ابوبکر المشرقی
اسلام اور جدید سائنس دو علوم ہیں جو آپس میں مختلف اعتقادات اور مدارس فکر کے تحت متصل ہوتے ہیں۔
اسلام ایک دین ہے جس کا بنیادی عقیدہ اللہ تعالیٰ یا خدا کی وجود پر مبنی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو اللہ کی رضا اور نبی محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ قرآن پاک مسلمانوں کے لئے رہنمائی کی کتاب ہے جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاشرتی اصول اور دیگر مسائل کے بارے میں ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں عقلی، معنوی اور دنیاوی تمام مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جدید سائنس دنیا کی مختلف شعبوں میں تجزیے اور تجربات کی بنیاد پر علمی جانکاری کو ترقی دینے کا علمی منصوبہ ہے۔ یہ معمولی طور پر طبیعیات، کیمیا، حیاتیات، ریاضیات، علوم کمپیوٹر، انجینئری، طبی علوم وغیرہ کے شعبوں کو شامل کرتا ہے۔ جدید سائنس نئے تجزیات پر مبنی نظریات، تجاربی تصدیق، اور تکنالوجی کی ترقی کے ذریعے علمی ترقی کو تسریع دیتا ہے۔
اسلام جدید سائنس کا بانی نہیں ہے کیونکہ سائنس ایک نظام ہے جو طبیعیاتی حقائق کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کا تعلق طبیعتی دنیا کے قوانین، تجربات اور تجزیات سے ہوتا ہے. اسلام جدید سائنس کا تصور نہیں ہے بلکہ اسلام مذہبی عقائد، تشریعات اور آداب و رسوم پر مشتمل ہے. اگرچہ اسلام اور سائنس دو علیحدہ علیحدہ شعبے ہیں، لیکن کچھ لوگوں نے مجازی دنیا میں “اسلامی سائنس” یا “اسلامی تشکیلاتی سائنس” کے شعبے کی تشکیل کی ہے جہاں وہ اسلامی تشریعات کو سائنسی مفہوموں اور اصولوں کے ساتھ ملاتے ہیں. یہ عموماً اخلاقی، طبی اور علمی مسائل پر غور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کو اصلی سائنسی جماعتوں سے علیحدہ تصور کیا جاتا ہے۔
جدید سائنس اصولی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ طبیعت کے قوانین اور علمی مفہومات کو تجربات، تحقیقات، اور منطقی استدلال کے ذریعے ثابت کیا جائے۔ یہ علمی میثاقوں اور تجربوں پر مبنی ہوتی ہے جو دوسرے علمیوں کے ساتھ مشابہت اور تصدیق کی قابلیت رکھتی ہیں۔
اسلامی معتقدات اور تشریعات مذہبی اعتقادات پر مبنی ہوتی ہیں جنہیں عموماً تجرباتی یا علمی ثابت کرنے کی خاصیت نہیں رکھتی ہیں۔ البتہ، کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ جدید سائنس کے آثار اور تجزیات قدرت کے ذریعے اسلامی معتقدات کو سمجھنے اور توجیہ کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ مثلاً، کچھ لوگوں کو قرآنی آیات اور جدید سائنس کے میچ کرنے کا دعویٰ ہوتا ہے، مثلاً انسانی جینوم کی تحقیقات، کائنات کے بنیادی ساخت کی جدید مطالعات، یا محیطی حفاظت اور پیمائش کے علمی تجزیات۔
البتہ، قابل ذکر ہے کہ اسلامی معتقدات کی ثبوت اور توجیہ عموماً مذہبی، فلسفی یا ایتھکل معیارات پر مبنی ہو
قرآن مجید میں کئی مقامات پر سائنسی موضوعات کے حوالے سے اشارات موجود ہیں۔ اسلامی عقائد کے مطابق، قرآن اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اور اس کی تمام آیات مقدسیت رکھتی ہیں۔ قرآن میں عبادت، اخلاق، معاشرتی مسائل، اقتصادی اصول، سماجی نظم، عدل و انصاف، روحانیت، آخرت، انسانیت کے مسائل، اور بہت سے دیگر موضوعات پر غور کیا گیا ہے۔
قرآن میں سائنسی موضوعات کے حوالے سے بھی کچھ اشارات پائے جاتے ہیں، جو عصرِ حاضر کی سائنسی تجزیات کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہ اشارات عموماً علمِ فلکیات، خلقت کی عجائب و غرائب، طبیعی علوم، بشریت کے جینوم کے بارے میں، زندگی کے معجزات، محیطی حفاظت، وقت کے مفہوم، اور دیگر موضوعات پر مشتمل ہوسکتے ہیں۔
قرآن مجید میں سائنسی مفہومات کو مذہبی، اخلاقی، و روحانیتی تناظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور کئی لوگ ان اشارات کو جدید سائنس کے روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تفسیر افراد کی تفسیریات پر منحصر ہوتی ہے۔
اسلامی فکری ترقی اور جدید سائنس کے درمیان ہم آہنگی کو ممکن بنانے کے لئے درج ذیل تراکیب کارآمد ہوسکتی ہیں:
1. مذہبی مفہومات کی تفہیم:
اسلامی تشریعات اور اصولوں کو جدید سائنس کے مفہومات کے ساتھ مشابہتوں کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے. مثلاً، ایک مسلمان سائنسدان اسلامی تقویات کو علمی اخلاقیات کی روشنی میں سمجھا سکتا ہے اور ایک جدید سائنسی مفہوم کو اسلامی مقامات اور تصورات کے ساتھ ربط کرسکتا ہے.
2. تشریعات کی تدقیق:
جدید سائنس کے فہم و تصورات کو مذہبی تشریعات کے ساتھ ملا کر جائزہ لیا جاسکتا ہے. ایسا کرنے سے اسلامی تشریعات کو جدید معاشرتی، علمی اور تکنالوجیکل ترقیوں کے ساتھ تعمیق ملتی ہے. مثال کے طور پر، اسلامی بیوکیمسٹری کے ضوابط کو جدید طب تکنیکوں کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے تاکہ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقیات کی حفاظت بھی ممکن ہو.
4. علمی تفسیر:
اسلامی نصوص کو جدید سائنسی تفسیر کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے. مثال کے طور پر، قرآنی آیات کو علمی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے تاکہ انہیں جدید علوم اور تجزیات کے ساتھ ملا دیا جا سکے.
5. تشریعات کی معاصر تطبیق:
اسلامی تشریعات کو معاصر معاشرتی، قانونی اور علمی ضوابط کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے. ایسا کرنے سے اسلامی تشریعات کو جدید معاشرتی تنظیمات کے ساتھ تعمیق ملتی ہے. مثال کے طور پر، اسلامی اقتصادی اصولوں کو معاصر مصرفی نظامات کے ساتھ ملا کر تشکیل دی جا سکتی ہے.
6. مشترکہ مسائل پر غور:
اسلام اور جدید سائنس دونوں کو مشترکہ معاشرتی، اخلاقی یا علمی مسائل پر غور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے. مثال کے طور پر، محیطی تحفظ، بیو ایتھکس، یا طبی تکنالوجی کے اخلاقی مسائل پر اسلامی اصولوں کی روشنی ڈالی جا سکتی ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوبکر المشرقی صاحب ماہنامہ فکر بھاولپور کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ گونج اور نوائے وقت کے مستقل لکھاری ہیں ۔ آپ کی دلچسپی کا میدان علم کلام ہے ۔
کمنت کیجے