاں تھیسز اور اینٹی تھیسز دونوں ثبوتی اور نتیجتاً ضد کی نسبت کے حامل ہوتے ہیں نہ کہ نقیض (وجود و عدم) کی، لیکن خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے اس تجزئیے میں اسے نقیض سے متعلق کہہ دیا گیا ہے۔ ھیگل کی جدلیات میں پیش کردہ جس بھی مثال پر غور کیجئے وہ دو ثبوتی امور کے مابین ضد کے تعلق پر استوار ہوگی جسے صرف لسانیاتی زور پر نقیض کہہ کر جمع بین النقیضین کے اصول کے خلاف دلیل کہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس جدلیاتی تجزئیے میں دو غلطیاں پنہاں ہیں:

الف)      ایک طرف ایک اضافی ذھنی تصور (یعنی عدم) کو ایک مستقل حقیقت (یعنی وجود محض) کے مساوی لاکھڑا کرکے دونوں کو ایک دوسرے کے ہونے و شناخت کی بنیاد قرار دیا گیا جو کہ صریح غلطی اور کیٹیگری مسٹیک ہے

ب)         دوسری طرف جو گفتگو ضدین سے متعلق تھی، اسے صرف مبالغے کے زور پر نقیضین سے متعلق قراردیا گیا جو دوسری کیٹیگری مسٹیک ہے

یہ وہ دو غلط مفروضے ہیں جن سے یہ بوگس نتیجہ پیدا کیا گیا کہ بکمنگ میں وجود و عدم جمع ہوجاتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ وجود محض کا عدم کے ساتھ موازنہ (contrast) و مساوات کا مفروضہ ہی غلط در غلط ہے، نہ “وجود محض” عدم پر منحصر ہے اور نہ ہی اس کی شناخت اس سے ہوتی ہے اور نہ ہی عدم وجود محض کے ساتھ یا اس کے اندر ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس پر زائد کیونکہ عدم صرف زمانی و مکانی موجودات کی ترتیب، تقدیم و تاخیر وغیرہ سے ذھناً مفہوم ہونے والا ایک اعتباری تصور ہے۔ اس لئے وجود محض اور عدم کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح ہمارے تجزئیے سے یہ بھی واضح ہے کہ وجود محض ایک غیر نسبتی و مستقل حقیقت کے طور پر ثابت رہتا ہے، وجود محض کی نہ کوئی ضد ہے اور نہ کوئی نقیض، وہ قائم بالذات ہے۔ وجود محض تو ایک طرف، عدم کا تصور تو کسی مقید وجود کے تحقق و شناخت میں بھی کارگر نہیں، یہاں تک کہ ایک اور مقید وجود اس کے سامنے آئے۔ مدعی کی جانب سے یہ ترکیب بھی استعمال کی گئی کہ “وجود محض کے اندر عدم ہوتا ہے”، یہاں “اندر” کا استعمال ہی لغو ہے کیونکہ یہ لفظ بظاہر “جزئیت” کا عندیہ دیتا ہے جو یہ فرض کرتا ہے کہ وجود کی مزید تجزی و تحلیل ابھی ممکن ہے جبکہ جو وجود جزئیت کو قبول کرے وہ وجود محض ہوتا ہی نہیں۔

جسے یہ دوست “بکمنگ” کہتے ہیں، یہ صرف ضدین (یعنی زمانی و مکانی تقییدات والے یا حادث وجودوں) کے مابین نسبت کے طور پر ہی قابل فہم اور صرف ان کی توجیہہ کے لئے استعمال ہوسکنے والا تصور ہے۔ دوسرے لفظوں میں بکمنگ کا دائرہ اگر کچھ ہے تو وہ حوادث (یعنی دو جزیات کے من وجہ کسی کلی میں جمع ہوجانے) کے سلسلے سے متعلق ہے نہ کہ ماورائے حوداث “وجود محض” اور کسی فرضی عدم محض کے کسی برتر یا ماوراء کلی میں جمع ہوجانے سے۔ پس عقل پوری قوت کے ساتھ یہ کہتی ہے کہ پرائمری تصور وجود ہی ہے نہ کہ بکمنگ کہ موخر الذکر صرف مقید موجودات پر لاگو ہوسکتا ہے۔ زیر بحث جدلیات کی بنا پر “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی” اور اس سے ثابت جمع و ارتفاع نقیضین محال ہونے کے اصول پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مدعی نے آقا و غلام وغیرہ قسم کی جتنی بھی مثالیں اپنے مدعا پر پیش کی ہیں، ان کی غلطی زیر بحث مقدمے کو ثابت نہ کرسکنے کے ضمن میں روز روشن کی طرح عیاں ہے جن پر کوئی تبصرہ کرنا ضیاع اوقات ہے، ان میں سے کوئی بھی نقیضین کی مثال نہیں۔ ہم بحث کو مزید طول نہیں دینا چاہتے ورنہ یہ بھی بتاتے کہ مدعی نے حقیقت محضہ، حقیقت محضہ مع اضافت اور اضافت محضہ کو بھی خلط ملط کردیا ہے۔

بات ختم کرنے سے قبل تحریر سے متعلق ایک آخری نکتہ یہ کہ اہل اسلام کی وجودی فکر، جو صوفی روایت میں اہمیت کی حامل ہے، میں اس سوال پر بھی غور کیا گیا کہ آخر اس عالم میں ضدین کی صورت موجودات کی جو رنگا رنگی و تنوع پایا جاتا ہے اس کی بنیاد کیا ہے؟ شیخ ابن عربی کی روایت کے مطابق اس کا جواب الله تعالی کے اسماء ہیں جو ان متضاد اثرات کا اصلی راز ہیں کیونکہ کائنات اس کے اسماء کا مظہر ہے: وہ ذات  محی بھی ہے اور ممیت بھی، معز بھی ہے اور مذل بھی، معطی بھی ہے اور مانع بھی، باسط بھی ہے اور قابض بھی، عادل بھی ہے اور غفور بھی ، ظاھر بھی ہے اور باطن بھی، اول بھی ہے اور آخر بھی وغیرہ ۔ بے شک سب تعریفیں اور کمال الله ہی کے لئے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں