مسلمان فرقوں میں عقائد کے حوالے سے متعدد ایسے اختلافات کلامی کتب میں مذکور اور اب تک موجود ہیں، جن پر کفر و اسلام کی ابحاث جنم لیتی رہی ہیں؛ لیکن وہ مسائل ایسے نہیں ہیں جن پر قرآن و احادیث سے نصوص مذکور ہوں یا جنھیں بنیادی نوعیت کے مسائل سمجھا جا سکے، یہ خالص “اجتہادی نوعیت” کے مسائل ہیں۔
ایسے ہی مسائل میں سے “ایمان میں استثناء” (یعنی ان شاءاللہ کہنے) کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا تعلق ایمان کی حقیقت سے جڑا ہوا ہے کہ ایمان محض زبان سے اقرار اور دل سے ماننا، تصدیق کرنا ہے یا اس کا تعلق عمل سے بھی ہے، قرآن و سنت سے بعض ضمنی دلائل کے علاوہ اس مسئلے میں علما کی تاویلات کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔
ایمان میں استثنا کا نزاع بھی شاید تیسری صدی ہجری میں کھل کر سامنے آیا۔ یہ نزاع اصل میں کوفہ کے اہل الرائے (امام ابو حنیفہ اور حنفی فقہا) اور کوفہ و بصرہ کے محدثین کے مابین “ارجاء” کے تنازع کا عکاس تھا، محدثین، امام ابو حنیفہ اور ان کے پیروکاروں کو مرجئہ کہتے تھے۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ کوئی انسان یہ کہے کہ وہ مومن ہے ان شاءاللہ یہ بات درست ہے یا نہ؟
مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ان شاء اللہ، آیا ایمان میں بھی ایسا کہنا درست ہے؟
اس مسئلے پر خوب لے دے ہوئی۔ یہ مسئلہ کفر و اسلام کا مسئلہ قرار پایا، معتزلہ اور اہل سنت متکلمین، محدثین اور فقہا نے مختلف جہات سے اپنے موقف پیش کیے، چنانچہ اس میں چار اقوال سامنے آئے:
پہلا قول یہ ہے کہ جب بھی اپنے ایمان کی بات کی جائے، ان شاءاللہ لازمی کہا جانا چاہیے۔ اس نظریے کو بنیادی طور پر تیسری صدی ہجری کے “کُلابیہ” نام کے فرقے اور اس فرقے کے پیشوا عبداللہ بن سعید، ابن کُلاب (م: 240ھ) کی طرف نسبت دی جاتی ہے، یہ گروہ بعد میں اشاعرہ کے ساتھ ضم ہو گیا۔ محدثین اہل سنت کی بڑی تعداد بھی اس نظریے کے طرف دار رہی ہے۔ ان کے دلائل بھی دلچسپ ہیں، ان کے دو بنیادی دلائل تھے؛ ایک یہ کہ حقیقت میں مومن وہ ہے جس کا ایمان پر خاتمہ ہو، چونکہ آدمی کو پتہ نہیں ہوتا کہ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں، اس لیے اُسے یہی کہنا چاہیے کہ وہ مومن ہے ان شاءاللہ (یعنی اگر خدا نے چاہا تو اُس کا ایمان پر خاتمہ ہوگا)۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ ایمان جب بولا جاتا ہے تو اس میں واجبات کو ادا کرنا اور محرمات سے بچنا شامل ہوتا ہے، اب ممکن ہے انسان عمل میں کوتاہی کر جائے، ایسے میں اُسے خود کو حتمی مومن (یعنی سبھی واجبات کو ادا کرنے والا اور سبھی حرام کاموں سے بچنے والا) قرار نہیں دینا چاہیے۔ اشاعرہ اور محدثین کی بڑی تعداد اس نظریے کی قائل ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ایمان میں استثنا جائز نہیں۔ یہ قول ماتریدیہ کا ہے، جسے “فقہا” یا “مرجئہ” یا احناف کا نظریہ بھی کہا گیا ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ ایمان تصدیقِ قلبی ہے، تصدیق یا ہوتی ہے یا نہیں، ایسے میں یہ کہنا کہ میں مومن ہوں ان شاءاللہ گویا ایمان (جو کہ تصدیق ہے) کی بابت شک کرنا ہے جو بندے کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ بعض معتزلہ کی طرف بھی اس قول کی نسبت دی جاتی ہے کہ ایمان تصدیق کا نام ہے، یہ کم یا زیادہ نہیں ہوتا۔ احناف چونکہ ایمان کے کم یا زیادہ ہونے کو درست نہیں جانتے، اسی تناظر میں بعض متکلمین نے امام ابو حنیفہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے:
إيمان أبي بكر و إيمان إبليس واحد…
کہ حضرت ابو بکر اور شیطان کا ایمان ایک (برابر) ہے کہ حضرت ابوبکر نے بھی کہا: يا ربّ اور شیطان نے بھی کہا: يا ربّ۔ اب یہ قول امام ابو حنیفہ کا ہو یا نہ ہو، ایمان کو تصدیق اور اس کے بڑھنے، گھٹنے کے انکار سے یہ بات بظاہر درست قرار پاتی ہے۔
تیسرا نظریہ یہ رہا کہ استثنا ایک جہت سے نادرست ہے اور ایک جہت سے درست ہے۔ اگر کوئی ایمان کے ہونے، نہ ہونے میں شک کی بنا پر ان شاء اللہ کہے تو یہ درست نہیں ہے اور اگر وہ اس اللہ سے ڈرتا ہوا، اپنی تعریف نہ کرتے ہوئے، انکساری سے یہ کہتا ہے کہ وہ مومن ہے ان شاءاللہ تو یہ درست ہے۔ اسے بھی متعدد علما اہل سنت نے اپنایا ہے۔
چوتھا نظریہ یہ رہا کہ یہ مباحث “بدعت”، بے فائدہ اور نادرست ہیں، ان میں نہیں پڑنا چاہیے۔ شیعہ علما نے اپنی کلامی مباحث میں اس مسئلے پر سرے سے بات نہیں کی، بظاہر اُن کا رجحان اسی طرف رہا۔
شیخ ابن تیمیہ (م: 728ھ) کی کتاب “مجموع الفتاویٰ” مطبوعہ مدینہ، سال 1995ء، کی جلد سات میں استثنا فی الایمان کا مسئلہ تفصیل سے مذکور ہے، شیخ نے اسی بحث کے ذیل میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی سے یہ پوچھنا کہ کیا تم مومن ہو؟ نا پسندیدہ ہے اور ایسے سوال کا جواب دینا بھی ناپسندیدہ ہے۔ مجموع الفتاویٰ، جلد 7 کے صفحہ 448 کا اقتباس دیکھیے:
قد كان أحمَدُ وغَيرُه مِن السَّلفِ معَ هذا يكرَهونَ سُؤالَ الرَّجلِ لغَيرِه: أمُؤمِنٌ أنت؟ ويكرَهونَ الجوابَ؛ لأنَّ هذه بِدعةٌ أحدَثها المُرجِئةُ ليحتجُّوا بها لقولِهم؛ فإنَّ الرَّجلَ يعلَمُ مِن نَفسِه أنَّه ليس بكافِرٍ، بل يجِدُ قلبَه مُصدِّقًا بما جاء به الرَّسولُ، فيقولُ: أنا مُؤمِنٌ، فيُثبِتُ أنَّ الإيمانَ هو التَّصديقُ؛ لأنَّك تجزِمُ بأنَّك مُؤمِنٌ، ولا تجزِمُ بأنَّك فعلْتَ كُلَّ ما أُمِرْتَ به، فلمَّا علِم السَّلفُ مَقصَدَهم صاروا يكرَهونَ الجوابَ، أو يُفصِّلونَ في الجوابِ، وهذا لأنَّ لفظَ الإيمانِ فيه إطلاقٌ وتقييدٌ؛ فكانوا يُجيبونَ بالإيمانِ المُقيَّدِ الذي لا يستلزِمُ أنَّه شاهِدٌ فيه لنَفسِه بالكمالِ؛ ولهذا كان الصَّحيحُ أنَّه يجوزُ أن يُقالَ: أنا مُؤمِنٌ بلا استِثناءٍ إذا أراد ذلك، لكن ينبغي أن يقرُنَ كلامَه بما يُبيِّنُ أنَّه لم يُرِدِ الإيمانَ المُطلَقَ الكامِلَ، ولهذا كان أحمَدُ يكرَهُ أن يُجيبَ على المُطلَقِ بلا استِثناءٍ يُقدِّمُه.
بڑے حنبلی محدث، ابو بکر خلال بغدادی (م: 311ھ) نے اپنی کتاب السنة میں عنوان قائم کیا ہے:
الرجل يسأل: أمومن أنت؟ و كراهية المسألة في ذلك
(یعنی آدمی کا کسی سے یہ سوال کرنا کہ کیا تم مومن ہو؟ یہ مکروہ ہے) اس عنوان کے تحت پانچ روایات لائی ہیں، جن میں خود اس سوال پوچھنے کو کہ تم مومن ہو؟ بدعت اور مکروہ قرار دیا گیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ جواب ان شاءاللہ کے ساتھ دیا جانا چاہیے۔
شیعہ متکلمین نے البتہ ایمان کی بحث کی ہے، شیخ مفید (م: 413ھ) کا نظریہ ہے کہ ایمان، دل سے تصدیق کرنا، اعضا و جوارح سے عمل کرنا اور زبان سے اقرار کرنا ہے؛ جبکہ آپکے شاگرد سید مرتضیٰ، علم الھدیٰ (م: 436ھ) اور بعض دیگر محققین کا نظریہ ہے کہ ایمان تصدیقِ قلبی کا نام ہے، اس میں زبانی اقرار لازم نہیں ہے۔
کمنت کیجے