عمران شاہد بھنڈر
جدلیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہیگل کے بعد ارسطو کی منطق کے تین قوانین اب صرف مخصوص سطوح یعنی ظاہری شناختوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور گہرے، پیچیدہ، متضاد اور مبنی بر حرکت سماجی و تاریخی عمل کی تفہیم کے لیے ناکافی ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو کے لاجک کا پہلا اصول کہ اے برابر ہے اے، پیچیدہ تر سماجی اور تاریخی عمل میں غیر متعلق ہو جاتا ہے، کیونکہ ہیگل باریک منطقی تجزیے میں یہ ثابت کر چکا تھا کہ اے، اے کے برابر نہیں بلکہ ناٹ اے کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہیگل نے منطق کا آغاز ”وجودِ محض“ سے کیا تھا، یعنی وجود کے آغاز سے جب کوئی دوسرا وجود نہیں ہوتا۔ ”وجودِ محض“ موجود تو تھا، لیکن عدم تھا۔ اس کی تفصیل ہم اگلی سطور میں پیش کریں گے۔ یہ نکتہ واضح رہے کہ منطق کا بنیادی قضیہ چونکہ فکر کی درستی سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے ہیگل کی منطق میں بھی مقولات کا درست استخراج ان کی داخلی و خارجی حرکت سے از خود ناگزیر طور پر ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اس اہم نکتے پر خصوصی نظر رکھنی ہے کہ کوئی بھی مقولہ کانٹین مقولات کی مانند تجریدی سطح پر پہلے سے موجود نہ ہو، بلکہ وہ ایک متضاد حرکت کے عمل میں از خود بطور لزوم ظاہر ہو۔ میں اس مضمون میں اس سوال کو قابلِ فہم بنانے کی کوشش کروں گا کہ اے اور ناٹ اے ایک دوسرے کو خارج نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے میں سرایت کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے ارسطو کے قوانین کی حدود واضح ہو جائیں گی۔ ارسطو کہتا ہے،
When the assertion is true, the negation is false, and when this is true, the affirmation is false. Metaphysics, Book, 4, P, 39
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اے کا اثبات کرنا ہے تو ناٹ اے کی نفی کرنی ہوگی۔ اور اگر ناٹ اے کا اثبات کرنا ہے تو اے کی نفی کرنی ہو گی۔ یہی ارسطو کے منطقی قوانین میں سب سے بنیادی نقص ہے کہ اس میں ’افتراق‘ کو وجود کے اندر نہیں، بلکہ وجود کے باہر دیکھا جاتا ہے اور وجود کے اندر سے ہر طرح کے افتراق کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ قانون کُلی، ظاہری اور تجریدی “شناخت” کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن پیچیدہ سماجی و تاریخی معاملات میں ارسطو کی منطق ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ مثلاََ جوں ہی ہم ارسطو کی منطق کے تحت آقا اور غلام کے تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آقا اور غلام مستقل سماجی رشتے ہیں جو مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں یہ بات درست نہیں ہے۔ یہاں مختصراََ یہی کہوں گا کہ اگر غلام نہ ہو تو آقا کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اور معمولی غور کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آقا کی شناخت غلام کی مرہونِ منت ہے۔ اگر آقا اپنی شناخت کے لیے غلام کا غلام ہے تو اسے آقا کیونکر کہا جا سکتا ہے؟ ارسطو کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو غلامی کے مسئلے سے منطقی سطح پر نبرد آزما نہیں ہو پاتا، اور غلام کی مستقل ”شناخت“ کو تسلیم کر لیتا ہے۔ انہی قضایا سے منطقی طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے ہیگل لاجک کا آغاز ”وجودِ محض“ سے کرتا ہے اور اسی وجودِ محض کو وہ عدم سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی وجود تو ہے لیکن وہ وجودِ محض ہے، آغاز میں وہ خصائص سے عاری ہے۔ اب یہ بات بظاہر بہت مشکل دکھائی دیتی ہے۔ ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی شے کو اس کے خصائص سے محروم کر کے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب مشکل نہیں ہے۔ جب “شے” کی حقیقت کو سمجھنا ہو تو اس کا آغاز اس کی ابتدا سے کرنا چاہیے۔ “تیار شدہ” شے میں بھی ایک “مکمل” پروسیس شامل ہوتا ہے۔ اس پروسیس کو ابتدا سے مکشوف ہونا چاہیے۔ ابتدا سے داخلی و خارجی مقولات پر گرفت کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، تاہم جونہی ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہمارے لیے قابلِ فہم ہو جاتا ہے۔ ارسطوئی منطق سے ہم یہ بات اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ ایک شے کی شناخت کسی دوسری شے سے ہوتی ہے۔ یعنی اے صرف اے ہے جو بی کو خارج کرتا ہے۔ دلچسپ امر یہاں یہ ہے کہ ہیگل کے لاجک میں وجود جو کہ اے ہے وہی ابتدا میں ناٹ اے ہے۔ وجہ یہ کہ آغاز میں وہ وجود کسی صفت کا حامل نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے ’آقا‘ کی مثال پیش کی ہے، اسی طرح اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی رنگ ہے، یعنی ایک کے علاوہ کوئی دوسرا رنگ نہیں ہے تو اس رنگ کا تعین ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے غلام کے بغیر آقا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک رنگ کی شناخت کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرا رنگ ہو۔ اب ارسطو کے نزدیک اگر دو رنگ سرخ اور سفید موجود ہیں تو وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو خارج کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ارسطو نے چیزوں کو آغاز سے ان کے ”بننے“ کے عمل میں نہیں دیکھا۔ یہی ارسطو کی منطق کی بنیادی غلطی ہے کہ جو رنگ سرخ کو اس کی شناخت فراہم کر رہا ہے اور اسے قابلِ فہم بنا رہا ہے، ارسطو اسے سرخ سے خارج کر دیتا ہے۔ ارسطو یہ دیکھنے میں ناکام رہتا ہے کہ سرخ کا سرخ ہونا ہی اس کو سرخ نہیں بناتا بلکہ سفید کا ہونا اس کو سرخ بناتا ہے۔ اگر سفید نہ ہوتا تو سرخ کو سرخ کہنا محال تھا۔ لہذا رنگ اپنی کُلی حیثیت میں خود کی نفی کرتا ہے۔ سرخ کا سرخ ہونا سرخ کو متعین نہیں کرتا، بلکہ سرخ کا کچھ اور (سفید) نہ ہونا اس کی تعیین کی وجہ ہے۔
یہاں پر قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سرخ کو جو رنگ اس کی شناخت دے وہی سرخ اس سفید کی وجہ سے اپنے سرخ ہونے کو دیکھ پائے لیکن اپنے اندر اس کمی کو نہ دیکھ پائے جو کہ اس سفید کی وجہ سے دور ہوتی ہے اور اس سے سرخ کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ سرخ محض سرخ ہی نہیں بلکہ وہ بیک وقت سرخ نہیں بھی ہے۔ چونکہ سرخ کا ہونا اس کی کمی یا ناٹ سرخ کی وجہ سے ہے اس لیے سرخ ایک ہی وقت میں ناٹ سرخ ہے۔ لہذا سفید جو کہ سرخ سے باہر ہے وہ سرخ کے ناٹ سرخ کو عیاں کرتا ہے، ایک ایسا ناٹ سرخ جو خود سرخ کے اندر موجود ہے۔ بالکل یہی اصول سفید پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک سفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے اندر کمی یا ناٹ سفید (سرخ) کو نہیں دیکھ لیتا۔ ہیگلیائی جدلیات کے ان مفاہیم کے تحت ارسطو کی منطق کی اہمیت ختم نہیں ہوتی، صرف اس کی حدود کا تعین ہوتا ہے۔ جب ارسطو کی منطق کی حدود کا تعین ہو جائے تو وہ تمام مباحث جو تناقض کو اپنے اندر قبول نہیں کرتے، ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
اس مختصر بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارسطو کے قانونِ شناخت کے مطابق کوئی بھی شے (اے) صرف اپنے برابر ہوتی ہے اور دوسری شے (بی) بھی صرف اپنے برابر ہوتی ہے۔ لیکن اے اور بی کے درمیان فرق قائم کرنے کے لیے دونوں کا ’ہونا‘ اور “نہ ہونا” ضروری ہے، بصورتِ دیگر اے کی شناخت بھی ممکن نہیں ہو گی، یا یوں کہیں کہ اے کی شناخت تجریدی ہوگی، جبکہ ’فرق‘ ایک ایسا مقولہ ہے جو اے کی تجریدی حیثیت کی نفی سے پیدا ہوتا ہے۔ ہیگل یہ تسلیم کرتا ہے کہ جب تک اے ’دوسرے‘ سے ربط میں نہ آئے اس وقت تک وہ ایک ”مطلق شناخت“ رکھتا ہے جس کو ’ممیز‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ہیگل کے الفاظ دیکھیے،
It is possible to define being as A=A, as ‘A bsolute In difference’ or Identity and so on. SL, Section, 86
لہذا یہاں پر ہیگل، ارسطو سے متفق ہے، اس اضافے کے ساتھ کہ یہ ایک ’شناخت‘ ہے، یا اسے ایسی شناخت کہہ سکتے ہیں جو ”مطلق عدم افتراق“ کی بنیاد پر تجریدی نوعیت کی ہے۔ یعنی اس مرحلے پر ہم صرف کسی شے کے ہونے تک محدود رہتے ہیں، لیکن وہ شے اپنے “جوہر” میں کیا ہے اس کا علم حاصل نہیں ہو پاتا۔ تاہم”دوسرے“ سے ’ربط‘ کے بعد جو فلسفیانہ مقولہ مستخرج ہوتا ہے وہ ’افتراق‘ ہے جو کوئی شے اے اپنے دوسرے سے رکھتی ہے۔ آئیے اس مقولے کو تھوڑا قریب سے دیکھتے ہیں۔ پہلے ہیگل کے الفاظ ملاحظہ کیجیے،
ؑEverything is identical with itself, A=A: and, negatively, A cannot at the same time be A and not A. This maxim, instead of being a true law of thought , is nothing but the law of abstract understanding. Logic, Section, 115
اے برابر اے ایک مطلق عدم افتراق ہے، جو کہ فہم کا قانون ہے نہ کہ حسیات کا۔ تجریدی فہم کے یونیورسل قانون کی نفی جزئی سے ہوتی ہے اور فہم کا تجریدی قانون جزئی میں تبدیل ہوتا ہے، اس وقت جب وہ ’دوسرے‘ سے ربط میں آتا ہے۔ دوسرے (ناٹ اے) سے ربط میں آکر افتراق کا مقولہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اہم ترین سوال یہاں پر یہ ہے کہ ’فرق‘ کا مقولہ کہاں سے اخذ ہوا یا یہ کہاں واقع ہے؟ اے میں عدم افتراق اور ناٹ اے کے ساتھ افتراق اخذ ہوا، تو کیا افتراق اے کے اندر واقع ہے؟ جواب اثبات میں ہے، کیونکہ خالص فکر کا وجود (Being) اس کے اندر ہے، باہر نہیں۔ لہذا داخلی انعکاس سے ناٹ اے کے مکشوف ہونے سے عدم افتراق کا خاتمہ ہوا، دونوں کا عدم افتراق، افتراق میں بدل گیا۔ خود ہیگل یہ واضح کرتا ہے کہ جب تک ’دوسرا‘ نہ ہو، شناخت تجریدی ہی رہتی ہے اور صرف فرق کی بنیاد پر ہی ”حقیقی“ شناخت قائم ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ یہ افتراق دراصل ہے کہاں جو کہ ’دوسرے‘ سے ارتباط کے بعد نمایاں ہوا ہے؟ اگر تو یہ افتراق اے اور ناٹ اے دونوں کے درمیان ہے تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اے کا فرق اے کے اندر ہے۔ لہذا اے ہی ہے جو کہ خود میں ناٹ اے کو رکھتا ہے، اور ناٹ اے ہی ہے جس میں اے موجود ہے۔ جو “خارجی” ہمیں دکھائی دیتا ہے یہ دراصل اس تجریدی اے کے اندر ہے۔ ہیگل لکھتا ہے،
Essence is mere identity and reflection in itself only as it is self relating negativity, and in that way self repulsion. It contains therefore essentially the characteristic of Difference. SL, Section, 116
مطلب یہ کہ اے کا جوہر اے کے خود سے متعلق ہونے اور خود میں منعکس ہونے میں ہے۔ یہ نفی کسی خارجی وجود کی نہیں بلکہ اے کے اندر اے کی نفی ہے، جسے ناٹ اے کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر وضاحت کی ہے کہ فہم کے تجریدی، یونیورسل کی پارٹیکولر (ناٹ اے) سے نفی ہوتی ہے تو وہی جزئی ہے جو کہ ناٹ اے کہلاتا ہے۔ لہذا افتراق کا مقولہ خارج میں نہیں بلکہ اے کے اندر ہے۔ جبکہ ارسطو کے پہلے دونوں قوانین کے تحت اے اور بی ایک دوسرے کو خارج کرتے ہوئے ”مطلق عدم افتراق“ کی بنیاد پر تجریدی شناخت کے حامل ہیں۔ ارسطو اے کے اندر اے کا فرق اور بی کے اندر بی کے فرق کو نہ دیکھ سکا۔
اب تک ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اے کے اندر سے ناٹ اے کیسے برآمد ہوتا ہے۔ اس حصے میں ہم یہ وضاحت کریں گے کہ اے برابر اے جو کہ ایک یونیورسل تجریدی شناخت ہے، اس کے اندر سے اس کا پارٹیکولر (ناٹ اے) کیسے مکشوف ہوتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر یہ یاد دہانی کرا دی جائے کہ ارسطو کے لاجک میں اے ایک “بنا بنایا” وجود ہے۔ جدلیاتی منطق میں اے صرف اے کے برابر نہیں ہوتا بلکہ اے، ناٹ اے کے برابر ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ہیگل کے لاجک میں ’وجود‘ فہم کا معروض ہے، حس کا نہیں۔ کیونکہ اگر وہ حس کا معروض ہو گا تو پارٹیکولر ہوگا نہ کہ یونیورسل۔ یونیورسل چونکہ فہم کا معروض ہے اس لیے اسے پارٹیکولر ہونے کے لیے اس کی ضد درکار ہے، اور یہ ضد یا اس کا اُلٹ اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔یونیورسل وہ ہوتا ہے جو اپنے برابر ہو۔ لیکن پارٹیکولر اس یونیورسل کی نفی سے حاصل ہوتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہیگل کے الفاظ ملاحظہ کریں کہ اگر یہ کہا جائے،
A planet is a planet; Magnetism is magnetism; Mind is Mind are, as they deserve to be, reputed silly. That is certainly a matter of general experience . The logic which seriously propounds such laws and the scholastic world in which alone they are valid have long been discredited with practical common sense as well as with the philosophy of reason. SL, Section, 115
اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ سیارہ کیا ہے؟ جواب یہ ملے کہ سیارہ تو سیارہ ہے، تو یہ جواب احمقانہ تصور کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے کوئی بھی بات واضح نہیں ہو سکی۔ اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ انسان کیا ہے؟ جواب یہ ہو کہ انسان تو انسان ہے، تو یہ جواب بھی احمقانہ ہوگا۔ لہذا ابتدائی مرحلے پر سیارہ اور انسان دونوں ہی کچھ واضح نہیں کرتے۔ یعنی سیارہ ہمارے لیے کوئی شے نہیں بلکہ لاشے ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں سیارہ (اے) برابر ہے سیارہ (ناٹ اے)۔ کیونکہ تجریدی سطح پر شناخت عدم افتراق کی حامل ہوتی ہے اور تجریدی وجود کے چونکہ خصائص نہیں ہوتے، اس لیے وجود (اے) غیر وجود (ناٹ اے) کہلائے گا۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ انسان انسان کے برابر ہے تو وہ بھی تجریدی یونیورسل ہو گا جو کہ ناٹ انسان کے مساوی ہوگا کیونکہ تجریدی یونیورسل میں صفات کا تعین ابھی تک نہیں کیا گیا۔ سیارے کی وضاحت کے لیے سیارے اور انسان کی تعریف متعین کرنے کے لیے تجریدی ’انسان‘ کی نفی کرنی ہو گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ زمین ایک سیارہ ہے جو اپنے مدار کے گرد گردش کرتا ہے، تو اس سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ بصورت دیگر سیارہ سیارے کے برابر ہے ایک تجریدی فہم کا قانون ہے جس پر، بقول ہیگل، علم الکلام کی بنیاد استوار ہے، جو تجربے میں غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ لہذا تجریدی یونیورسل (اے) جو کہ لاشے (ناٹ اے) ہے، یہ اپنی صفات کی تخصیص میں ایک پارٹیکولر کہلائے گا۔ یہاں ہم اس کو یوں بیان کریں گے،
اے = اے نہیں، بلکہ اے = ناٹ اے۔ یہ اسی طرح یونیورسل انسان ہے جو بیک وقت اے اور ناٹ اے ہے۔ اس کے برعکس جب یونیورسل انسان کی نفی ہوتی ہے جیسیا کہ یونیورسل (اے) کی نفی پارٹیکولر (ناٹ اے) سے ہوئی۔ پارٹیکولر میں یونیورسل کی رد و نمو ہوئی، یعنی انسان کہیں پیچھے نہیں رہ گیا بلکہ اس کے تجریدی (ناٹ اے) کی نفی ہوئی اور فرد میں دونوں ہی مجتمع ہو جاتے ہیں۔ لہذا ہم اسے یوں لکھیں گے:
اے = ناٹ اے یا ناٹ اے = اے
اے + ناٹ اے یا ناٹ اے + اے = اے
یہ واضح رہے کہ ہیگلیائی فلسفے میں یونیورسل، تجریدی، عدم یا لاشے (Nothing) ایک ہی چیز ہیں۔ عدم کے مفہوم کو مزید سمجھنے کے لیے ہم اس آیت پر غور کرتے ہیں۔
”ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو خلق کیا۔ تب زمین بے ڈول اور سنسان تھی۔ اور گہراؤ کے اوپر تاریکی چھائی ہوئی تھی اور خدا کا روح پانی پر جنبش کرتا تھا۔
خدا نے کہا روشنی ہو جاو اور روشنی ہو گئی۔ خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور اس نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔”
کتاب پیدائش، 1: 1-2
ہمیں ان آیات کا مکمل تجزیہ درکار نہیں ہے۔ بلکہ روشنی اور اندھیرے کی مثال سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک کے بغیر دوسرا عدم تصور کیا جاتا ہے۔ ”عدم” کا یہی تصور ہے جو ”کتاب پیدائش” میں پیش کیا گیا ہے۔ آیات سے واضح ہے کہ آغاز میں اندھیرا تھا، روشنی نہیں تھی۔ اندھیرا ”مطلق عدم افتراق” کا حامل تھا، اس کی شناخت متعین نہیں تھی۔ وہ اپنے برابر تھا، لیکن عدم کی عکاسی کرتا تھا۔ کیونکہ ابھی اندھیرے کو اپنا الٹ (روشنی) نہیں ملا تھا کہ دونوں ممیز ہو پاتے اور دونوں ہی شناخت کے حامل ٹھہرتے۔ دونوں میں سے کسی ایک کی ’موجودگی‘ عدم کہلاتی ہے۔ اس لیے اگر ”الٹ” نہ ہو تو ہر شے یونیورسل یا ”عدم” ہوتی ہے۔ لہذا اندھیرا اس ”تجریدی یونیورسل” کا حامل تھا، جسے ”عہد نامہ قدیم” کی زبان میں ”عدم” کہا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اندھیرا موجود تو تھا، لیکن ممیز نہ ہونے کی وجہ سے عدم تھا۔ اگر آغاز میں اندھیرے کی جگہ صرف روشنی ہوتی اور اندھیرا نہ ہوتا تو وہ بھی یونیورسل ہوتی اور اس لحاظ سے اندھیرے کے متماثل ہوتی کہ اسے بھی ممیز نہ کیا جا سکتا تھا۔ یعنی وہ بھی ”مطلق عدم افتراق” کی حامل ہونے کی وجہ سے ”عدم” ہی کہلاتی۔ ہیگلیائی فلسفے میں انہی معنوں میں یونیورسل عدم کا متماثل کہلاتا ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ لاشے سے صرف لاشے پیدا ہو سکتی ہے۔ یعنی عدم سے وجود ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کا ماننا تھا کہ وجود سے ہی وجود پیدا ہو سکتا ہے۔ ہیگل یونانی فلسفے کا بے پناہ علم رکھتا تھا۔ اس کے پیشِ نظر عدم اور وجود میں مطابقت قائم کرنا تھا۔ اس لیے اس نے عدم کا ایک مختلف تصور پیش کیا۔ ہیگل سے قبل کانٹ نے بھی گہرے تجزیات پیش کیے تھے اور یہی نتیجہ نکالا تھا کہ چونکہ کُل کا تصور کُل کا ادراک نہیں کرا سکتا اس لیے کُل کا تصور ایک یونیورسل تصور تو کہلا سکتا ہے جو کہ عدم کے ہی متماثل ہو گا۔ کانٹ لکھتا ہے،
The object of a concept, to which no intuition can be found to correspond is e qual to Nothing. CPR, A290/B346
تصور میں اگر مشاہداتی معروض نہ ہو تو وہ لاشے یا عدم ہی متصور ہوگا۔ اس عدم کو فلسفیانہ اور منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے لازم تھا کہ اسے وجود سے تعلق رکھنے والے معروضات فراہم کیے جائیں۔ ہیگل قدیم فلسفیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے،
The ancients saw plainly that the maxim, From nothing comes nothing, from something something, really abolishes Becoming. SL, Section, 88
لہذا ہیگل کے پیشِ نظر اصل سوال وجود اور عدم کے درمیان مطابقت کی منطقی بنتر کو دریافت کرنا تھا جس میں وجود کے خصائص جو کہ عدم ہوتے ہیں، وہ وجود کی صفات کے طور پر تشکیل پاتے ہیں۔ یونیورسل حیثیت میں صفات کی عدم تعیین مطلق عدم افتراق کی حامل ہوتی ہے اور وجود کی صفات کا مستور سے مکشوف ہونا اس عدم سے نجات ہے جو کہ ”مطلق عدم افتراق“ یا تجریدی شناخت کا حامل تھا۔اس مرحلے پر آفاقی اپنے ہی جزئی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جزئی ایک صفت ہے جو کہ نفی کی حامل ہے۔ لہذا واضح رہے کہ عدم یا لاشے فقط ایک تصور ہے، شے کی صفت نہیں۔ ہیگل نے صفات کے تعین کے بغیر مادے کو بھی وجود محض اور ”تجریدی” کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مادہ موجود تو تھا، لیکن صفات کی عدم موجودگی میں عدم تھا۔ ہیگلیائی فلسفے میں فکر مادے میں موجود تھی اور مادہ فکر میں موجود تھا۔ صفات مستور تھیں، پھر مکشوف ہوئیں۔ جب دو چیزیں آمنے سامنے ہوں تو دونوں ہی یونیورسل نہیں رہتیں، بلکہ پارٹیکولر ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اکیلے خواہ اندھیرا ہو یا روشنی، دونوں برابر ہوتے ہیں۔
ہیگل کے بیشتر قارئین اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ سپرٹ کا مطلب ایک مذہبی خدا ہے جبکہ حقیقت میں یہ ایک ایسی قوت ہے جو فطرت اور انسان میں پائی جاتی ہے۔ ہیگل اس حوالے سے اس سطح پر چلا گیا تھا کہ وہ کائنات سے آغاز کرنے کی بجائے تاریخی کو ہی حقیقی آغاز سمجھنے لگا تھا۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ سپرٹ کا حقیقی اظہار تاریخ میں ہوتا ہے۔ یعنی سپرٹ اپنی حقیقی شکل میں خود کو تاریخی جدلیات میں ظاہر کرتی ہے نہ کہ فطرت میں! سپرٹ سے مراد وہ عقل ہے جسے اپنی ’مکمل‘ فعلیت کا شعور ہو چکا ہو۔ ’مکمل‘ فعلیت سے مراد یہ کہ فطرت، تاریخ اور فلسفے میں سے کوئی ایک بھی جُز ایسا نہ ہو جس کا ادراک عقل کو نہ ہوا ہو۔ فلسفہ چونکہ مقولات سے بحث کرتا ہے، اس لیے جُز کو بھی ایک مقولے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ہم اوپر یہ تجزیہ کر چکے ہیں کہ ہیگل کُلیت کی ”تکمیل” کے لیے اپنے فلسفے کا آغاز ایک تجریدی وجود سے کرتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تجریدی وجود ہر طرح کے خصائص متعین ہونے سے پہلے ہے۔ ہیگل صرف یہ واضح کرتا ہے کہ اگر ہم کلی تجریدی وجود سے آغاز کریں تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ آغاز میں تجریدی وجود ایک یونیورسل یا کُلی وجود ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کُلی وجود سپرٹ بھی ہو سکتی ہے اور فطرت بھی۔ تاہم انہیں اس کُلیت کو ابھی خصائص یا مقولات کے بتدریج استخراج سے ثابت کرنا ہے۔ فی الوقت اس کُلیت میں جُز شامل نہیں کیا ہے۔ ایک تجریدی کُلی وجود (سپرٹ) اس وقت تک تجریدی رہتا ہے جب تک اسے جُز دستیاب نہیں ہوتا۔ کُل یہ جُز خارج سے مستعار نہیں لیتا، بلکہ یہ جُز بطور خارج اس کے اندر ہی موجود ہوتا ہے جو داخلی انعکاس سے یونیورسل کی نفی سے پارٹیکولر کے طور پر مستخرج ہوتا ہے۔
ہیگل جب مسیحیت کا تجزیہ کرتا ہے تو اسی منطقی اصول کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر صرف سپرٹ (خدا) موجود ہو تو وہ ایک کُلی تجریدی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے لیے ایک مقرونی وجود کی ضرورت ہے، جس میں سپرٹ خود کی فعلیت کو دیکھ سکے۔ ہیگل کے فلسفے کے مطابق خود شعوری کی حامل اس عقل کا معروض (فطرت، کائنات) اس سے خارج میں نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر ہے، جس سے کہ وہ جدلیاتی رشتہ رکھتی ہے۔ اگر فطرت نہ ہو تو سپرٹ لاشے ہے، اور اگر سپرٹ نہ ہو تو فطرت لاشے ہے، کیونکہ یہ سپرٹ فطرت کی قوت ہے جو فطرت کے اندر موجود ہے اور یہ فطرت خود میں پنہاں سپرٹ کی اس فعلیت سے خود کو ظاہر کرتی ہے۔
اس نکتے کی مختصر وضاحت کے بعد اب ہم ہیگل کے فلسفہ مذہب کی طرف آتے ہیں۔ ہیگل کسی بھی صورت میں کسی بھی خیال یا تصور کو ان تمام مراحل سے گزارے بغیر قبول نہیں کرتا جو ”کلیت” کی تشکیل نہ کرے۔ جونہی وہ سپرٹ اور فطرت کی جدلیات سے تاریخ میں قدم رکھتا ہے جو کہ ہیگل کا حقیقی مطمع نظر تھا، وہ فطرت میں مضمر جدلیات کو فرد کی سطح پر لا کر فرد کی عملی فعلیت سے تشکیل دیتا ہے۔ فطرت اور سپرٹ کی جدلیات میں تین لمحات تھے۔ جیسا کہ سپرٹ اور فطرت کا کُلی تجریدی وجود اور ان دونوں کی جدلیات، جس میں ظاہر ہوا کہ فطرت سپرٹ میں اور سپرٹ فطرت میں موجود ہے۔ تاریخ کے تجزیے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سپرٹ فطرت سے فرد میں نمو کر گئی ہے۔ چونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سپرٹ خود شعوری کی حامل عقل ہے، جو کہ فرد میں نمو پا چکی ہے۔ فطرت کی مقرونی شکل فرد کا وجود ہے جس میں کہ سپرٹ موجود ہے۔ لہذا فرد میں موجود سپرٹ فطرت کے ساتھ فرد کی عملی فعلیت سے ربط میں آتی ہے۔ ہیگل جب یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح سپرٹ کا مقرونی اظہار ہیں تو اس کی مراد صرف حضرت مسیح سے نہیں، بلکہ بحیثیت کُل بنی نوع انسان سے ہے۔ کیونکہ یہ سپرٹ (خود شعوری کی حامل عقل) ہر انسان میں موجود ہے۔ ہیگل یہ کہتا ہے کہ مسیحیت کا خدا (سپرٹ) اگر انسانی روپ نہ دھارتا تو وہ ایک تجریدی کُلی وجود رہتا جو کہ لاشے تھی۔ ہیگل کا یہی وہ باکمال نتیجہ ہے جس سے مسیحی متکلمین ہیگل کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور یہی وہ نتیجہ ہے جو ہیگلیائی جدلیات کی خصوصیت ہے جس کے مطابق جناب مسیح ہوں یا کوئی بھی زید بکر، انہیں اپنی شناخت کے لیے تاریخی عمل سے گزرنا ہے، بصورتِ دیگر وہ تجریدی کُلی وجود سے آگے نہیں بڑھتے۔ ہیگل کی عظمت یہ ہے کہ وہ انسان کو خدا (سپرٹ) اور خدا کو انسان میں تبدیل کرتے ہوئے خدا کا ایک ایسا سیکولر تصور تشکیل دیتا ہے کہ جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی مسیحی پادری کتراتے ہیں۔ کیونکہ خود شعوری کی حامل عقلیت دنیا میں موجود ہے اور اس کا اعلیٰ اظہار ہیگل کا فلسفہ ہے۔ اس لیے الگ سے کسی خدا کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہیگل نے ”مطلق“ کا ایک جداگانہ تصور پیش کیا جس کے تحت فلسفہ ہی مذہب اور فن کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ یہ خود شعوری کی حامل عقلیت کی برتری ہے کہ ’مطلق‘ (فلسفہ، مذہب یا سپرٹ، آرٹ) کا تصور ممکن ہو پایا ہے۔
یہودیت کے خدائی تصور میں خدا خود کو ظاہر نہیں کرتا۔ بائبل کی پہلی آیت کچھ یوں ہے کہ ابتدا میں ”خدا کا روح پانی پر جنبش کرتا تھا۔“ اس سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ خدا سپرٹ ہے، لیکن یہ سپرٹ لا شے ہے جب تک وہ مقرونی کائنات میں خود کو ظاہر نہیں کرتی۔ چونکہ یہودیوں کے تصورِ خدا میں سپرٹ نے خود کو کائنات میں تو ظاہر کر دیا، تاہم وہ تاریخ میں خود کو ایک فرد کی صورت ظاہر نہ کر سکی۔ ہیگلیائی منطق میں اسے یوں لکھا جائے گا کہ سپرٹ (کُلی) انسان (جزئی) اور فرد (مسیح یا زید، بکر) کی تثلیث قائم نہیں ہو سکی۔ اس لیے یہودیت کا تصورِ خدا اس کُلیت کی تشکیل قائم نہیں کر پایا جو کہ مسیحیت میں قائم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہودیت کا تصور خدا ایک تجریدی کلی وجود سے آگے نہیں آیا۔ چونکہ ہیگل کا تمام فلسفہ کانٹین تصور دوئی کا خاتمہ کرتا ہے، اس وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے کُلیت کے حامل فلسفے میں یہودی تصورِ خدا کے تحت اس ثنویت کو برقرار رکھتا جس کا خاتمہ اس کی اولین ترجیح تھی۔ اگر ہیگل کے اٹھارہ سو اکتیس کے لیکچرز پڑھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اس نے اپنے اسی فلسفے کے تحت مسیحی پادریوں کے پارسائی کے تصور کی دھجیاں بکھیر دی تھیں جس کے تحت جناب مسیح دنیا کی زندگی میں عملی شمولیت کے بغیر ہی واپس چلے گئے تھے اس لیے دنیا سے احتراز نیکی کی شرط ہے۔ ہیگل یہ وضاحت کرتا ہے کہ فرد کی بطور فرد تشکیل اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہے جب تک وہ معاشرے کا حصہ نہ بنے، اور اپنی عملی فعلیت کے ذریعے خود کو معاشرے میں معروضی شکل نہ دے۔ فرد کی وہ فعلیت جو اس میں مضمر سپرٹ (خود شعوری کی حامل عقل) کے تابع ہو اور وہی فعلیت معروضی سطح پر استوار ہو۔ وہ ہی معروضی سپرٹ کہلاتی ہے۔
ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مختلف ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خارج میں ایک مستقل وجود موجود ہے اور وہ ہر سطح پر داخل سے متصادم ہے، بلکہ وجود کا ایک داخلی پہلو ہے اور اسی وجود کا ایک خارجی پہلو ہے اور دونوں کے درمیان جدلیاتی تعلق ہے۔ یہ رسمی منطق میں پیش کیے گئے تناقض کی مانند نہیں ہے، بلکہ یہ تضاد جو کہ ’فرق‘ کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے یہ ایک ہی شے کے دو مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی وجود خود میں، خود کے لیے اور خود میں اور خود کے لیے کیسے تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح اس ثنویت کا خاتمہ ہوتا ہے جو نہ صرف افلاطون کے فلسفے میں موجود تھی، بلکہ یہی ثنویت ارسطو کی منطق میں قانون شناخت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس ثنویت سے نبرد آزما ہونا ہیگلیائی منطق کا بنیادی پہلو ہے۔ جونہی ثنویت کو فرق اور تضاد وغیرہ جیسے مقولات کی بنیاد پر چیلنج کیا جاتا ہے، ان مقولات کے مفاہیم یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پھر چیزیں ایک دوسرے کو خارج میں موجود پا کر ان کو خود سے خارج نہیں کرتیں، بلکہ خود میں داخلی انعکاس کے نتیجے میں خارجی پہلو بطور لزوم پیدا ہوتا ہے۔ اور خارجی پہلو میں داخلی پہلو شامل رہتے ہیں۔ ابتدا میں ایک ہی وجود ہے، اس کا کوئی خارج نہیں ہے، کیونکہ خارج تو ابھی وجود میں نہیں آیا، داخلی انعکاس خارجی کو منکشف کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ خارج بعد میں پیدا ہوتا ہے اور کوئی وجود پہلے سے موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ داخل و خارج کی تفریق اور خارج کے استخراج کی ترتیب صرف تفہیم کی غرض سے کی گئی ہے۔ اگر وجود ایک ہے تو اس سے الگ خارج کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ’ایک‘ نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ ’دوسرا‘ بھی موجود ہے۔ اس کو مختصراََ اس طرح بیان کیا جائے گا کہ ایک ہی شے کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک مقرونی اور دوسرا تجریدی۔ یعنی ایک سپرٹ اور دوسرا وہ مقرونی جس میں سپرٹ موجود ہے۔ یہاں پہلے اور بعد کی کوئی تفریق موجود نہیں ہے۔ یہ تفریق محض تجزیے کی خاطر کی جاتی ہے، نہ کہ یہ حقیقی تفریق ہے۔ سپرٹ اسی وقت مطلق ہوتی ہے جب اس کا اُلٹ یا تضاد اس کے اندر سے باہر آئے، اگر اس کا تضاد اس سے باہر موجود ہے تو وہ ’’مطلق‘‘ نہیں کہلا سکتی۔ خواہ وہ مذہبی خدا ہو یا ہیگلیائی مفہوم میں سپرٹ۔ مطلق وہی ہے جو کُل کااحاطہ کیے ہوئے کُل میں شامل ہو۔
کمنت کیجے