Home » وجودِ خدا کی عقلی دلیل پر غامدی صاحب کا موقف ( ایک نقد)
شخصیات وافکار کلام

وجودِ خدا کی عقلی دلیل پر غامدی صاحب کا موقف ( ایک نقد)

عقل سے “خدا ہے نہیں بلکہ ہونا چاہئے ثابت ہوتا ہے” پر غامدی صاحب کے دفاع پر تبصرہ

اس موضوع پر محترم غامدی صاحب کے موقف پر جو سوال اٹھایا گیا تھا اس کا جواب دینے کے لئے غامدی صاحب نے فرمایا کہ “ہونا چاہئے” کا مطلب “وجوب عقلی” ہے جبکہ “ہے” کا مطلب “بیان واقعہ” ہے، کوئی شے فی الواقع تب قرار پاتی ہے جب حسی مشاہدہ اس کی شہادت دے۔ اسی بات کو سمجھانے کے لئے انہوں نے اپنے تئیں تین مثالیں دی ہیں:

• سب انسان فانی ہیں
• زید انسان ہے

اس سے درست طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ “زید فانی ہونا چاہئے”، نہ یہ کہ وہ فی الواقع فانی ہے۔ “فانی ہونا چاہئے” کی بات “وجوب عقلی” ہے جبکہ “فانی ہے ” یہ مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی بات کہ وجوب عقلی اور امر واقعہ میں فرق ہے، اسے متحقق کرنے کے لئے وہ یہ مثال لائے:

• سب انسان والدین سے پیدا ہوتے ہیں
• حضرت عیسی علیہ السلام انسان تھے

اس سے عقلاً یہ بات وجوب عقلی کے طور پر معلوم ہوئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی والدین سے پیدا ہونا چاہئے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوا۔ یہ گویا فی الواقع اور وجوب عقلی میں فرق کی مثال ہوگئی۔ تیسری مثال وہ یہ لائے کہ اگر ہم کہیں دھواں دیکھیں تو عقل کہتی ہے کہ وہاں آگ ہونی چاہئے، لیکن “آگ ہے” اس کا علم تب ہوگا جب کوئی جا کر دیکھ آئے یا دیکھ کر آنے والا اس کی خبر دے۔

تبصرہ:

ہمارے نزدیک ان کا یہ مقدمہ اور ان تینوں مثالوں میں منطقی استدلال سے متعلق متعدد غلط فہمیاں پیوست ہیں۔ چند باتوں کی صورت انہیں واضح کیا جاتا ہے:

1۔ “واقعہ” کا مطلب کسی شے کا امر واقعی یا نفس الامر یا خارج میں ثابت ہونا یا موجود ہونا ہے۔ کسی قضئیے (premise) کے subject (موضوع) اور predicate (محمول) کے مابین ایسے واقعی تعلق کو صحت (soundness) کہتے ہیں جو دراصل ایک حکم ہے۔ یہ حکم کبھی جزئی ہوتا ہے (جیسے “زید انسان ہے”) اور کبھی کلی (“ہر حادث کے لئے محدث ہے”)۔ چنانچہ درج بالا مثال (سب انسان فانی ہیں) میں اس ساخت کی استخراجی دلیل میں اگر دونوں مقدمات “ہے / صحت” سے متصف ہوں (یعنی امر واقعی میں متحقق ہوں) تو نتیجے پر جاری ہونے والا حکم بھی لززماً “ہے / صحت” (تحقق) کا ہوگا، ایسے میں “ہونا چاہئے ” سرے سے کوئی حکم ہے ہی نہیں۔ یعنی:

• سب انسان فانی “ہیں” (بایں معنی کہ وہ ختم ہوجانے والے ہیں نہ کہ ہمیشہ باقی رہنے والے)
• زید انسان “ہے”

اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زید فانی “ہے”؟ آخر یہ نتیجہ کس منطق سے نکل آیا کہ زید کو فانی “ہونا چاہئے”؟ چنانچہ دونوں مقدمات کو امر واقعہ ماننے کے بعد ان کی یہ بات ناقابل فہم ہے کیونکہ “ہر انسان فانی ہے” اگر واقعی اور یقینی طور پر ایک کلی سچائی ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا ایک فرد (زید) یقینی طور پر واقعے میں ایسا نہ ہو؟ اس نتیجے کے واقعہ ہونے سے متعلق کسی بھی قسم کا شک ہونے کے تین ہی طریقے ہیں: یا کلی کے متحقق ہونے میں شک ہو، یا زید کے اس کلی کا فرد ہونے میں اور یا زید کے فی الواقع موجود ہونے میں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کبری و صغری تو “ہے” سے متصف ہوں (یعنی واقعہ میں درست ہوں) لیکن نتیجہ “ہے” (فی الواقع) کے حکم کے بجائے کچھ اور ہو؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ “سب انسان واقعی فانی ہیں” نیز یہ بھی مانتے ہیں کہ “زید واقعی انسان ہے” تو نتیجہ امر واقعہ کے لحاظ سے بھی “زید فانی ہے” ہی نکلتا ہے۔ دونوں مقدمات درست ہوتے ہوئے یہ قطعاً ممکن نہیں کہ “زید فانی ہے” کا نتیجہ امر واقعی میں متحقق نہ ہو۔ البتہ اگر آپ یہ کہیں کہ آپ کو ان دو مقدمات کے امر واقعہ ہونے میں اختلاف ہے تو پھر آپ نتیجہ کے امر واقعہ ہونے میں اختلاف کرسکتے ہیں، یعنی یا آپ یہ ثابت کردیں کہ کلی خارج میں متحقق نہیں اور یا یہ ثابت کردیں کہ زید اس کا فرد نہیں اور یا پھر زید خارج میں موجود نہیں۔

واقفین منطق یہ بات بھی جانتے ہیں کہ استخراجی منطق میں نتیجے پر جاری ہونے والا حکم یا تو صحت و عدم صحت (soundness) کا ہوتا ہے اور یا ویلیڈیٹی کا۔ یہ “ہونا چاہئے ” ان دونوں میں سے کونسی چیز ہے ہم نہیں جان سکے۔

2۔ یہ بات یاد رہے کہ استخراجی دلیل کے مقدمات جب متحقق ہوں تو نتیجے کا صدق مشاھدے کا محتاج نہیں رہتا۔ چنانچہ یہ بات کہ “زید فانی ہے” یہ نتیجہ فی الواقع تب متحقق ہوگا جب اس کا مشاہدہ ہو، اس کا کوئی محل نہیں۔ مقدمات کی صحت مان چکنے کے بعد (چاہے وہ صحت علم ضروری پر مبنی ہو یا مشاہدے پر) آخر ایک شخص کو کیا حق ہے کہ وہ نتیجے کی فی الواقع درستی کے لئے پھر مشاھدے کی شرط لگائے جبکہ استخراجی دلیل کی اس ساخت کا نتیجہ پہلے ہی سے کلی مقدمے میں چھپا ہوا ہوتا ہے؟ غور کیجئے کہ دوسرے مقدمے (“زید انسان ہے”) میں صرف اس بات کی تحقیق کی جاتی ہے کہ کیا واقعی زید انسان کی کلی میں شامل ہے؟ اگر ہاں تو “سب انسان فانی ہیں” کا اصول بلا جھجھک خود بخود اس پر لاگو ہو جائے گا (الا یہ کہ آپ “سب انسان فانی ہیں” کو نہ مانیں)۔ پھر اگر نتیجے کی صحت مشاہدے ہی سے معلوم ہونی ہے تو دلیل پیش کرنا عمل عبث ہے۔

3۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال سے کیا گیا استدلال غلط ہے اس لئے کہ اس میں کلی “ہر انسان والدین سے پیدا ہوتا ہے” امر واقعہ میں یقینی یا لزومی طور پر متحقق ہی نہیں لہذا مسیح علیہ السلام کا بغیر والدین پیدا ہونے سے نہ کوئی تضاد لازم آیا اور نہ یہ حکم عقلی اور امر واقعہ میں فرق کی مثال بنا۔ چنانچہ اس مثال کو “ہونا چاہئے” کو سمجھانے کے لئے پیش کرنا درست نہیں۔

4۔ دھویں اور آگ والی مثال لیجئے۔ اگر یہ مقدمہ قطعی طور پر معلوم یا ثابت شدہ ہو کہ “دھواں صرف آگ سے نکلتا ہے” تو کہیں دھواں دیکھ کر ہم یہ قطعی حکم جاری کریں گے کہ”وہاں فی الواقع آگ بھی ہے” اور آگ فی الواقع موجود ہونے کےلئے کسی مشاہدے کی ضرورت نہ رہے گی۔ ہاں، اگر دھواں نکلنے کے آگ کے سوا دیگر اسباب بھی ہوں (مثلا گاڑی سے دھواں نکلنا وغیرہ) تو پھر دھواں دیکھ کر آگ کے ہونے کا غالب گمان پیدا ہوگا اور فی الواقع تحقق (یعنی یقین) کے لئے مشاہدہ درکار ہوسکتا ہے۔

الغرض محترم غامدی صاحب کا یہ پورا استدلال منطقی استدلال کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

باقی “خدا ہونا چاہئے” کا استدلال نبی کی خبر سے “ہے” میں بدلنے پر بھی متعدد سوالات ہیں، سردست ہم دو پیش کئے دیتے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ “ہے” کا تحقق نبی کی خبر سے ہوتا ہے تو یہاں دو مسائل ہیں:

1) کیا نبی خدا کی ذات کا مشاہدہ کرتا ہے؟ اگر نہیں تو مطلوبہ استدلال مکمل کیسے ہوا؟
2) اگر کہا جائے کہ نبی کی سچائی کے لئے معجزہ دکھایا جاتا ہے تو اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا کیونکہ معجزہ خدا کے افعال میں سے ایک فعل ہے اور یہاں بھی استدلال ہی سے خدا کا یقین حاصل ہوتا ہے نہ کہ خدا کے براہ راست مشاھدے سے۔

تو جس چیز کو آپ “ہونا چاہئے” کہتے ہیں، آخر وہ نبی کی خبر سے “ہے” میں کیسے بدلتا ہے؟

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں