Home » سطحیت (قسط نمبر 1)
سماجیات / فنون وثقافت

سطحیت (قسط نمبر 1)

پہلے مرحلے میں تو ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہم علمی اعتبار سے سطحیت کے انتہائی بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ اس سطحیت کا اغاز اگرچہ عرصہ پہلے ہو چکا تھا، اور گزشتہ سو برس سے خصوصاً بر عظیم پاک و ہند کے فہمیدہ طبقے کے خیالات تو واضح طور پر اس امر کے گواہ ہیں، وہ مسلسل اس پر توجہ بھی دلاتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سو برس بھی محض بحرانی دور کی تمہید کا درجہ رکھتے ہیں، ہم نے ان کی تحدید محض تخمیناً کی ہے، تاکہ بات آگے بڑھائی جا سکے، ورنہ اس سے پیچھے چلے جائیں تو بھی ایسے خیالات پڑھنے کو ضرور مل جائیں گے اور پیچھے مزید چلتے چلے جائیں تو بھی شکایات کا یہ لہجہ اپنے اپنے وقت کے اہل علم کی تحریروں میں دست یاب ہوتا چلا جائے گا۔

اس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ معاملہ پرانا ہے، ویسے بھی جس نوعیت کی اندوہ ناک سطحیت سے ہم اس وقت نبرد آزما ہیں، یہ ایک دن کی پرورش و پرداخت کا نتیجہ ہو بھی نہیں سکتی۔ ایسے حادثات کا اہتمام تو فلک برسوں کرتا ہے، تب یہ حوادث خاک کے پردوں سے رونما ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔

اس لیے اب ہماری اولین ضرورت یہ ہے کہ ہم اس سطحیت کو سمجھیں، اس کے اسباب جاننے کی کوشش کریں، پھر ان کے تدارک کا اہتمام کریں، یا کم از کم ان وجوہ، اسباب اور تدارک کے طریقوں کا مذاکرہ ضرور کرتے رہیں کہ یاد دہانی کا یہ عمل از خود بھی کچھ ایسی سرگرمیوں کو بہ روئے کار لے آنے کا سبب بن جاتا ہے، جو صورت حال کو بہتر کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

سطحیت کیا ہے؟

سطحیت اپنے نام سے بھی واضح ہے، مگر ہم اپنا مدعا مزید واضح کرنا چاہیں تو چند نکات میں اسے یوں پیش کر سکتے ہیں۔

الف: کسی بھی بات کو بغیر تجزیے کے قبول کر لینا۔

ب: کسی بھی بات کے کسی ایک پہلو کو جان کر اسی کو سب کچھ سمجھ لینا۔

ج: کوئی بھی نامانوس بات سن کر بھڑک اٹھنا، قطع نظر اس سے کہ اس بات کی اصل کیا ہے۔

د: اپنی ناواقفیت کو ہی اصل تصور کرنا، اور اس کے مقابل موجود علم کو اپنی ناواقفیت کی بنیاد پر رد کر دینا، وغیرہ۔

نیز کچھ مزید پہلو بھی آگے کی بحث میں ضمناً بیان ہوں گے، جن سے سطحیت کے بارے میں ہمارا مدعا مزید روشن ہو سکے گا۔

اسباب

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس سطحیت کے اسباب کیا ہیں؟

۱۔بنیاد کا کم زور ہونا

تمام دینی علوم یا علوم عالیہ و آلیہ میں بنیادوں کی کم زوری ہماری فکری نشو نما کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

آج صرف نحو کی بنیادی قواعد کے ساتھ فقہ اور اصول فقہ کی مبادیات سے ناواقفیت اس قدر عام ہے کہ اب تو اسے کوتاہیوں کی فہرست سے بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے مفاسد سامنے آ کر رہیں گے، چناں چہ وہ آ رہے ہیں۔ سطحیت کی بھی یہ سب سے بڑی بنیاد ہے۔ جب ہم بنیادی اصولوں سے ہی واقف نہیں ہوں گے تو جزیات میں الجھ جانا ہمارے لیے کس قدر سہل ہوگا، اسی طرح جب ہماری عربی قواعد کی بنیاد ہی موجود نہیں ہوگی تو عربی کتب اور علوم اسلامی کے مصادر اصلیہ سے ہم استفادہ کیسے کر سکیں گے؟ پھر جب مصادر اصلی سے استفادہ نہیں ہوگا تو ثانی مصادر کی بنیاد پر سطحیت ہی جنم لے گی، رسوخ فی العلوم کا حصول تو ممکن نہیں ہوگا۔

۲۔شریعت کے مجموعی مزاج سے عدم واقفیت

ہماری سطحیت کا دوسرا اہم ترین سبب شریعت اسلامی کے مجموعی مزاج سے عدم واقفیت ہے۔ ہم بہت سے اسباب کی بنا پر اپنے ذہنوں میں شریعت کا جامع تصور پختہ طور پر قائم کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکے، ہم سب کی نظر میں، حتی کہ شریعت کے لفظ سے بدکنے والے طبقے کی نظر میں بھی شریعت کا الگ الگ تصور ہے، اس کا مظاہرہ شریعت نافذ کرنے کے نعرے کے جواب میں چند سوالات سے بہ خوبی ہو جاتا ہے، مثلاً یہ کہ شریعت کے نفاذ سے کیا مراد ہے؟ اور قانون کا نفاذ یا اس پر عمل درامد کس قدر حکومت کی ذمے داری ہے؟ اور کس قدر انفرادی طور پر ہم میں سے ہر ایک کی؟ یہ اور اس نوعیت کے چند اور سوال کر کے دیکھ لیجیے، اندازہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا کہ ہم مذہبی طور پر کس قدر ذہنی الجھنوں سے دوچار ہیں اور ہم شریعت اسلامی کے حوالے سے کس قدر ناواقفیت میں مبتلا ہیں۔

۳۔دوران تعلیم غیر تعلیمی مزاج

ہماری موجودہ وبائی صورت اختیار کر لینے والی سطحیت کا ایک اہم سبب دوران تعلیم غیر تعلیمی مزاج ہے۔ اس کے بھی بہت سے مظاہر ہیں۔

الف: مثلاً دوران تعلیم غیر سنجیدگی، جس کا بڑا مظاہرہ کلاسوں سے عام طور پر غیر حاضری کی صورت میں ہوتا ہے۔

ب: غیر تعلیمی سرگرمیوں سے وابستگی، جن میں خاص طور پر نام نہاد تحریکی مزاج ہے، آج ہمارے درمیان ایسے بہت سے افراد موجود ہیں، جن کے تعلیمی ادوار سے ہم کسی نہ کسی حد تک واقف رہے ہیں، ان میں سے کئی ایک قلم کے راستے دانشوری کے شعبے میں بھی داخل ہو چکے ہیں، مگر ان کی صلاحیت محض خستہ خام اور نا آسودہ جذبات کو جذباتی اور خطابتی آہنگ کے ساتھ تحریری پیراہن عطا کرنے تک محدود ہے۔ اسے سستی جذباتیت کا بگھار دے کر سمجھا یہ جاتا ہے کہ قوم کی فکری رہ نمائی کا فریضہ انجام دے دیا گیا۔ یہ تمام راستے سطحیت کو جنم دینے کے اہم اسباب ہیں۔

۴۔سوشل میڈیائی دل چسپیاں

ہماری اس سطحیت کا ایک اور سبب حد سے بڑھی ہوئی سوشل میڈیائی دل چسپیاں بھی ہیں۔جب سے ہمارے ہاں اینڈرائڈ موبائل کی آمد ہوئی ہے، اس نے نیٹ کی دنیا کو سمیٹ کر ہماری مٹھی میں بند کر دیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص یوں محسوس کرنے لگا ہے کہ گلیمرائز زندگی سے وہ محض چند قدم کے فاصلے پر ہے، اور شہرت اس سے چند منزل دور ہے۔ فیس بک اور ٹیوٹر وغیرہ کی مصروفیت نے ہمیں ایک ایسی اَن دیکھی اور دیو مالائی زندگی کا اسیر کر دیا ہے کہ انسان بعض صورتوں میں کسی کام کا بھی نہیں رہتا، بل کہ اس سوشل میڈیائی دلدل میں دھنس جانے والے کی کیفیت تو اس نشئی کی سی ہو جاتی ہے جسے اپنے نشے کے سوا دنیا کی کسی چیز میں کوئی رغبت محسوس نہیں ہوتی۔

سطحیت سے اس کا تعلق بھی واضح ہے کہ جب شہرت اس درجے میں ہمارے مقاصد کا حصہ بن جاتی ہے تو پھر علمی دنیا سے انسان کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ علمی زندگی تو ہم سے ٹھہراؤ، تحمل، برداشت اور سب سے بڑھ کر صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ ان صفات کے بغیر علم کا سفر شروع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ موجودہ میڈیائی وبا ان تمام صفات کے مقابل آنے والی صفات سے تشکیل پا رہی ہے۔

۵۔اپنے ذوق کے مضمون کا علم ہی نہ ہونا

سطحیت کا ایک بڑا سبب اپنے ذوق اور پسند کے مضمون کا علم ہی نہ ہونا بھی ہے۔ اکثر صورتوں میں ہم اپنے آپ کو محض عالم تصور کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ علم کی اس قدر شاخیں پھیل چکی ہیں کہ کسی ایک پہلو کو پوری قوت سے اپنائے بغیر عالم ہونے کا دعوی محل نظر ہی نہیں، خلاف واقعہ بھی ہے۔ ہمیں اپنے شعبے کا علم ہونا چاہیے، مگر اس کے لیے بہت سی ریاضتیں ضروری ہیں، جن کا ہلکا سا ذکر آگے چل کر کریں گے۔

۶۔تھوڑی تھوڑی معلومات کو ہی سب کچھ سمجھنا

یہ حقیقت ہے کہ علم کی دنیا میں انسان کی موت اسی وقت واقع ہو جاتی ہے، جب وہ اپنے آپ کو حصول علم سے مستغنی تصور کر لیتا ہے، اور آج ہماری سطحیت کا ایک بڑا سبب ہر معاملے میں چند اچٹتی ہوئی باتوں سے واقفیت کو ہی سب کچھ سمجھ لینے کا رجحان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں یقین سے کچھ کہنے کی ہم صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور اس کے باوجود ہم میں زعم یہ پیدا ہو چکا ہے کہ پوری قطعیت کے ساتھ اپنے ذوق کی سنی سنائی بات موقع بے موقع کسی جھجک کے بغیر بول دیتے ہیں۔

۷۔ارتکاز فکر کا نہ ہونا

ان تمام وجوہ کا ایک لازمی پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ ارتکاز فکر کی منزل ہی ہمارے لیے محال ہو کر رہ گئی ہے، بل کہ یوں کہیے کہ جب فکر ہی موجود نہیں تو ارتکاز فکر کا کیا سوال اور جب یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں تو ایسی سرزمین پر سطحیت کے سوا اور کیا رونما ہو سکتا ہے۔

۸۔عصبیت

ہماری سطحیت کو جس نالے سے مسلسل پانی میسر آ رہا ہے، وہ عصبیت ہے۔ ویسے بھی عصبیت کا بڑا سبب ناواقفیت ہی ہوتی ہے، انسان اپنے علاوہ کسی سے واقف نہیں ہوتا، یا اپنے سوا دوسروں کی خوبیاں نہیں جانتا تو وہ عصبیت کا شکار ہو جاتا ہے، پھر یہ بیماری ایسی ہے کہ اگر ایک بار اس کا انسان شکار ہو جائے تو پھر مزید ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔ عصبیت کی بہت سی قسمیں ہیں، لیکن مذہبی تحزب کی بنیاد بننے والی عصبیت ہماری سطحیت کا بڑا سبب ہے۔ عصبیت کی بنیاد پر سطحیت کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اس پورے عمل کا خلاصہ یہی ہے کہ ہم کسی بھی رائے کی بنیاد دلیل کی بہ جائے شخصیت پر رکھیں، اور کسی پسندیدہ شخصیت سے کوئی بات سنیں تو قطع نظر اس کے کہ وہ بات درست ہے یا نہیں، اور قطع نظر اس بات کے کہ وہ بات اس شخصیت سے ثابت بھی ہے یا نہیں اسے مان لیا جائے، بہ صورت دیگر اسے رد کر دیا جائے اس عمل کی بہت سی بھیانک شکلیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔

۹۔مسلک پرستی

رہی سہی کسر مسلک پرستی نے پوری کر دی ہے۔ انسان کا کوئی نہ کوئی ذوق ضرور ہوگا، یہ ذوق ہر معاملے میں کار فرما دکھائی دیتا ہے، حدود کے اندر ہو تو اس ذوق سے فرق بھی نہیں پڑتا۔ لیکن وہ ذوق جب مذہب کی شکل اختیار کر کے مسلک کی بنیاد بن جائے تو پھر ایسی عصبیت پیدا ہوتی ہے جس کا نہ جواز ہوتا ہے نہ جس سے کوئی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آج ہم اسی آزمائش سے دوچار ہیں۔

ہم چوں کہ مسلک پرستی میں گرفتار ہیں، اس لیے اپنے سوا کسی اور سے واقف نہیں، جب ہم کسی اور سے واقف ہی نہیں تو کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والے کسی پڑھے لکھے فرد کے کام سے کہاں واقفیت ہوگی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے دلائل، اپنی زبان میں، اپنے مزاج کے مطابق بیان کر کے، اور اپنے ہی لوگوں سے داد وصول کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تمام معرکے سر کر لیے۔ اس کا سب سے بھونڈا مظاہرہ آج کل فیس بک کی جدلیات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جو شخص جتنے بے ہودہ انداز میں مخالف فریق کو جواب دینے میں کام یاب ہو جاتا ہے، اسی قدر  اس کو اپنے حلقے کے لوگوں سے داد بٹورنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں دلیل اور حجت کا علم تک نہیں، حتی کہ یہ ذوق بھی پیدا نہیں ہو سکا کہ کسی بات کو دلیل سے سمجھ کر قبول کیسے کیا جائے۔ ایسے میں سطحیت پروان نہ چڑھے تو اور کیا ہو۔

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے انچارج اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے نائب مدیر ہیں۔

syed.azizurrahman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں