اللہ کا نام لے کر اس عنوان پر تحریری سلسلے کی ابتدا کی جا رہی ہے۔ اندازہ نہیں کہ یہ کتنے شذرات ہوں گے اور کتنے وقت میں مکمل ہو جائیں گے، لیکن کوشش یہی ہوگی کہ بہت ضروری نکات تک ہی گفتگو کو محدود رکھا جائے اور کم سے کم وقت میں ترجیحاً اس گفتگو کو مکمل کر لیا جائے۔
گفتگو کا مقصود، جیسا کہ عنوان سے واضح ہے، اس مسئلے کا ایک عمومی جائزہ لینا ہے کہ وحی سے استناد حاصل کرنے والی دنیا کی دو بڑی مذہبی روایتوں کو عقل اور ایمان کے باہمی تعلق کے حوالے سے کن بڑے سوالات کا سامنا رہا ہے اور ان کے کیا جوابات عموماً دیے گئے ہیں۔ گفتگو کے پہلے حصے میں مسیحی الہیات اور یونانی عقلیت کے فکری تعامل سے اور دوسرے حصے میں اسلامی الہیات اور یونانی فلسفے کے تعامل سے سامنے آنے والے سوالات ومواقف کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا۔ دونوں روایتوں کے عمومی جائزے کے بعد تیسرے مرحلے پر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ جدید دور میں ان دونوں فکری دھاروں کے باہمی ارتباط اور مکالمے کے مشترک نکات کیا ہو سکتے ہیں۔ مباحث کا بہت گہرا اور دقیق تجزیہ اس سلسلے میں پیش نظر نہیں ہے۔ اصل مقصود ایک عمومی تصویر پیش کرنا ہے جس سے، گفتگو کے آخر مین مشترک نوعیت کے سوالات کی شناخت میں مدد مل سکے۔
اس ترتیب کے پیچھے یہ بنیادی مفروضہ کام کر رہا ہے کہ مختلف تہذیبیں فکری سوالات کے ساتھ اپنے خاص تاریخی تناظر میں ہی نبرد آزما ہوتی ہیں۔ چنانچہ بہت سے سوالات ایک تہذیبی تناظر میں تو اہمیت رکھتے ہیں، لیکن دوسرے میں نہیں رکھتے۔ اسی طرح کئی سوالات جو بظاہر مشترک دکھائی دیتے ہیں، ان پر گفتگو کا سیاق ایک تہذیب میں کچھ اور، اور دوسری تہذیب میں کچھ اور ہوتا ہے۔ اس نکتے کو ملحوظ رکھنے سے یہ بات بطور ایک علمی تقاضے کے سامنے آتی ہے کہ ظاہراً مشترک سوالات پر دو فکری روایتوں کا باہمی مکالمہ خاص طرح کی فکری توسیط کے بغیر کارآمد نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایک فکری روایت کے سوالات کو ان کے سیاق سے الگ کر کے بعینہ دوسری روایت میں درآمد نہیں کیا جا سکتا۔
کسی اجنبی فکری روایت کے متعلق، جس سے آدمی براہ راست متعلق نہ ہو، کوئی تجزیہ پیش کرنا بہت مشکل کام ہے اور بہت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے مسیحی روایت کے فہم اور تجزیے کے ضمن میں کوشش یہی رہے گی کہ اپنی طرف سے مباحث کی کوئی تعبیر پیش کرنے کے بجائے معروف علمی مآخذ اور ان میں پیش کردہ تعبیرات کے حوالے سے ہی بات کی جائے۔ اسلامی روایت سے متعلق ہماری بعض معروضات البتہ براہ راست تجزیے پر بھی مبنی ہو سکتی ہیں۔
مسیحی روایت میں عقل اور ایمان کے باہمی تعلق پر گفتگو کی عمومی ابتدا دوسری صدی عیسوی کے اواخر میں بتائی جاتی ہے جب اسکندریہ کے مسیحی عالم مقدس کلیمنٹ (Clement) نے افلاطون اور ارسطو کے فلسفیانہ تصورات کو مسیحی عقائد کی تائید کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے کو تیسری صدی میں اسکندریہ ہی کے ایک دوسرے عالم اوریجن (Origen) نے آگے بڑھایا اور چوتھی/پانچویں صدی عیسوی میں مقدس آگسٹین (St. Augustine) کے ہاتھوں مسیحی الہیات کی عقلی تشکیل کا پہلا مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ یونانی فلسفیانہ تصورات کے سانچے میں مسیحی عقائد کو ڈھالنے کی ابتدا دراصل پہلی صدی میں مقدس پولوس کے ہاتھوں ہو چکی تھی۔ بہرحال، مسیحی الہیاتی روایت کی تشکیل چونکہ یونانی فلسفے کے تناظر میں ہوئی، اس لیے اس کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے خود یونانی فلسفے میں زیرغور الہیاتی سوالات اور مواقف سے ایک عمومی آگاہی حاصل ہونا ضروری ہے۔
یونانی فلسفے میں الہیاتی مباحث جس فکری ماحول میں زیرغور آ رہے تھے، اس کے متعلق، فلسفے کے معاصر مورخ Anthony Kenny (اور دیگر کئی مورخین) کے اس بیان کو بنیادی نکتے کے طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے:
The fact is that the distinction between religion, science, and philosophy was not as clear as it became in late r centuries. (A New History of Western Philosophy, p. 10)
مراد یہ کہ مختلف الہیاتی سوالات پر یونانی فلاسفہ کا غور وفکر اس مفہوم میں ’’خالص عقلی’’ نہیں تھا جس مفہوم میں کافی آگے چل کر فلسفے نے اپنی مستقل شناخت قائم کی۔ اسی طرح طبیعی کائنات پر غور وفکر بھی ’’مذہبی’’ بنیادوں سے کلیتاً بری نہیں تھا۔ عالم طبیعی کے فہم اور ماورائی حقیقتوں کے متعلق نظریہ سازی میں یونانی فلاسفہ یقیناً مروجہ اساطیری مذہب سے ایک فاصلہ پیدا کرنے اور مذہبی تصورات کی تنقید کی کوشش کر رہے تھے، لیکن فلسفیانہ تعقل ابھی اس مرحلے تک نہیں پہنچا تھا جب ’’خالص عقلی’’ بنیادوں پر استنتاج کو فلسفیانہ غور وفکر کی لازمی شرط قرار دے دیا جائے۔
اس بنیادی نکتے کی روشنی میں ہم الہیاتی سوالات کے حوالے سے یونانی فلاسفہ کے ہاں مرکزی رجحانات کا ایک مختصر تعارف حاصل کریں گے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ وحی سے استناد کے بغیر یونانی فکر، محض عقلی سرگرمی سے کن کن پہلووں اور امکانات کی طرف متوجہ ہو چکی تھی اور الہیاتی مسائل کے ضمن میں کس طرح کے مختلف انداز فکر وجود میں آ چکے تھے۔
کمنت کیجے