Home » مباحث سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مکی احادیث کی روشنی میں
اردو کتب تفسیر وحدیث مطالعہ کتب

مباحث سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مکی احادیث کی روشنی میں

 

سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ کا مختلف جہات سے مطالعہ جس سے سیرت مقدسہ کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں مطالعہ سیرت کا ایک اہم پہلو ہے۔ زمانی لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا مکی اور مدنی دور بالکل واضح ہے۔ سیرت مقدسہ کی بیشتر کتب کو دیکھا جائے تو مدنی زندگی کو مکی زندگی سے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی کے حوالے سے محترمہ شاہین شہزادی بنت محمد زکریا نے کام کیا ہے۔ یہ ان کا ایم فل کا مقالہ ہے جس کو ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس کی زیر نگرانی لکھا گیا ہے۔ یہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی کو احادیث کی روشنی میں سمجھنے کی ایک عمدہ کاوش ہے جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ تقریباً پانچ سو صفحات کے اس مقالے کو پروگریسو بکس نے “مباحث سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکی احادیث کی روشنی میں” کے نام سے شائع کیا ہے۔

اس کتاب کی تقدیم ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی نے لکھی ہے اور اس مقالے کو سراہا ہے۔ انہوں نے مصنفہ کے محققانہ انداز کی بھی تعریف کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے چند پہلوؤں پر بھی مختصر کلام کیا ہے اور اس پر مصنفہ کو داد دی ہے۔ اس مقالے کو ڈاکٹر صاحب نے مکی دور حیات کے افہام و تفہیم کے لیے ایک اہم کارنامہ قرار دیا ہے۔

پیش گفتار کے عنوان سے مصنفہ نے اپنے مقالے پر سرسری سی بات کرنے سے پہلے لفظ حدیث کی تاریخ پر گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ لفظ اہل عرب کے ہاں بمعنی اخبار یعنی کہ خبر دینے کے لیے مستعمل تھا۔ قرآن مجید میں بھی یہ لفظ مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے،بلکہ سورہ الطور کی آیت نمبر ۳۴ میں یہ قرآن مجید کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشادات کے لیے بھی اس کو استعمال کیا ہے۔ بعد میں یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کے لیے مختص ہو گیا۔ اس کے ساتھ کتاب کے خصوصیات پر بھی مصنفہ نے لکھا کہ مکی احادیث کو بنیاد بنا کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح کا تفصیلی کام پہلے نہیں ہوا یہ اس سلسلے کی ایک ابتداء ہے۔ اس بات کا ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی رح نے بھی اپنی تقدیم میں ذکر کیا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کتاب کو باقی کتب سیرت سے جداگانہ حیثیت حاصل ہے.

علم الحدیث میں احادیث کی مکی اور مدنی تقسیم ایک نیا موضوع ہے جس پر مصنفہ نے قلم اٹھایا ہے۔ اس پر مصنفہ نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ اس طرح سے ہے کہ مکی اصحاب سے مروی وہ احکام و معاملات جو مکی عہد میں پیش آئے ان کو مکی احادیث شمار کیا ہے جبکہ مدنی دور میں پیش آنے والے واقعات جو کہ مدنی اصحاب سے مروی ہیں ان کو مدنی احادیث میں شمار کیا گیا ہے۔ ایسے ہی مدنی اصحاب سے وہ رواۃ جو مکی حالات و واقعات پر ہیں ان کو بھی مکی احادیث میں شمار کیا گیا ہے۔ وہ احادیث جو حالات و واقعات اور قرائن سے نہ مکی ہوں نہ مدنی ان کو راویوں کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے یعنی کہ اگر راوی مکی اصحاب میں ہیں تو مکی حدیث ہے اگر مدنی اصحاب میں سے ہیں تو مدنی حدیث ہے۔ احادیث کی یہ تیسری قسم ہی کتاب کے بیشتر حصے پر مشتمل ہے۔ اس میں کئی جگہ بحث کی گنجائش ہے کہ مصنفہ نے مدنی احادیث کو مکی احادیث میں شمار کیا ہے۔ چند ایک کی نشاندھی میں آگے کرنے کی کوشش کروں گا۔ مگر مجموعی طور پر مصنفہ کا طریقہ کار قرین قیاس ہے۔ انہوں نے ایک پہلو پر راہنمائی کر دی ہے اب اس پر ماہرین اگر نقد و نظر سے کام لیں تو اس میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے ساتھ ہی اس کتاب کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے

باب اول کی فصل اول میں مکی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فصل دوم میں مدنی اصحاب رسول جو مکی عہد میں اسلام لا چکے تھے ان کی فہرست دی گئی ہے۔ یہ بہت ہی قیمتی فہرست ہے اور مصنفہ نے بہت محنت سے اس فہرست کو مرتب کیا ہے۔ مکی اصحاب رسول میں ہجرت حبشہ اولی کرنے والے تیرہ صحابہ اور پانچ صحابیات جن میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قابلِ ذکر ہیں ان کے نام دیئے گئے ہیں ۔ ان کے بارے میں آگے ایک حدیث بھی لکھی ہے کہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت سیدنا لوط علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد اپنی اہلیہ سمیت ہجرت کی ہے۔پھر ہجرت حبشہ ثانیہ میں جانے والے ایک سو ساٹھ اصحاب جن میں ۱۲۹ صحابہ اور ۳۱ صحابیات کے اسمائے گرامی ہیں دئیے گئے ہیں۔ پھر ساتھ ہی مولودین حبشہ جن کی تعداد چوبیس ہے ان کے نام ذکر کیے گئے ہیں جن میں نواسہ رسول حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ان کے بھائی حضرت سیدنا عون بن جعفر رضی اللہ عنہ اور ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی حبیبہ بنت عبید اللہ کا نام قابل ذکر ہے۔ حضرت عبیداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ جو مہاجرین حبشہ میں سے تھے کہ بارے میں کچھ سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ یہ حبشہ میں جا کر نصرانی ہو گئے تھے لیکن بعد میں کچھ اہل علم نے اس پر تحقیق کی تو ان کی رائے یہ ہے کہ ان کے نصرانی ہونے والی بات غیر محقق ہے وہ تادم مرگ مومن تھے اور مجھے بھی یہی بات زیادہ مضبوط لگتی ہے۔
اس فصل میں مصنفہ نے مکی عہد میں اسلام قبول کرنے والے ۵۶۷ اہل مکہ کی فہرست دی ہے۔ جن میں ۲۳۴ افراد کا تعلق دوسرے قبائل اور ممالک سے جبکہ ۳۲۴ نفوسِ قدسیہ کا تعلق مکہ مکرمہ سے تھے۔ ان میں حبشہ اور مدینہ منورہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۴۹ ہے جبکہ ۷۵ افراد ایسے ہیں جنہوں نے ہجرت نہیں کی۔
فصل دوم میں ۱۲۲ مدنی اصحاب رسول کا ذکر ہیں جنہوں نے مکی عہد میں اسلام قبول کیا یعنی جو کہ بیعت عقبہ اولی ،بیعت عقبہ ثانیہ اور ثالثہ میں شامل تھے۔ان تینوں بیعت میں شامل اصحاب کی کل تعداد ۱۱۱ ہے جبکہ ۱۱ اصحاب وہ ہیں جو بیعت عقبہ اولی، ثانیہ اور ثالثہ میں شامل تو نہ ہوئے مگر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے ان میں ایک اہم نام حضرت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ہے۔
بیعت عقبہ اولی میں ۸ افراد شامل ہوئے جن میں سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں بارہ افراد تھے جن میں سے پانچ بیعت اولی والے جبکہ سات نئے افراد تھے جن میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ قابلِ ذکر جبکہ بیعت ثالثہ میں تقریباً ۹۷ اصحاب جن میں دو صحابیات بھی شامل ہیں نے بیعت کی ان میں حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ قابلِ ذکر ہیں۔

یہ دونوں فصول سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ سیرت الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب نے اپنی تقدیم میں مصنفہ کی اس کاوش کو خصوصی طور پر ذکر کرکے ان کی تحسین کی ہے۔ یہ انتہائی قابلِ قدر کام ہے۔ مصنفہ نے کافی محنت کی ہے۔ البتہ ایک دو ناموں پر کچھ اختلاف کیا جا سکتا ہے جیسے کہ مصنفہ نے جناب زید بن عمرو بن نفیل جو کہ بالاتفاق موحد تھے کو صحابہ کرام کی فہرست میں شامل کیا ہے حالانکہ ان کو اعلان نبوت کے بعد کا زمانہ نہیں ملا۔ ایسے ہی جناب ورقہ بن نوفل بھی دین حنیف پر تھے مگر جب دعوت کا آغاز ہوا تو ان کا انتقال ہو چکا تھا۔

باب دوم کی فصل اول قبل از بعثت سیرت کے حوالے سے ہے۔ جس میں نسب نامے سے آغاز کیا گیا ہے جس میں عدنان تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب ذکر کیا گیا ہے۔
قریش کی وجہ تسمیہ کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ سمندری جانوروں سب سے بڑے جانور کو قرش کہتے ہیں وہ جس چیز سے گزرے موٹی ہو یا دبلی کو کھا جاتا ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بھی ذکر کی گئی جس میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل میں سے بنو کنانہ کو چنا ، بنو کنانہ میں سے قریش ، پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو اور پھر بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا گیا۔
قریش کی فضلیت میں ایک اور حدیث بھی مصنفہ نے ذکر کی ہے جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین مخلوق ، بہترین قبیلے اور بہترین گھر میں پیدا فرمایا۔ بنو ہاشم اور قریش کی فضلیت پر مزید روایات مصنفہ نے ذکر کی ہیں جن میں سے ایک اور قابلِ ذکر ہے کہ

تمام لوگ قریش کے تابع ہیں، نیک ان کے نیکو کاروں کے اور شریر ان کے شریروں کے

یہاں عربوں کی فضیلت پر بھی مصنفہ روایات لائی ہیں ، جن میں ان سے دھوکا دہی کرنے اور بغض رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں مصنفہ نے مسند احمد کی ایک روایت ذکر جو کہ حضرت سیدنا سلمہ بن سلامہ رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے جو کہ اصحاب بدر میں سے ہیں کہ بنو عبدالاشہل میں ان کا یہودی پڑوسی تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا عرصہ قبل وہ ایک مجلس میں آیا اور وہاں جنت و جہنم کی بات کرنے لگا۔ اس نے کہا کہ مجھے دنیا میں بیشک کسی جلتے تندور میں پھینک کر اس کو اوپر سے بند کردیا جائے تو اس کو منظور ہے اگر اس کے بدلے میں اس کو جہنم سے نجات دے دی جائے۔ اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ آخری نبی ان علاقوں سے مبعوث ہوگا۔ جب سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو حضرت سیدنا سلمہ بن سلامہ رضی اللہ عنہ تو ایمان لے آئے مگر یہ یہودی جو اس وقت زندہ تھا حسد کے باعث ایمان سے محروم رہا۔
اس کے ساتھ حضرت عبدالمطلب ہاشمی نے دوبارہ زم زم کا کنواں کھودا جس سے قریش کے کچھ لوگوں سے آپ کا نزاع ہوا اس کے حل کے لیے انہوں نے شام کی ایک عورت کو حکم بنایا جو کہ کاہنہ بھی تھی۔ آپ کا سفر شام جہاں قریش نے آپ کے ساتھ راستے میں بدسلوکی کی جبکہ اس کے بدلے میں حضرت عبدالمطلب ہاشمی نے قریش سے حسن سلوک کیا اس حوالے سے روایت پیش کی ہے۔ حضرت عبدالمطلب ہاشمی رحمہ اللہ کے سفر یمن میں ایک یہودی عالم نے ان کو دیکھا تو ان کے جسم کو دیکھنے کی اجازت چاہی تو حضرت عبدالمطلب ہاشمی نے اجازت دے دی ماسوائے شرم گاہ کے ، اس نے آپ کے ناک کے نتھنوں کو دیکھ کر کہا کہ میں ان میں ایک نتھنے میں بادشاہت اور دوسری میں نبوت دیکھ رہا ہوں۔

امام بیہقی کی دلائل النبوہ سے مصنفہ نے حضرت عبداللہ ہاشمی رحمہ اللہ کا واقعہ ذکر کیا ہے جب بنو خثعم کی ایک عورت نے اپنا نفس ان کو پیش کیا تو حضرت عبداللہ ہاشمی رحمہ اللہ نے اپنی زوجہ سے صحبت کی تو اس کے بعد اس کی پیشکش پر بات ہوئی تو اس نے انکار کر دیا کہ جو کچھ میں پہلے پیشانی پر نور دیکھ رہی تھی وہ اب نہیں ہے۔
مستدرک حاکم سے ایک روایت مصنفہ نے پیش کی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جس رات ولادت ہوئی تو مکے میں ایک یہودی تاجر آیا ہوا تھا، اس نے کچھ غیر معمولی دیکھا تو نومولود بچے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ کے کندھوں کے درمیان تل دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گیا جب ہوش میں آیا تو قریشیوں نے پوچھا تجھے کیا ہوا؟ کہنے لگا ! اللہ کی قسم آج سے نبوت بنی اسرائیل سے چلی گئی اور رخصت ہو گئی ہے۔
ولادت کے حوالے سے یہاں مصنفہ نے متعدد روایات بیان کی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا ہر چیز کو نور میں دیکھنا، کسری کے محل میں کنگرو کا گرنا، آتش فارس کا بجھنا وغیرہ سمیت کئی اور واقعات کو ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد مصنفہ نے امام ابو نعیم کی دلائل النبوہ سے اصحاب الفیل کے واقعے کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت کے حوالے سے دس خواتین کا ذکر کیا ہے جنہیں یہ رضاعت کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں ایک آپ کی والدہ حضرت آمنہ ہیں۔ تین خواتین کے نام معلوم نہیں مگر ملتا ہے کہ قبیلہ بنو سلیم سے گزرتے ہوئے تین عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔ اس کے علاوہ بنو سعد کی ایک اور خاتون جو حضرت حلیمہ سعدیہ سے الگ ہیں ان کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ حضرت ثویبہ جو ابو لہب کی کنیز تھیں ، حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا ، حضرت خولہ بنت منذر ، حضرت ام فروہ اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہم کو رضاعت کا شرف حاصل ہے۔ رضاعت کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، محسوس ہوتا ہے کہ یہاں مصنفہ نے چھان بین سے کام نہیں لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی ماؤں کے حوالے سے ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی کی تحقیق موجود ہے اس کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکر اپنے قبیلے میں جانا اس سفر کے بارے میں سیرۃ ابنِ ہشام سے احوال نقل کیے گئے ہیں اس کے علاوہ دگر عجائب جن کا مشاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے طفیل حضرت حلیمہ سعدیہ نے کیا ان کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ بنو سعد کے ہاں قیام میں ہی شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔
سیرۃ ابنِ ہشام سے ہی معاہدہ حلف الفضول کے بارے میں کچھ معلومات مصنفہ نے فراہم کی ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت کی۔ اس معاہدے میں مظلوم کی ظالم کے خلاف مدد ، ایک دوسرے سے مدد ، ایک دوسرے کو بے یار و مددگار نہ چھوڑنے پر بنو عبد مناف ، بنو عبد شمس ، بنو زہرہ ، بنو نوفل ، بنو تیم، ، بنو حارث اور بنو فہر کے پانچ قبائل نے معاہدہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے چچا جناب ابو طالب کے ساتھ سفر شام اور وہاں پر ایک راہب کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لینے کا ذکر بھی مصنفہ نے کیا ہے۔ اس کے تعمیر کعبہ اور حجر اسود کی تنصیب کے حوالے سے بھی روایات ذکر کی ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت اہم کردار ادا کیا اور قریش کے درمیان ہم آہنگی کو قائم رکھا۔ایک روایت بیت اللہ اور حجر اسود کی تاریخ کی بھی مصنفہ نے ذکر کی ہے۔ اس کے ساتھ اساف اور نائلہ کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ بنو جرہم کے ایک مرد اور عورت تھے، انہوں نے معاذ اللہ کعبہ مقدسہ میں زنا کیا، لہذا دونوں مسخ کر کے پتھر بنا دئیے گئے۔ حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مشرکین کعبہ کا طواف کرتے تھے تو وہ ان بتوں پر ہاتھ پھیرتے تھے، ایک بار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ طواف کرتے ہوئے حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے سے منع کیا۔

ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کے بارے میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت مصنفہ نے ذکر کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بہن کے درمیان پہلے اس رشتے کی بابت مکالمہ ہوا ، حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد پہلے اس رشتے پر خوش نہیں تھے مگر جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو راضی ہو گئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کافی پرانا تھا، اس لیے آپ اولین اہل ایمان میں سے بھی ہیں۔
ایک روایت خیبر کے یہود اور قبیلہ غطفان کے بارے میں ہے کہ ان میں لڑائی رہتی ، غطفان یہود پر غالب آ جاتے تو یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو اس کے بعد وہ فتح یاب ہوتے
ایک روایت (حضرت) ابو سفیان بن حرب (رضی اللہ عنہ) اور امیہ بن ابو صلت کے سفر شام کے بارے میں ہے جہاں انہیں ایک نصرانی نے بتایا کہ آخری نبی کی بعثت قریب ہے کیونکہ ان کی بعثت سے قبل شام میں اسی زلزلے آنے ہیں، ان میں ایک باقی ہے۔ وہ کہتے ہیں سفر شام سے ہم واپس آ رہے تھے تو ہمیں شام سے آتا ایک سوار ملا اس نے بتایا کہ شام میں بہت بڑا زلزلہ آیا ہے اور اہل شام پر مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔

مصنفہ نے دور جاہلیت کے موحدین جناب زید بن عمرو بن نفیل ، جناب ورقہ بن نوفل اور قس بن ساعدہ ایادی کے بارے میں بھی تحریر فرمایا ہے اور ان کے بارے میں روایات ذکر کی ہیں جن میں ان کو اکیلا بطور امت اٹھایا جائے گا ۔ اس جگہ جناب زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے بارے میں مزید معلومات مصنفہ نے ذکر کی ہیں جن سے ان کا بت پرستی سے نفرت اور عقیدہ توحید پر کاربند رہنے کا پتہ چلتا ہے۔ وہ بتوں کے نام کا ذبیحہ نہیں کھاتے تھے ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات بھی ہوئی۔ جناب زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ تلاش حق کے لیے شام بھی گئے جہاں یہودی اور نصرانی علماء سے ملے اور وہاں انہیں معلوم ہوا کہ دین ابراہیمی اس وقت حق ہے تو انہوں نے اعلان کیا کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔ جناب زید رحمہ اللہ موصل گئے ان پر نصرانیت پیش کی گئی جو انہوں نے قبول نہ کی اور یہ کہتے ہوئے واپس آ گئے

میں حق تعالی کے لیے حاضر ہوں، عبادت گزاری اور اس کی غلامی کرنے کے لیے۔ میں نیکی اور پاکیزگی طلب کرتا ہوں۔ نہ محض نشان عبادت۔ کیا بھلا حقیقی عمل اور محض زبانی قول برابر ہو سکتے ہیں۔ میں اس دین پر ایمان لے آیا ہوں جس کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام ایمان لائے تھے۔ میری پیشانی (اے اللہ) تیرے اگے خاک الود ہے اور جھکی ہوئی ہے جہاں بھی آپ مجھے (اطاعت و عبادت کی) تکلیف دیں گے میں قبول کروں گا اور اس کے بعد وہ سجدے میں گر جاتے ہیں ”

جناب قس بن ساعدہ ایادی کے بارے میں ایک روایت ذکر کی ہے جب ان کا قبیلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کو آیا تو معلوم ہوا وہ مر چکے ہیں تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اعلان نبوت سے قبل عکاظ میں ان کو دیکھنے کا ذکر جہاں وہ واعظ فرما رہے تھے جس میں دنیا کی بے ثباتی اور ساتھ ہی بتوں سے بیزاری اور عقیدہ توحید پر ایمان کا ذکر ہے ۔

باب دوم کی فصل دوم میں بعد از بعثت نبوی کی احادیث کو ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں ۲۲۸ مضامین کے تحت ۳۳۲ احادیث جمع کی گئی ہیں۔ ان میں بھی آغاز وحی تا ہجرت مدینہ کے اوپر ۱۶۲ مضامین اور ۲۱۴ احادیث ہیں ، اس کے علاوہ خصائص ، فضائل اور شمائل کے بارے میں احادیث ذکر کی گئی ہیں جبکہ سات احادیث معجزات کے بارے میں بھی ہیں۔
آغاز وحی تا ہجرت میں مختلف مضامین کے تحت پہلے وحی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غار حرا جانے کے معمول پر بات کی گئی ہے۔ پھر پہلی وحی آنے کے بعد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دینا اور پھر جناب ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر جانا۔ اس سلسلے میں ایک روایت جو امام بیہقی رحمہ اللہ دلائل النبوہ میں لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھے تو جبریل علیہ السلام آئے وہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نظر آ رہے تھے مگر ام المومنین کو نہیں، پھر سیدہ ام المومنین نے اپنے سر سے دوپٹہ اتارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ وہ چلے گئے جس پر ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ شیطان نہیں ہیں۔ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں پھر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ لائے۔ امام بیہقی کے حوالے سے مصنفہ ایک روایت لیکر آئی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کا اظہار حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پہلے کر دیا تھا کیونکہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے چھپا رہے تھے جب جناب ابو طالب کو علم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا تو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بتایا جس پر جناب ابو طالب نے اپنے بیٹے کو اپنے چچا زاد کی تائید و نصرت کی تلقین کی۔ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی اولین اسلام لانے والوں میں سے ہیں مگر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا علی ان سے مقدم ہیں۔ حضرت سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بھی اولین مومنین میں سے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو حضرت سیدنا طلحہٰ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بصری میں تھے تو وہاں ایک راہب نے ان کو بتایا کہ مکہ مکرمہ میں آخری نبی ظاہر ہو گئے ہیں سیدنا طلحہٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ، پھر مکہ مکرمہ آمد پر وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملے اور راہب کی بات بتائی پھر سیدنا صدیق اکبر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لیکر گئے جس پر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس کے علاوہ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے حوالے سے روایات نقل کی گئی ہیں۔
اس کے بعد دعوت اسلام کو عام کرنے کے حکم کے بارے میں روایت آئی ہے اور اس کے بعد ابو لہب، ام جمیل اور اس کے بیٹے عتیبہ کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچانے اور پھر ابو لہب اور عتیبہ کے عبرت ناک انجام کے بارے میں روایات نقل کی گئی ہیں۔ ابو جہل کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرنا اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ارادہ کرنا مگر اس میں اس کا ناکام و نامراد ہونے کے واقعات کو بھی مصنفہ اس کتاب میں لائی ہیں۔
حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی حضرت سیدنا انیس رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا اور پھر قبیلہ غفار کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعا فرمانا، اس کے بعد حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعات کو بھی نقل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مکی مواخات کا ذکر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے درمیان مواخات قائم کیں اور اپنا رشتہ اخوت حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے قائم فرمایا۔
حضرت سیدنا سواد بن قارب رضی اللہ عنہ جو کہ کاہن تھے کے قبولیت اسلام کا قصہ بہت ایمان افروز ہے۔ مصنفہ نے اس کو بھی ذکر کیا ہے وہ ہندوستان سفر پر تھے جہاں ان کے جن نے ان کو بار بار مکہ مکرمہ جانے پر اصرار کیا تاکہ آپ صاحب ایمان ہو جائیں ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اس پر اشعار بھی کہے جن کا ترجمہ یوں ہے

میرے پاس رات سو جانے کے بعد مجھے مشورہ دینے والا آیا ہے اور اس مشورہ دینے میں وہ جھوٹا بھی نہیں تھا۔ تین راتوں تک وہ آتا رہا۔ روزانہ اس کی یہی ایک بات ہوتی تھی کہ تیرے پاس لوی بن غالب سے رسول آ چکا ہے ۔ لہذا میں نے اپنا تہمبند اپنی پنڈلی سے اٹھایا اور مجھے فربہ جسم تیز رفتار اونٹنی نے طویل مسافتیں طے کر کے آپ کی مجلس میں لا کھڑا کیا میں کلمہ شہادت پڑھتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی باقی رہنے والا نہیں ہے اور آپ ہر خطرے سے محفوظ ہیں، ہر غیر موجود کے لیے امین ہیں۔ آپ رسولوں میں سے شفاعت کرنے کے اللہ کے قریب تر ہیں اے شرفاء اور پاکیزہ نسب والے۔لہذا آپ ہمیں اطمینان سے اس چیز کا حکم فرمائیں جو آپ کے پاس جبریل امین لے کر آتے ہیں ۔ اگرچہ اس میں جوانی کو بڑھاپے میں بدل دینے والے احکامات ہوں اور آپ قیامت میں میرے شفیع بن جائیں جس دن آپ کے سوا سوار بن قارب کے کام آنے والا کوئی سفارشی نہ ہوگا

حضرت سیدنا سواد بن قارب رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار سن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا تم کامیاب ہو گئے۔

یہود کے کہنے پر نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط اور دیگر نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے روح ، ذولقرنین اور اصحاب کہف سے متعلق سوال کیا جس میں انشاء اللہ کے بھول جانے پر وحی کا سلسلہ رک گیا اور پھر جاری ہوا جس میں ان سوالات کے جواب دئیے گئے ان کو بھی الگ الگ مضامین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔
ہجرت حبشہ اور پھر نجاشی کے دربار میں (حضرت)عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) کا کفار کا نمائندہ بن کر آنا پھر حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا خطبہ دینا اور بتانا کہ یہ لوگ (مشرکین مکہ) کیوں ان کے دشمن بن گئے اور پھر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بارے میں اسلامی عقیدے کو بیان کرنا اس کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
قریش کی جانب سے بنو ہاشم کا مقاطعہ اور پھر ان کے معاہدے کو دیمک کا لگ جانا بھی مکی عہد کے اہم واقعات ہیں جن کو ذکر کیا گیا ہے۔ پھر جناب ابو طالب کی وفات اور اس کے بعد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال جن کے لیے جنت کی خوشخبری بھی دی گئی۔ اس کے بعد معراج کے حوالے سے مختلف مضامین کے تحت اس کی حدیث کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے حوالے سے کلام کیا گیا ہے جس میں حضرت سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے اہم کردار ادا کیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی بابت یہ ملتا ہے کہ ان کا رشتہ جناب مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے کے لیے بھی مانگا ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت پختہ عمر میں داخل چکی تھیں کہ لوگ ان کے لیے رشتہ مانگ رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طائف جانا جہاں پر بدبختوں نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بدسلوکی کی ، پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا عتبہ اور شیبہ کے باغ میں حضرت عداس کے ساتھ ملاقات ہونا اس کو بھی مصنفہ نے نقل کیا ہے۔ طائف سے واپسی پر مقام نخلہ پر جنات کی جماعت کے قرآن سننے کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پھر بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ کو ذکر کیا گیا ہے جس میں (سیدنا) عباس (رضی اللہ عنہ) بھی آپ کے ساتھ گئے اور انصار مدینہ سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی حفاظت کی یقین دہانی لی۔ اس وقت آپ دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے مگر بطور چچا اپنے بھتیجے کی حفاظت کے لیے فکر مند تھے۔
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عیاش بن ابو ربیعہ اور حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ عنہم نے اکٹھے ہجرت کا ارادہ بنایا مگر حضرت سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے روک لیا جبکہ باقی دو نے اکٹھی ہجرت کی جبکہ حضرت سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ بعد میں مدینہ منورہ آئے۔
غار ثور میں جب مشرکین بالکل قریب پہنچ گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تسلی دینے کے الفاظ بہت مبارک اور معنی خیز ہیں

“اے ابو بکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو”

یہ الفاظ جب بھی پڑھتا ہوں ایک عجیب لطف دیتے ہیں سوچتا ہوں جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ زبان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہو گا تو ان کو کتنا اطمینان اور تسلی ملی ہو گی اور پھر خود رب تعالیٰ نے بھی سکینت نازل فرمائی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو یہ خدمت کی اس کی وجہ سے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان پر پوری زندگی رشک کرتے رہے اور فرماتے تھے غار ثور میں آغوش رسالت میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گزری ایک رات اور ایک دن آل عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے تو حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے مہمان نوازی کی ایک نئی تاریخ رقم کی اس کے بارے میں روایت لائی گئی ہے۔

اس کے بعد شمائل مصطفی، خصائل اور خصائص پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس ابواب میں درج احادیث میں سے بیشتر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ مکی عہد سے متعلق نہیں ہیں بلکہ مدنی عہد میں بیان کی گئی ہیں۔ البتہ کچھ روایات بالیقین مکی عہد سے متعلق جیسے کہ حضرت ابو طالب کے اشعار جو انہوں نے اپنے بھتیجے کی شان میں کہے تھے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پھوپی حضرت سیدہ عاتکہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا کے کہے ہوئے اشعار ہیں۔ معجزات میں شق القمر کا معجزہ قابل ذکر ہے جس کے متعلق حدیث لائی گئی ہے۔

باب دوم کی فصل سوم فضائل صحابہ اور نبوی پیش گوئیاں کے نام سے ہے ۔ جس میں فضائل صحابہ کے بارے میں ۴۷ اور پیش گوئیوں کے بارے میں ۱۰۵ احادیث ذکر کی گئی ہے۔احادیث کی تعداد کے حوالے سے ایک ضروری وضاحت کر دوں کہ مصنفہ نے مکررات کو الگ الگ شمار کیا ہے۔ مکررات کو الگ الگ شمار کرنا جبکہ ان کو لکھا ایک بار گیا ہے اس طریقے کار سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، بہتر ہوتا کہ مکررات کو ایک شمار کر کے احادیث کی تعداد معین کی جاتی۔ فضائل صحابہ میں ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ، حضرت سیدنا علی ، حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح ، حضرت سیدنا عمار بن یاسر ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان ، حضرت سیدنا زبیر ، حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص ، حضرت سیدنا ابو ذر غفاری اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے بارے میں احادیث ذکر کی گئی ہیں ۔ جبکہ ایک روایت حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں ہے، اس کے بارے غالب گمان یہی ہے کہ یہ مدنی حدیث ہے کیونکہ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے مدنی عہد میں اسلام قبول کیا۔
پیش گوئیوں میں حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ، حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خوارج کو قتل کرنے سمیت احوال قیامت کے متعلق احادیث آئی ہیں ۔ یہاں بھی مصنفہ نے ایک روایت حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی نقل کی ہے حالانکہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام بھی مدنی عہد کا ہے۔ اس کے علاوہ فتنہ مسیح و دجال کے بارے میں بھی احادیث کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس فصل میں بھی ایسی احادیث کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو کہ مدنی عہد سے متعلق ہیں۔

باب سوم مکی احادیث کی روشنی میں عقائد ، عبادات اور معاملات کے متعلق ہے۔ عقائد کی بابت مصنفہ نے وضاحت کی ہے کہ ان کی اصولی تعلیمات مکی عہد میں ہی مکمل ہو گئی تھیں ، مدنی عہد میں ان کی فرع بیان ہوئی ۔ یہ بات درست ہے کیونکہ ایمانیات کے باب میں عقیدہ توحید ، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت کے بارے میں مکی سورتوں میں بھی بکثرت مضامین ملتے ہیں۔ ساتھ ہی ایمان بالکتاب کے بارے میں بھی ان سورتوں میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مصنفہ نے بھی ایمان باللہ ، ایمان بالرسالت ، ایمان بالآخر ، ایمان بالکتاب اور ایمان بالملائکہ کے حوالے سے فصل اول میں احادیث ذکر کی ہیں۔ ایمان بالکتاب کے ضمن میں سورتوں کے فضائل پر بھی گفتگو کی گئی ہے جن میں سے چند روایات معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدنی عہد سے تعلق رکھتی ہیں.
اس فصل میں آخرت کے متعلق حدیث شفاعت تفصیل سے ذکر کی گئی ہے جس میں جب سب انبیاء علیہم السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا کہیں گے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد بیان کریں گے اور اس حمد کے لیے اللہ تعالیٰ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا قلب کھولے گا جو ایسی حمد اس قبل بیان نہ کی گئی ہو گی۔ اس طرح آخری جنتی جو جنت میں داخل ہو گا اس کے متعلق حدیث بھی کافی ایمان افروز ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح روز آخرت اپنا لطف و کرم اپنے بندوں پر فرمائے گا

فصل دوم عبادات سے متعلق ہے۔ اس کے بارے میں مصنفہ نے لکھا کہ وضو اور نماز کی تعلیمات پہلی وحی آنے پر ہی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دے دیں گئیں تھی۔ اس فصل میں مصنفہ نے طہارت ، نماز ، زکوٰۃ و صدقات روزہ اور اذکار کے بارے میں احادیث ذکر کی ہیں ۔ ان میں بالخصوص اذکار کے بارے میں احادیث قابلِ مطالعہ ہیں، جن میں سے استقامت دین ، آفات و بلیات سے نجات ، شر شیطان سے حفاظت اور مختلف بیماریوں سے نجات کے لیے اذکار اور مسنون دعائیں ہیں۔ ممکن یہ مسنون اذکار مدنی عہد میں ذکر کیے گئے ہوں لیکن ان کو کتاب میں شامل کر کے مصنفہ نے پڑھنے والوں کا بھلا کیا ہے اور مختلف اوقات میں مسنون ازکار کو جمع کر دیا ہے جس سے نفع حاصل کیا جا سکتا ہے۔

فصل سوم معاملات کے متعلق ہے جس میں حسن معاشرت اور رذائل اخلاق کے متعلق نبوی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ فصل ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو بیان کرتی ہے تو دوسری طرف یہ اسلام کا ایک تعارف بھی ہے کہ تکریم انسانیت ، صفات مومن ، مریضوں کی عیادت ، دعوت قبول کرنا، نماز جنازہ ، تقسیم رزق ،والدین کی فرمانبرداری ، اعتدال و میانہ روی کو اختیار کرنا، تواضع و انکساری اختیار کرنے ، نرم خوئی ،شرم و حیا ، آداب مجلس ، آداب طعام، لباس کے آداب ، صلہ رحمی ، بچوں پر شفقت وغیرہ کی فضیلت اور ترغیب پر اسلام کیا کہتا ہے اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا تعلیمات ہیں ان کو ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ ساتھ گناہ کبیرہ اور صغیرہ ، رذائل اخلاق جو انسان کی دین و آخرت کو تباہ کر دیتے ہیں ، حرص مال و منصب ، قتل اولاد ، تکبر، حسد،بخل، کذب بیانی ، ذخیرہ اندوزی ، ناانصافی ، بے رحمی کو ذکر کیا گیا ہے اور ان سے بچنے کی تلقین ہے اور ان کی وعید بیان کی گئی ہے۔
چونکہ انسان بہک کر گناہ کر جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات کو کھلونے اور جاری رکھنے کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ جو توبہ کا راستہ اختیار کر کے اپنی غلطیوں پر نادم ہو، اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے والوں کو خوشخبری سنائی ہے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ مصنفہ نے اس فصل کا اختتام بھی توبہ کے بارے میں احادیث پر کیا ہے۔

مصنفہ نے بہت محنت سے اس کتاب کو تالیف کیا ہے اور مجموعی طور پر ان کا کام کافی ٹھوس ہے۔ البتہ چند مقامات پر ان کے احادیث کے انتخاب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور نظر آتا ہے کہ وہ احادیث اور روایات بیشک مکی اصحاب سے مروی ہوں مگر وہ سیرت مقدسہ کے مدنی عہد کے متعلق ہیں۔ مصنفہ نے احادیث کے سلسلے میں سب سے زیادہ استفادہ مسند احمد سے کیا ہے۔ اس بارے میں جو کام اہل علم کر سکتے ہیں وہ احادیث کی استناد پر تحقیق ہے۔ کیونکہ مسند احمد میں کئی روایات ایسی ہیں جن پر محدثین کی جرح موجود ہے اور کتب احادیث میں بھی یہ اولین درجے کی کتاب نہیں ہے۔ البتہ اس میں ایک بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ احوال سیرت میں سیرت نگاروں کا اسلوب محدثین سے مختلف ہے۔ محدثین احکامات کے حوالے احادیث کو قبول کرنے میں کافی محتاط کرتے ہیں جبکہ فضائل میں وہ اس قدر سختی نہیں کرتے، سیرت میں کئی باتیں احوال اور فضائل سے متعلق ہوتی ہیں اس لیے سیرت نگاروں کے ہاں وسعت پائی جاتی ہے۔ مصنفہ کا بھی یہ ہی طریقہ نظر آتا ہے۔
مصنفہ داد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے سیرت مقدسہ کا ایک نئی جہت سے مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس کام پر مزید اہل علم اپنی تحقیق کریں تو یقیناً اس سلسلے میں مزید عمدہ کام سامنے آئے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ اس جہت پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک راہنما کے طور پر سامنے ہو گی۔ اللہ تعالیٰ مصنفہ کو خیر کثیر عطاء فرمائے اور ساتھ ہی نگران ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس صاحب کو بھی اجر سے نوازے

 

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں