زید حسن
3۔مراتب ِ اذہان کا خیال
غزالی کے ہاں مراتبِ اذہان کا خیال رکھنے کا خاص اہتمام ہے ۔ چنانچہ غزالی کے افکار کی تشریح کرتے ہوئے کسی بھی موضوع کے کسی بھی پہلو پر غزالی کی طرف کوئی نکتہء نظر حتمیت اور پورے یقین سے منسوب کرنا خاصا مشکل کام ہے ۔ کیونکہ انکی تمام تصانیف الگ معیارات کی ہیں جنہیں مخاطب کا لحاظ رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے ۔ چنانچہ بعض کتب عوام بعض خواص اور بعض اخص الخواص افراد کی استعداد اور ذوق کے مطابق لکھی گئی ہیں ۔ اس عمل نے جہاں غزالی کی فکر کے تجزیے کو مشکل بنایا ہے وہی ایک مثبت پہلو یعنی ایسا فکری تنوع بھی پیدا کیا ہے جس سے ہر ذوق اور صلاحیت کا انسان اپنی استعداد کے موافق مستفید ہو سکتا ہے ۔ غزالی نے اپنی تصنیفات میں جا بجا اس واقعہ کی نشان دہی کی ہے ۔چنانچہ “القسطاط المستقیم ” میں لکھتے ہیں :
“واعلم أن المدعو إلى الله تعالى بالحكمة قوم وبالموعظة قوم وبالمجادلة قوم ، فإن الحكمة إن غذي بها أهل الموعظة أضرت بهم كما تضر بالطفل الرضيع التغذية بلحم الطير. وأن المجادلة إن استعملت مع أهل الحكمة اشمأزوا منها كما يشمئز طبع الرجل القوي من الارتضاع بلبن الآدمي. وأن من استعمل الجدال مع أهل الجدال لا بالطريق الأحسن كما تعلم من القرآن كان كمن غذى البدوي بخبز البر وهو لم يألف إلا التمر أو البلدي بالتمر وهو لم يألف إلا البر۔”
ترجمہ : جان لو کہ جو لوگ خدا کی طرف حکمت سے بلائے جاتے ہیں وہ لوگ او ر ہیں ،جو نصیحت کے ذریعے بلائے جاتے ہیں وہ اور ہیں ،جو مجادلہ کے ذریعے بلائے جاتے ہیں وہ اور ہیں ۔پس اگر اہلِ نصیحت کو حکمت سکھائی جائے تو ایسی ہی مضر ہے جیسا کہ شیر خوار بچوں کے لئے پرندوں کا گوشت ،اگر اہلِ حکمت سے مجادلہ کیا جائے گاتو وہ اس سے ایسے ہی نفرت کریں گے جیسے طاقتور آدمی انسان کا دودھ پینے سے ،اور اگر اہلِ جدال سے عمدہ طریقے سے قرآن کی تعلیم کے مطابق مجادلہ نہ کیا جائے تو ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی بدوی کے لئے گیہوں کی روٹی ۔بدوی تمر چھوڑ کر کسی چیز کو پسند نہیں کرتا اور شہری صرف گیہوں ہی پسند کرتا ہے ۔
احیاء العلوم میں غزالی نے ان لوگوں پر تنقید کی ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ حقیقت شریعت کے خلاف ہے ۔ غزالی کا کہنا ہے کہ وجود کے تمام درجات اور اسمیں پائے جانے والے تمام امکانات شریعت ہی کا حصہ ہیں اگرچہ بعض بعض کے حق میں مفید اور دیگر بعض کے حق میں مضر ہیں ۔ لکھتے ہیں :
” من قال ان الحقیقۃ تخالف الشریعۃ او الباطن یناقض الظاھر فھو الی الکفر اقرب الی الایمان ،بل الاسرار التی یختص بھا المقربون بدرکھا و لا یشارکھم الاکثرون فی علمھا و یمتنعون عن افشائھا الیھم ”
ترجمہ : جو کہتا ہے کہ حقیقت شریعت کے خلاف ہے یا باطن ظاہر کی نقیض ہے اسکا یہ قول کفر سے قریب تر ہے ۔ بات یہ ہے کہ کچھ اسرار ایسے ہیں جن کا علم صرف مقربین کو ہے ۔دوسروں کو اسکا علم نہیں ہے ۔ اور مقربین کو اسکے اظہار سے منع کیا گیا ہے ۔
اسکے بعد غزالی نے پانچ اقسام کو مع امثلہ بطور توضیح ذکر کیا ہے ۔ جو درحقیقت وجود کی اقسام ہیں جنہیں اپنی کتاب ” فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ” میں تاویل کی بحث کے تحت بھی ذکر کر چکے ہیں ۔مقام کی مناسبت سے انہیں ذیل میں بیان کیا جاتا ہے جس سےغزالی کے اس رخ کی مکمل توضیح ہو جائے گی کہ ان کے ہاں اذہان اور معروض کی مناسبت کا کس درجہ خیال رکھا جاتاہے ۔
“الاول : ان یکون الشئی فی نفسہ دقیقا ، تکل اکثر الافھام عن درکہ ،فیختص بدرکہ عن الخواص،وعلیھم ان لا یفشوا الی غیر اھلہ فیصیر ذلک فتنۃ علیھم حیث تقصر افھامھم عن الدرک ۔واخفاء سر الروح و کف رسول اللہﷺ عن بیانہ من ھذا القسم فان حقیقتہ بما تکل الافھام عن درکہ و تقصر الاوھام عن درک کنھہ ۔ ولا تظنن ان ذلک لم یکم مکشوفا لرسول اللہ ﷺ۔ فان من لم یعرف الروح لم تعرف نفسہ ، ومن لم یعرف نفسہ کیف یعرف ربہ ؟”[3]
ترجمہ :پہلی قسم یہ کہ وہ چیز بذات اتنی دقیق ہو کہ اکثر لوگ اسکے سمجھنے سے عاجز رہیں ۔ اس طرح کے امور سے واقفیت رکھنے والے لوگ مخصوص ہوتے ہیں ۔ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان کا اظہار نااہل لوگوں کے سامنے مت کریں ۔ورنہ یہ بات ان کے حق میں فتنہ کا باعث بنے گی ۔اس لئے کہ وہ ان کے ادراک سے عاجز ہیں ۔روح کے راز کا اخفاء اور حضور ﷺ کا اسکے بیان سے رکنا بھی اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے ۔روح ان اشیاء میں سے ہے جن کی حقیقت کے ادراک سے انسانی فہم عاجز ہیں ۔اور وہم کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اسکی ماہیت کا تصور کر سکے ۔اس سے یہ گمان کرنا درست نہیں کہ یہ حضور ﷺ پر بھی واضح نہیں تھی ۔کیونکہ جو روح سے واقف نہیں وہ اپنے نفس سے بھی واقف نہیں اور جسے اپنے نفس کی معرفت حاصل نہ ہو اسے خدا کی معرفت کیونکر حاصل ہو سکتی ہے ؟
غزالی نے انبیاء کی متابعت میں اس قسم کے علوم اور حقائق کے حصول کا امکان اولیاء اور علماء کے لئے بھی ثابت کیا ہے لیکن شریعت کے ظاہر حکم کی پیروی میں اس پر سکوت کو مناسب کہا ہے ۔ غزالی کے نزدیک روح کے علاوہ خدا کی معرفت کے کچھ مخفی گوشے بھی ایسے ہیں جو اسی قسم میں داخل ہیں اور وہ بھی انبیاء کے علم میں ہوتے ہیں لیکن انبیاء اپنی اقوام کو بحیثیت کلی خدا کی معرفت کے اس درجے تک لے کر جاتے ہیں جہاں تک انکی عقلوں کے لئے جانا ممکن ہو ۔
” الثانی : الخفيات التي تمتنع الأنبياء والصديقون عن ذكرها ما هو مفهوم في نفسه لا يكل الفهم عنه لكن ذكره يضر بأكثر المستمعين ولا يضر بالأنبياء والصديقين وسر القدر الذي منع أهل العلم من إفشائه من هذا القسم فلا يبعد أن يكون ذكر بعض الحقائق مضراً ببعض الخلق كما يضر نور الشمس بأبصار الخفافيش وكما تضر رياح الورد بالجعل وكيف يبعد هذا وقولنا إن الكفر والزنا والمعاصي والشرور كله بقضاء الله تعالى وإرادته ومشيئته حق في نفسه وقد أضر سماعه بقوله إذ أوهم ذلك عندهم أنه دلالة على السفه ونقيض الحكمة والرضا بالقبيح والظلم وقد ألحد ابن الراوندي وطائفة من المخذولين بمثل ذلك وكذلك سر القدر لو أفشي لأوهم عند أكثر الخلق عجزاً إذ تقصر أفهامهم عن إدراك ما يزيل ذلك الوهم عنهم”
ترجمہ : اسرار کی دوسری قسم وہ امور ہیں جنہیں انبیاء اور صدقین بیان نہیں کرتے بلکہ وہ بذاتِ خود سمجھ میں آ جاتے ہیں اور فہم انکے ادراک سے قاصر نہیں ہوتا ۔ لیکن ان کا ذکر کرنا اکثر سننے والوں کے لئے نقصان کا باعث ہوتا ہے ۔جبکہ انبیاء اور صدقین کے لئے ان کا ذکر نقصان کا باعث نہیں بنتا ۔مثلا تقدیر کے راز وغیرہ ۔ ایسے امور کے ذکر سے منع کیا گیا ہے ۔یہ بات ممکن ہے کہ بعض حقائق کا ذکر بعض لوگوں کے حق میں مضر ہو اور اور بعض کے حق میں مضرنہ ہو ۔مثلا آفتاب کی روشنی شپرک کے حق میں مضر ہے ۔ دیکھو ! اگر ہم یہ کہیں کہ کفر ، زنا ، گناہ ، بدی سب خدا کے حکم ، ارادہ اور خواہش سے ہیں تو یہ بات اگرچہ فی نفسہ درست ہے لیکن اسکا سننا بعض لوگوں کے حق میں مضر ثابت ہوا ہے ۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ بات کم عقلی پر دلالت کرتی ہے کہ گناہ کا حکم دے اور پھر اس پر سزا بھی دے ، یہ حکمت سے بھی خالی ہے ، اس میں بری بات پر رضامندی بھی پائی جاتی ہے اور یہ ایک طرح کا ظلم بھی ہے ۔ابن راوندی اور دوسرے مردود اسی طرح کےتوہمات کی وجہ سے ملحد جانے گئے ہیں۔اگر تقدیر کا راز عوام کے سامنے واضح کیا جائے تو وہ خدا کو عاجز سمجھنے لگیں کیونکہ جس دلیل سے انکا یہ وہم دور ہونا ممکن ہے اسکے فہم سے خود ایسے لوگ عاجز ہوتے ہیں ۔
“الثالث :أن يكون الشيء بحيث لو ذكر صريحاً لفهم ولم يكن فيه ضرر ولكن يكنى عنه على سبيل الاستعارة والرمز ليكون وقعه في قلب المستمع أغلب وله مصلحة في أن يعظم وقت ذلك الأمر في قلبه۔۔۔ يتفاوت الناس في ذلك۔۔۔ومنه قوله صلى الله عليه وسلم :(إن المسجد لينزوي من النخامة كما تنزوي الجلدة على النار) وأنت ترى أن ساحة المسجد لا تنقبض بالنخامة ومعناه أن روح المسجد كونه معظما ورمى النخامة فهو تحقير له فيضاد معنى المسجدية مضادة النار لاتصال أجزاء الجلدة وكذلك قوله صلى الله عليه وسلم: (أَمَا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أن يحول رأسه رأس حمار )وذلك من حيث الصورة لم يكن قط ولا يكون ولكن من حيث المعنى هو كائن إذ رأس الحمار لم يكن بحقيقته لكونه وشكله بل بخاصيته وهي البلادة والحمق ومن رفع رأسه قبل الإمام فقد صار رأسه رأس حمار في معنى البلادة والحمق وهو المقصود دون الشكل الذي هو قالب المعنى إذ من غاية الحمق أن يجمع بين الاقتداء وبين التقدم فإنهما متناقضان”
ترجمہ: اسرار کی تیسری قسم وہ ہے کہ جنہیں صراحتا ذکر کیا جائے تو سمجھ میں آ جائیں لیکن انہیں اشاروں کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ اسکے سننے والے کے دل میں اسکا زیادہ اثر ہو ۔۔۔ اس سلسلے میں لوگوں کے فہم کا معیار مختلف ہوتا ہے ۔۔۔ حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی اسی قبیل سے ہے کہ (مسجد ناک کی ریزش سے اس طرح سکڑتی ہے جس طرح کھال آگ پر سکڑتی ہے ) یہ بات معلوم ہے کہ مسجد کا صحن ناک کی ریزش سے بظاہر سکڑتا ہوا محسوس نہیں ہوتا ۔مطلب یہ ہے کہ مسجد کی روح عظیم ہے اور قابلِ احترام ہے ۔ اس میں گندگی پھیلانا اسکی عظمت کے اسی طرح خلاف ہے جیسا کہ آگ کھال کے اجزاء کے خلاف ہے ۔حضور ﷺ کا قول کہ ( کیا اس شخص کو خوف نہیں آتا جو امام سے پہلے سر اٹھا لیتا ہے کہ خدا اسکے سر کو گدھے کے سر سے بدل دے ) یہ صورت نہ کبھی ظاہر میں پیش آئی اور نہ ہی پیش آئے گی ۔البتہ خصوصیات میں ایسے شخص کا سر گدھے کے سر کا سا ہو جاتا ہے یعنی بیوقوفی اور حماقت میں وہ گدھا بن جاتا ہے ۔ نص کا مقصود بھی یہی ہے ،صورت مقصود نہیں ہے ۔صورت معنی کا قالب ہوتی ہے ۔ حماقت کی وجہ یہ ہے کہ یہ شخص امام کی اقتداء بھی کرتا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور یہ دونوں امور باہم متناقض ہیں ۔
یہاں دو امور کا ضمنا ذکر کرنا اہم ہے ۔
اول یہ کہ اسرار کی یہی وہ قسم سے جہاں سے کلامی یا فقہی قانون میں تاویل اپنا راستہ نکالتی ہے بلکہ ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ پہلی دو اقسام کا قانون کی تاویل سے کوئی علاقہ نہیں کیونکہ جو لوگ ان امور کے حامل ہیں انہیں ایمان پر باقی رکھنے کے لئے تاویلات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ایسی اشیاء کو حقیقی آئینے میں دیکھتے ہیں ۔ اور جن میں اتنی سکت نہیں ہوتی انکے سامنے ایسے امور کا افشاء ہی مناسب نہیں ہوتا لہذا ان کا پہلی دو اقسام سے سوائے اجمالی و تقلیدی ایمان کے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ لیکن جیسا کہ ماقبل میں عرض کیا جا چکا کہ غزالی اذہان میں مرتبوں کا لحاظ جن دو وجوہات سے کرتے ہیں انمیں سب سے اہم عوام کے ایمان کی حفاظت ہے ۔ اسی لئے مشکل اسرار کو عوام میں بیان کرنا شریعت کے منشاء سے متصادم قرار پاتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے غزالی نے اپنے زمانے میں درپیش فکری تحدیات کے تحت لوگوں کو علوم و اسرار کے اخذ میں مختلف الاستعداد ہونے کی وجہ سے تقسیم کیا ہے ۔ لیکن اگر معاملہ اس سے بالکل الٹ جائے یعنی اشکالات پیدا ہو چکے ہوں تو پہلی دو قسموں کے امور میں پائے جانے والے اسرار کو بھی فی زمانہم لوگوں کی ذہنی پہنچ کے مطابق واضح کرنا ہی غزالی کی فکر کی صحیح پیروی اور شریعت کا عین منشاء ہے ۔ ایسے میں مفکر کی بیان کردہ ظاہری صورتوں پر خود کو باقی رکھنے کا اصرار کرتے رہنا خود مفکر کی فکر میں چھپے مقاصد سے متصادم امر ہے ۔
دوسرے یہ کہ تاویل میں غزالی کے اصل الاصول یعنی عقلی استحالے کی انکے ہاں تحدید لازمی امر ہے جس میں دو باتوں کا لحاظ انتہائی ضروری ہے ۔ اول یہ دیکھنا کہ غزالی عقلی استحالے کی کیا حدود متعین کرتے ہیں اور کن بنیادوں پر کرتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ جن بنیادوں پر حدود متعین کی گئی ہیں کیا انکے اپنے دائروں کا سکڑنا اور پھیلنا ممکن ہے یا نہیں ؟
“الرابع: أن يدرك الإنسان الشيء جملة ثم يدركه تفصيلاً بالتحقيق والذوق بأن يصير حالاً ملابساً له فيتفاوت العلمان ويكون الأول كالقشر والثاني كاللباب والأول كالظاهر والثاني كالباطن”
ترجمہ : چوتھی یہ کہ آدمی ایک شئی کا اولا اجمالی علم حاصل کرے ۔ پھر بطریقِ ذوق و تحقیق اس کا ادراک کرے اس طرح پر کہ وہ شئے اسکا حال بن جائے اور لازمی کیفیت کی حیثیت اختیار کر لے ۔ان دونوں علموں میں فرق ہے ۔ پہلا علم پوست اور ظاہری خول کے مشابہ ہے اور دوسرا علم مغز کے مشابہ ہے ۔ اول ظاہر اور ثانی باطن ہے ۔
غزالی کے نزدیک مذکورہ چاروں اقسام میں باطن ظاہر کا تکملہ ہے اور ان میں باہمی طور پر کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ۔ تکملہ کا مطلب ہماری متعلقہ بحث کے تناظر میں یہ ہے کہ انسان کی ذہنی اور روحانی استعداد بڑھتی ہوئی اسکے علم کی تکمیل کرتی ہے ۔
“الخامس: أن يعبر بلسان المقال عن لسان الحال فالقاصر الفهم يقف على الظاهر ويعتقده نطقاً والبصير بالحقائق يدرك السر فيه۔۔۔ومن هذا قوله تعالى ثم استوى إلى السماء وهي دخان فقال لها وللأرض ائتيا طوعاً أو كرهاً قالتا أتينا طائعين فالبليد يفتقر في فهمه إلى أن يقدر لهما حياة وعقلاً وفهماً للخطاب وخطاباً هو صوت وحرف تسمعه السماء والأرض فتجيبان بحرف وصوت وتقولان أتينا طائعين والبصير يعلم أن ذلك لسان الحال وأنه إنباء عن كونهما مسخرتين بالضرورة ومضطرتين إلى التسخير”
ترجمہ: پانچویں یہ کہ زبانِ حال کو زبانِ قال سے تعبیر کیا جائے ۔کم فہم انسان زبانِ حال کے وجود سے واقف نہیں ہوتا جبکہ حقائق سمجھنے والا یہ راز خوب جانتا ہے ۔۔۔ اسی قبیل سے اللہ تعالی کا قول ہے : (پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ دھواں تھا ، سو اس سے اور زمین سے فرمایا تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبردستی آؤ ۔ دونوں نے عرض کیا : ہم بخوشی حاضر ہیں ۔)کم عقل انسان اس آیت سے یہ سمجھتا ہے کہ آسمان و زمین کو زندگی حاصل ہے ، ان میں عقل ہے اور خطاب سمجھنے ،حروف اور الفاظ کے ذریعے خطاب کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے ۔یہ ایک مفروضہ ہے اور کم فہم آدمی ہی سے اسکی توقع کی جا سکتی ہے ۔عقلمند جانتا ہے کہ یہ زبانِ حال ہے اور اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ وہ دونوں مسخر اور مضطر ہیں ۔
“الجام العوام ” کے خاتمے میں لکھتے ہیں :
“فليوضع كل شيء موضعه كما أمر الله تعالى به نبيه حيث قال ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحسن والمدعو بالحكمة إلى الحق قوم ، وبالموعظة الحسنة قوم آخرون ، وبالمجادلة الحسنة قوم آخرون على ما فصلنا أقسامهم في كتاب القسطاس المستقيم فلا نطول بإعادته.”
ترجمہ :چاہئے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی جائے جیسا کہ خدا نے اپنے نبی کو حکم دیا اور قرآن میں فرمایا : (تم لوگوں کو خدا کے راستہ کی طرف بلاو حکمت کے ذریعے اور نصیحت سے اور ان سے احسن طرز پر مجادلہ کرو ) حکمت کے جو لوگ مخاطب ہیں وہ اور ہیں ، موعظت کے اور اور مجادلت کے اور جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب القسطاس المستقیم میں بیان کیا ہے ۔
تقسیمِ مراتب میں البتہ غزالی کے ہاں اس امر کو لازمی ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ جو تصنیفات عوامی نوعیت کی ہوتی ہیں انہیں خوب کھول کر بیان کرنے کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ خواص یا اخص الخواص سے متعلقہ تحریروں کو زیادہ تر کنایات میں سمجھانے پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔
حنیف ندوی لکھتے ہیں :
“جن خیالات اور افکار کو غزالی عوام کے لئے بیان کرتے ہیں انکی خوب خوب وضاحت کرتے ہیں ۔ اور جن کو عوام کے علم میں لائے بغیر خواص کے لئے بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ان کو اجمال و اشارہ اور رمز کے پیرائے میں چھپا دیتے ہیں ۔”
حنیف ندوی صاحب کی اس بات کی تائید خود غزالی کی کتاب ” مشکاۃ الانوار ” کے مقدمہ سے ہوتی ہے ۔ نااہلوں سے اسرار کو مخفی رکھنے کی حکمت بیان کرنے کے بعد سائل سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں ۔
“لكني أراك منشرح الصدر بالنور منزه السر عن ظلمات الغرور فلا أشح عليك بالإشارة إلى لوامع ولوائح والرمز إلى حقائق ودقائق. فليس الظلم في كف العلم عن أهله بأقل منه في بثه إلى غير أهله فقد قيل :
فمن منح الجهّال علما أضاعه ومن منع المستوجبين فقد ظلم
ترجمہ: لیکن میرا خیال ہے کہ تیرا سینہ نور سے معمور اور غرور اور ظلمات سے پاک ہے ۔اس لئے میں صرف انوار کے پرتو کی جانب اشارہ کر کے سمجھاوں گا اور تمام قسم کے حقائق اور دقائق صرف رمز و کنایہ ہی میں ظاہر کروں گا ۔کیونکہ اہلِ علم سے علم کو روکنا اتنا ہی بڑا ظلم ہے جتنا نااہل کے سامنے علم کے اسرار ظاہر کرنا ۔
شعر : جس نے جہلاء کے سامنے علم ظاہر کیا اس نے علم ضائع کیا ۔اور جس نے مستحق سے علم روکا اس نے ظلم کیا
تخاطب میں عوام و خواص کا اعتبار رکھنا ہی غزالی کی کتب میں نظر آنے والے ظاہری تضاد کی وجہ ہے ۔ اس قسم کا تضاد کسی ایک ہی چیز کی بابت دو مختلف قسم کے تصورات میں بھی نظر آتا ہے اور استدلال کے طریقے اور نوعیت میں بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ لیکن درحقیقت وہ تضاد نہیں ہوتا بلکہ اپنے مخاطب اور ہدف کی رعایت ہوتی ہے ۔اس مسئلہ کی بہت حد تک وضاحت امام صاحب نے خود اپنی تصنیف ” جواھر القران ودررہ ” میں کر دی ہے ۔لکھتے ہیں ۔:
“القسم الثاني هو محاجة الكفار ومجادلتهم ومنه يتشعب علم الكلام المقصود لرد الضلالات والبدع وازالة الشبهات ويتكفل به المتكلمون وهذا العلم قد شرحناه على طبقتين سمينا الطبقة القريبة منهما الرسالة القدسية والطبقة التي فوقها الاقتصاد في الاعتقاد ومقصود هذا العلم حراسة عقيدة العوام عن تشويش المبتدعة ولا يكون هذا العلم مليا بكشف الحقائق وبجنسه يتعلق الكتاب الذي صنفناه في تهافت الفلاسفة والذي أوردناه في الرد على الباطنية في الكتاب الملقب المستظهري ”
ترجمہ : دوسری چیز کافروں سے مناظرہ اور مجادلہ کرنا ہے اور اسی سے کلام پیدا ہوتا ہے ۔جس کا مقصود گمراہیوں اور بدعتوں کا رد اور اعتراضات کو رفع کرنا ہے ۔اس علم کے ذمہ دار متکلمین ہیں ۔ ہم نے دو طرز پر اسکی شرح کی ہے ۔ایک معمولی طرز پر اسکا نام رسالہ قدسیہ ہے اور ایک اس سے اعلی طرز پر ۔ اس علم کا مقصود یہ ہے کہ بدعتوں کی تشویش سے عوام کی حفاظت کی جائے لیکن اس علم میں حقائق نہیں بیان کئے جاتے ۔اسی قسم کی ہماری وہ کتاب ہے جسمیں فلاسفہ کی غلطیوں کا بیان ہے یعنی تہافۃ الفلاسفۃ ۔اور وہ جو باطنیہ کے رد میں ہے یعنی مستظہری ۔
کمنت کیجے