Home » مسلم خواتین کی معاشی و تفریحی سرگرمیاں
تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث فقہ وقانون

مسلم خواتین کی معاشی و تفریحی سرگرمیاں

عہدِ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے، عربوں میں تجارت تھی؛ البتہ سال بھر کھلنے والے بازار اور منڈیاں نہ تھیں، مخصوص تاریخوں میں میلے لگا کرتے تھے جہاں خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ ان میلوں میں فحاشی، شراب اور دیگر برائیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ تجارتی دھوکہ دہی کا سلسلہ بھی ہوتا تھا، اسی کے پیش نظر بعض روایات میں بازار کو اچھا مقام نہیں سمجھا گیا، جیسے کہا گیا کہ بازار (السوق) شیاطین کا مرکز ہے وغیرہ۔۔۔ تاہم مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود مسلمانوں کے لیے کھلے میدان میں بازار کی بنیاد رکھی، یہاں مسلمان خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔
عصرِ رسالت میں عربوں کا بازاروں کی نسبت تاثر اچھا نہ تھا، قرآن مجید کی سورہ الفرقان کی دو آیات میں اس جانب اشارہ ہے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بازاروں میں دیکھ کر حیران ہوتے اور کہتے:
يمشي في الاسواق (سورہ فرقان، آیت 7) کہ یہ کیسا رسول ہے کو بازاروں میں آتا، جاتا ہے!
اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ ان سے کہیں کہ پہلے بھی جتنے انبیاء و رسل آئے وہ بھی عام انسانوں کی طرح تھے، کھاتے پیتے بھی کھاتے اور بازاروں میں بھی جایا کرتے تھے:
و يمشون في الاسواق (سورہ فرقان، آیت 20)
اسلام میں تجارت کو مرد اور عورت دونوں کے لیے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے، خرید و فروخت کے لیے جیسے مرد بازار میں آ جا سکتا ہے، ویسے عورت بھی آ جا سکتی ہے، ہاں دونوں کو ناجائز اور حرام کاموں سے بچنا چاہیے۔
حضرت خدیجہ علیھا السلام، عورت ہو کر تجارت کیا کرتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے شادی کی اور تجارت سے ہرگز منع نہ فرمایا۔
معاصر فقیہ، حضرت آیت اللہ سید علی حسینی، سیستانی (حفظہ اللہ) کی ویب سائٹ پر عورتوں کے تجارت کرنے کی بابت پوچھے گئے سوالات کے جوابات کے ذیل میں ہے کہ عورت (حجاب اور دیگر شرعی احکام کی پاسداری کے ساتھ) تجارت کر سکتی ہے اور بعض اوقات اُس پر تجارت کرنا واجب ہو جاتا ہے جیسے اُس کی زندگی یا اُس کے تحت افراد کی زندگی کا دار و مدار اسی تجارت پر ہو۔۔۔:
هي غير ممنوعة من ذلك اذا لم يتناف مع التزاماتها الشرعية، بل ربما يجب كما اذا توقف عليه تامين نفقة نفسها او نفقة من تجب نفقته عليها كاولادها مع فقد الاب والجد علي ما هو المشهور بين الفقهاء رضوان الله عليهم.
ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورت خوشبو لگا کر بھی باہر آ جا سکتی ہے، خواہ وہ خوشبو اجنبی (نامحرم) مرد سونگھیں بھی، ہاں خوشبو لگانے کا مقصد، مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا نہیں ہونا چاہیے:
يجوز للمرأة الخروج من بيتها لبعض شؤونها متعطّرة بحيث يشمُّ عطرها الرجال الأجانب عنها ، شرط أن لا يؤدي ذلك الى إثارة افتتان الرجال الأجانب بها ، وأن لا يكون تعطرها بقصد إثارتهم وافتتانهم.
معاصر فقیہ شیخ صادق کرباسی کی ویب سائٹ
islam4u
پر موجود ہے کہ شیخ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا عورت خواہ مخواہ، وقت گزاری یا تفریح کے لیے جازار جا سکتی ہے؟ شیخ جواب میں لکھتے ہیں کہ عورتوں کا بازاروں میں جانا، شرعی طور پر منع/ حرام نہیں ہے، اگر وہ وہاں کوئی اور حرام کام انجام نہ دیں تو سیر و تفریح، انٹرٹینمنٹ کے لیے بھی بازار جا سکتی ہیں:
الذهاب الى السوق ليس حراماً بنفسه حتى لو كان بهدف التسلية و الاستمتاع و الترفيه عن النفس.
تجارت کرنا، بازاروں میں جا کر خرید و فروخت کرنا، مرد اور عورت دونوں کے لیے اسلامی تعلیمات کی رو سے منع نہیں ہے۔ مرد کی طرح عورت بھی اکیلی بازار جا سکتی ہے اگر وہ وہاں محفوظ ہو تو، اس لیے بازاروں میں عورتوں کے جانے پر پابندی لگانا، غیر شرعی عمل ہوگا، جسے سراہا نہیں جا سکتا۔

مفتی امجد عباس

مفتی امجد عباس نے جامعۃ الکوثر اسلام آباد سے دینی علوم کی تحصیل مکمل کی اور البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستہ رہے ہیں۔

amjadabbask@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں