راقم کے ایک سرسری تبصرے کو لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو غلط اور کربلا میں یزید کی حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدام کو درست سمجھتا ہوں۔ اس پر ہم نے عبارت کی وضاحت کردی تاہم اس کے باوجود ہمارے موقف کی تنقیح کے لئے قابل احترام ڈاکٹر مشتاق صاحب کی جانب سے کچھ سوالات مقرر کیے گئے ہیں۔ یہ سوالات اہم اور بحث کو سمجھنے میں مفید ہیں۔ لیکن بامعنی و مفید گفتگو وہ ہوتی ہے جس میں ہر فریق اپنے موقف کو واضح کرتے ہوئے اس پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دے تاکہ افہام و تفہیم کے ساتھ بات آگے بڑھ سکے۔ علمی گفتگو کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ “شیعت اور ناصبیت” جیسے جذباتی نعروں کو استعمال کرنے کے بجائے موقف و دلیل پر توجہ دی جائے۔ چنانچہ ہمارے نقطہ نگاہ پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے سے پہلے ہم بھی چند ایسے سوالات پیش خدمت کرتے ہیں جو اس مسئلے کی درست تنقیح کے لئے ضروری ہے۔ امید ہے ان پر بھی غور و فکر کیا جائے گا۔
سوالات پیش کرنے سے قبل ہم یہ بات کہنا چاہیں گے کہ یہ طریقہ بحث درست نہیں کہ ولی عہدی کے اصولی جواز سے متعلق ائمہ اسلام کے موقف کو اگنور کرکے بحث کی جائے۔ یہ طریقہ بحث مولانا مودودی رحمہ اللہ افورڈ کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات سے خاص دلچسپی نہیں کہ اس مسئلے پر ائمہ کی رائے کیا تھی. لیکن اہل روایت اسے قطعا اگنور نہیں کرسکتے کیونکہ اس کا نفس مسئلہ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے. پس ہم اس مسئلے پر ایسی ہی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو اس حقیقت پر مبنی ہو کہ ائمہ کے نزدیک (بشمول باپ و بیٹے کی) ولی عہدی انعقاد خلافت کا جائز طریقہ ہے اور اس کے خلاف رائے جدید دور میں بھلے جتنی جاذب نظر معلوم ہو اس کا کلام و فقہ کی روایات سے تعلق نہیں.
– دو خلط مبحث کی وضاحت اور موضوع بحث کا درست تعین
جس گفتگو کے تناظر میں یہ سوالات یہاں اٹھائے جا رہے ہیں، اس میں دو بنیادی خلط مبحث دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اس لیے ان سوالات سے پہلے ان کی اصلاح اس لئے ناگزیر ہے کیونکہ اس کے بغیر بحث کا اصل تناظر و سکوپ دھندلا جاتا ہے اور نتیجتا اصل سوالات دب کر رہ جاتے ہیں۔
1، اس گفتگو میں ایک تاثر یہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حضرت علی كرم الله وجهه کے مقابلے پر حضرت امیر معاویہ رضي الله عنہ تھے جبکہ حضرت حسین رضي الله عنہ کے مقابلے پر یزید تھا۔ ظاہر ہے کہ حضرت امام کے مقابلے میں یزید کی کیا حیثیت۔ اس لیے موازنے کو یہ رنگ دیا جاتا ہے کہ یزید کا پلڑا ہلکا بلکہ ریحانہ رسول حضرت حسین کے مقابلے میں کالعدم ہے اور اس طرح یہ حضرات “(حضرت) حسین بمقابلہ یزید” جیسے عنوان کے ذریعے اپنے نقطہ نگاہ میں پنہاں اصولی وفقہی غیر ہم آہنگی اور الجھنوں سے قاری کی توجہ ہٹانے کی سعی کرتے ہیں جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ایک طرف حضرت امیر معاویہ اور وہ دیگر صحابہ ہیں (جن کی تعداد تاریخی کتب میں 75 تک ہے) جن کے نزدیک ان حالات میں ولی عہد مقرر کرنا درست تھا اور دوسری طرف دیگر صحابہ تھے جن کی رائے میں یہ درست نہ تھا۔ ایسے میں اس موضوع کا درست عنوان “صحابہ کے مابین اجتہادی رائے میں اختلاف” ہے۔
2۔ دوسرا خلط مبحث یہ ہے کہ دو امور جدا جدا ہیں۔ “کیا کربلا اور حرا کے واقعات رونما ہوچکنے کے بعد یزید فاسق ہوا یا نہیں؟” یہ ایک الگ سوال ہے۔ لیکن اس کا اس دوسرے پہلو سے کوئی تعلق نہیں کہ حضرت حسین کی جانب سے یزید سے بیعت نہ کرنے کی فقہی تکییف کیا ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی نہیں بلکہ دوسری بات زیر گفتگو ہونی چاہئے کہ حضرت حسین نے کس بنا پر یزید کی بیعت سے ہاتھ کھینچا؟ ظاہر ہے کربلا وغیرہ کے بعد کے واقعات کی صورت حال اس سوال کا علمی جواب نہیں۔
– سوالات
موضوع بحث متعین ہونے کے بعد اب آئیے چند اہم متعلقہ سوالات کی جانب۔
1۔ کیا آپ کے نزدیک ولی عہد مقرر کرنا سرے سے ناجائز ہے یا بعض صورتوں میں درست بھی ہے؟
2۔ جب حضرت امیر معاویہ نے ولی عہد مقرر کرنے کا ارادہ کیا تو کیا صحابہ کے مابین اس پر اختلاف ہوا یا نہیں؟ یہ اختلاف اصولی تھا یا اطلاقی (یعنی جو صحابہ اس رائے کے خلاف تھے ان کی رائے میں ولی عہد مقرر کرنا سرے سے ناجائز تھا، یا بیٹے کو ولی عہد مقرر کرنا ناجائز تھا یا وجہ اختلاف یہ تھی کہ ان حالات میں بیٹے کو ولی عہد مقرر نہیں کرنا چاہئے؟)
3۔ کیا حضرت امیر معاویہ جائز حکمران تھے یا نا جائز؟
4۔ اگر جائز تو کیا حضرت امیر معاویہ کو بطور مجتہد اس رائے کا حق تھا کہ وہ بیٹے کو ولی عہد مقرر کرنے کو جائز سمجھیں، اگرچہ بعض صحابہ ان کی رائے سے اختلاف رکھتے ہوں؟
5۔ کیا حضرت امیر معاویہ نے رشوت و دھونس (جنہیں carrot and stick کے شوگر کوٹڈ الفاظ میں بھی بیان کیا جاتا ہے) کے ذریعے اپنی زندگی میں یزید کی بیعت لی؟
6۔ اگر ولی عہدی درست ہے اور حضرت معاویہ کو یہ حق تھا کہ وہ ولی عہد مقرر کریں تو ان کی رائے نافذ العمل ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
7۔ اگر حاکم وقت ولی عہد مقرر کرے، پھر بعد از اس کی مرگ معاشرے کے بااثر افراد کی اکثریت اور مختلف صوبوں کے عاملین و گورنر وغیرہ اس پر صاد کردیں جبکہ بعض لوگ اسے تسلیم نہ کریں، تو کیا اس کی ولایت نافذ ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو اس کے لیے کیا پیمانہ ہے؟ یعنی سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے نزدیک ولی عہدی سے حکومت کا نفاذ نہیں ہوتا، تو کیا ارباب حل و عقد کی کثیر تعداد میں بیعت ہوجانے کے بعد یزید کی حکومت کا نفاذ ہو گیا تھا؟ اگر نہیں، تو کیوں نہیں اور اس کی فقہی واصولی بنیادیں کیا ہیں؟ اوراگر ہاں، تو یہاں وہ سارے سوال لوٹ آئیں گے جو آپ نے اٹھائے۔
8۔ جن بعض صحابہ (مثلا حضرت عبد اللہ بن زبیر یا حضرت حسین) نے حضرت امیر معاویہ کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی زندگی میں یزید کی بیعت نہ کی، کیا کسی صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں اس نکتے کو پیش کیا کہ “یزید تو فاسق و فاجر ہے”؟ چنانچہ خود حضرت حسین کی نظر میں ان کے اس عمل کی بنیاد یا تکییف کیا یہ تھی کہ یزید فاسق ہے اور اس لئے اس کی حکومت قائم نہیں ہوئی؟ (دھیان رہے کہ ہم یہاں یہ سوال نہیں پوچھ رہے کہ واقعہ کربلا کے بعد یزید فاسق ٹھہرا یا نہیں بلکہ سوال حضرت حسین کے عمل کی بنیاد سے متعلق ہے)
9۔ کیا یزید کو واقعہ کربلا سے پہلے یعنی حکمران بنتے وقت فاسق و فاجر ماننا اہل سنت کا واحد و ضروری موقف ہے؟ (پھر واضح رہے کہ واقعہ کربلا کے ظلم کے بعد ظالم و فاسق تسلیم کرنے میں کوئی بحث نہیں)۔ کیا اس پر خود اہل سنت کے ائمہ کے مابین دوسری آرا موجود ہیں یا نہیں؟ پھر جن حضرات کے نزدیک وہ فاسق و فاجر نہ تھا تو “غیر فاسق” ہوتے ہوئے یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ جن صحابہ نے اس سے بیعت کی وہ فتنے کے خوف سے تھی؟ اسے تاریخی طور پر یوں بھی دیکھیے کہ ادھر حضرت امیر معاویہ کا انتقال ہوا، ادھر نئی حکومت دو حضرات یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بیعت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگلے دن یہ حضرات مدینہ سے مکہ چلے جاتے ہیں۔ کیا محض دو تین دنوں میں ان پر یزید کا کوئی ایسا فسق و فجور کھل گیا تھا جو حضرت امیر معاویہ کے علم میں دس سال تک نہ آسکا تھا؟ کیا اس سے یہ عندیہ نہیں ملتا کہ حضرت حسین کا یہ طرز عمل پہلے سے چلے آنے والے صحابہ کے مابین ہوئے اختلاف کا تسلسل تھا نہ کہ یزید سے متعلق معلوم ہونے والے کسی فوری تاثر پر مبنی تھا؟
10۔ کیا انعقاد خلافت ہوچکنے اور خروج کے جواز و عدم جواز میں لوگوں کے اجتہاد کو عمل دخل ہے یا نہیں؟ مثلا بعض لوگوں کو لگے کہ فلاں کی خلافت منعقد ہوگئی اور بعض کو لگے کہ نہیں ہوئی۔ ایسے میں صحابہ کے حوالے سے اپنا نظریہ طے کرتے ہوئے ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ہم ایک کی رائے کو راجح اور دوسری کو مرجوح قرار دیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دونوں کو درست قرار دیں۔ یہ دوسری رائے ان لوگوں کے مطابق ہے جن کے مطابق ظنی مسائل میں حق ایک سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ کیا ایک سے زیادہ حق کی یہ رائے اہل سنت ہی کے اندر پائی جانے والی ایک معتبر رائے نہیں ہے؟ اگر اس پر کہا جائے کہ احناف کے نزدیک حق ہر معاملے میں صرف ایک ہوتا ہے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہمارے سامنے انتخاب صرف حلال و حرام ہی کا ہویا پھر دو آراء کے مابین اولی و خلاف اولی کی ایسی نسبت ماننے کا امکان بھی ہوتا ہے جہاں ہر فریق مصیب ہو؟ کیا اہل سنت کے نکتہ نگاہ سے یہ ماننا ضروری ہے کہ حضرت حسین کے سوا دیگر صحابہ کم ہمت اور رخصتیں تلاش کرنے والے تھے؟
11۔ اسی کے ساتھ متصل سوال ہے کہ اگر کوئی شخص ان صحابہ (جو بڑی تعداد میں تھے) کی رائے کو درست سمجھے جن کا اجتہاد تھا کہ ولی عہد مقرر کرنا درست ہے نیز حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد یزید کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور اس کے خلاف خروج نہیں ہونا چاہیے، تو کیا وہ اصولی و فروعی طور سے سنی نقطہ نگاہ کا حامل رہے گا یا نہیں؟ اگر اس پر کہا جائے کہ دیگر صحابہ یزید کو بالحق حاکم نہیں گردانتے تھے لیکن ان کے خیال میں اس کے خلاف جانے سے فساد ہوگا اور اہل کوفہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، تو تب بھی یہ سوال لوٹ آتا ہے کہ جو شخص ان دوسرے صحابہ کی رائے کو درست سمجھے، تو اس کا حکم اہل سنت کے اصولوں کی روشنی میں کیا ہے؟ کیا اہل سنت کے ائمہ کلام نے اپنی کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ صحابہ کے درج بالا گروہوں میں سے کس کے بارے میں فلاں رائے رکھنا ہی اہل سنت کا معیار و شعار ہے؟
12۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یزید فاسق تھا یا اس کی ولی عہدی جائز نہ تھی یا اس کی حکومت قائم نہ ہوئی تھی، تب بھی اگلا سوال یہ ہے کہ فقہی نقطہ نگاہ سے حضرت حسین کا عمل “خروج” تھا؟ نیزاگر یہ بھی مان لیا جائَے کہ وہ خروج تھا، تو جب کوفہ کے حالات دیکھ کر نواسہ رسولﷺ نے وہاں سے روانگی کا ارادہ فرما لیا، تو کیا تب بھی یہ عمل “خروج” کی حدود میں شامل تھا؟ (ہم یہاں ضمنا یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس موقع پر نواسہ رسولﷺ کو قتل کردیا جانا ظلم وعدوان تھا)
ہماری رائے میں یہ چند اہم و سنجیدہ سوالات ہیں جن پرغور و فکر کی ضرورت ہے، اگر ان کا جواب ملنے کی امید ہو تو ہم بھی ان سوالات کا جواب ان شاء اللہ ضرور فراہم کریں گے جو ہمارے موقف کی تنقیح کے لئے پوچھے گئے۔
وما توفیقی الا باللہ
ولی عہد ی کے تصور سے متعلق سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کیا قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کا طریقہ جو اسلام کی اصل روح ہے وہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پاور ٹرانسفر کے وہ اصول جو آفاقی اور عالم گیر ہیں انکو نظر انداز کردیا جائے ۔۔مثلا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا۔ نیز و امرھم شوری بینھم۔اور حدیث کے مطابق
علیکم بسنتی وسنت الخلفاء الراشدین اور اسی اصول کے مطابق عبد اللہ بن زبیر رض کا حضرت معاویہ رض کو مشورہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقہ پر عمل کر لیں یا حضرت ابو بکر رض کے طریقہ پر یعنی اپنی اولاد کے علاؤہ کسی اہل کو تفویض فرما دیں یا پھر حضرت عمر رض کی طرح اہل افراد کی کمیٹی ترتیب دیں۔۔۔
یہی وجہ کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رض نے حکومتی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے یزید کی بیعت لینے کے طریقہ کو ھرقلیہ سے تعبیر فرما دیا تھا ۔۔
اس لیے جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیعت کر لی وہ بیعت اکراہ ہی تھی آزادی تو نہیں تھی کیونکہ حکومت اپنا فیصلہ سنا چکی تھی اور احسن اقوی اور احوط رائے کو نظر انداز کر چکی تھی اور سماجی عصبیت بھی حکومت کی قائم ہو چکی تھی اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیعت کرنا مصلحت کے تحت تھا۔۔۔قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے اصول تقرری کے مطابق نہیں تھا۔