Home » شرائع میں تنوع سے خدا پر اعتراض
ادیان ومذاہب اسلامی فکری روایت کلام

شرائع میں تنوع سے خدا پر اعتراض

ایک دوست نے سوال کیا کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اہل مذہب کی باتوں کے مطابق ایک خدا گوشت کھانے کا حکم دیتا ہے تو دوسرا خدا اس سے منع کرتا ہے وغیرہ وغیرہ (اس نوع کی متعدد مثالیں)، اس کا کیا جواب ہے؟

تبصرہ

یہ ایک سطحی قسم کی دلیل ہے جس کا علم و منطق سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اس دلیل سے ناقد کا مقصود کیا ہے۔ یہاں متعدد امکانات ہیں اور ہم مختصراً ان پر تبصرہ کرتے ہیں:

1۔ اگر ناقد یہ کہنا چاہتا ہے کہ مختلف مذاہب کے بیانات و تعلیمات میں تضاد ہے اور جو بات تضاد کو لازم کرے وہ باطل ہوتی ہے، تو یہ اعتراض ایک مسلمان (یا مثلا عیسائی) پر تب وارد ہوتا ہے جب وہ یہ کہے کہ دنیا کے سب مذاہب کی سب باتیں درست و حق ہیں۔ ظاہر ہے مسلمان ایسا نہیں کہتے، لہذا دیگر اہل مذہب کی باتوں و آراء کو پیش کرنے سے تضاد متحقق نہیں ہوتا۔ نیز یہ بات کہ کسی ایک مذہبی کتاب میں کوئی ایسا حکم موجود ہے جو بعد میں نازل ہونے والی کتاب میں موجود نہیں یا بالعکس تو اس سے ہمارے مقدمے پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نسخ کو ممکن و بامعنی سمجھتے ہیں۔

2۔ اگر ناقد یہ کہنا چاہتا ہے کہ مذہب میں وحی کی بنیاد پر معاملات کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور مختلف مذاہب کے مواقف مختلف فیہ ہیں لہذا وحی کی بنیاد پر معاملات کے فیصلے نہ کرنے چاہئے، تو یہ اعتراض مذہب پر تب وارد ہوتا ہے جب وحی کے سوا حس و عقل کی بنیاد پر وضع کردہ متعدد فلسفوں، مختلف ازمز اور علوم میں کوئی اختلاف رونما نہ ہوتا ہو جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فلسفی اپنی الگ بولی بولتا ہے اور مختلف ازمز کے ماننے والے ایک دوسرے سے جنگ و جدل میں مبتلا رہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہر علم کے اندر ماہرین کے مختلف فکری گروہ ہوتے ہیں جن کے آپسی اختلافات ہوتے ہیں جو انفرادی زندگی اور اجتماعی پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پس اس اعتبار سے وحی کی ایسی کوئی تخصیص نہیں کہ اس اعتراض کی بنا پر صرف وحی کو چھوڑ دیا جائے۔

3۔ اگر ناقد ان مثالوں کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہے کہ مختلف مذاہب کے مابین حق و باطل طے کرنے کا کوئی پیمانہ ہی موجود نہیں، تو ہم کہتے ہیں یہ سوفسطائیت ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے کتاب “نھایۃ العقول” میں سوفسطائیوں کے دلائل پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ سوفسطائیوں کا ایک طریقہ استدلال یہ تھا کہ وہ ایک گروہ کے نزدیک عقلاً قطعی سمجھے جانے والے موقف کے خلاف مخالف گروہ کی دلیل و نقد اور پھر دوسرے کے موقف کے خلاف پہلے گروہ کی دلیل و نقد لاکر کہتے تھے کہ دیکھو اس جنجال پرے میں سب غلط ہیں اور معلوم ہوا کہ صحیح و غلط کا فیصلہ (یعنی علم) ناممکن ہے۔ اگر کوئی شخص مثلا مارکسسٹ موقف کے خلاف لبرل مفکرین کے اور لبرل موقف کے خلاف مارکسسٹوں کے مواقف (جو اس حد تک متضاد ہوتے ہیں کہ ہر ایک کے نزدیک انسان کی فطرت تک کا تصور مختلف ہے) درج کرکے دونوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کیا یہ کوئی علمی ایکسرسائز ہے؟ چنانچہ آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ اس بات کے قائل ہیں یا نہیں کہ بعض امور کی بنا پر مواقف کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ان میں ترجیح قائم کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو یہ سوفسطائیت ہے اور اس کے بعد آپ کو کوئی حق نہیں کہ ایک فلسفے و نظریہ حیات کو دوسرے سے ممتاز بتائیں اور ان میں حق و ترجیح کا پیمانہ مقرر کرتے پھریں۔ اور اگر جواب اثبات میں ہے تو اہل مذہب بھی یہی کہتے ہیں کہ بعض حقائق و تعلیمات قطعی طور پر ایسی ہیں جو اسلام کو مثلاً عیسائیت سے الگ کرتی ہیں اوربعض نتائج ایسے ہیں جو نصوص سے قطعاً اخذ نہیں کئے جاسکتے نیز بعض مسائل میں بعض آراء کو بعض دیگر پر ترجیح دینا ممکن ہے۔ اگر کوئی کہے کہ “میں ترجیح نہیں دے پایا” تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ کسی کے لئے بھی ترجیح دینا ممکن نہیں۔

4۔ اگر ناقد یہ کہے کہ فلسفے و عقلی علوم میں تو نئی دریافتوں و تشریحات کا امکان ممکن رہتا ہے جبکہ مذہب ہر معاملے میں ابدی و قطعی سچائی کی بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس نقد میں اہل اسلام کے مقدمے کو غلط پیش کیا گیا ہے۔ مسلمان متکلمین و اصولیین نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ نص میں مذکور ہر ہر بات بایں معنی قطعی ہے کہ دوسرا احتمال ناممکن ہوجائے، اسی بنا پر متعدد فقہی گروہوں کو جائز تشریحات کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے کلام و اصول کی کتب سے لسانیات کی بحثوں کا مطالعہ نہ کیا ہو وہی ایسی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ بعض حقائق کے بارے میں یقیناً ہمارا یہ دعوی ہے کہ وہ ابدی ہیں۔ یہی معاملہ فلسفہ و عقلی علوم میں بھی ہے کہ فلسفیوں کے مابین جتنے بھی عقلی اختلافات ہوں لیکن اس کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کر لیا گیا کہ مثلاً استخراجی منطق میں قضایا سے نتائج اخذ کرنے کے اصول بھی غلط و غیر ثابت شدہ ہیں۔ اسی طرح مارکسسٹس حضرات بھلے سے جتنے بھی آپسی اختلاف رکھتے ہوں، سب کے نزدیک بعض مقدمات ایسے ہیں کہ ان کے انکار کے بعد مارکسزم کا انکار ہوجائے گا۔ گویا ایک مارکسسٹ کے نزدیک وہ اصول و مقدمات ابدی و قطعی حقائق ہیں اگرچہ روس و چین میں انہیں برتنے کا طریقہ مختلف ہو۔ اگر کسی کا یہ دعوی ہے کہ مذہب جن ابدی حقائق کہ مثلاً اس عالم کا ایک خالق ہے جو بااختیار ہستی ہے اور اس بات پر قادر ہے کی کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر انسانوں کو احکام کا مکلف بنادے اور اس کے دعوے کی سچائی پہچاننے کی دلیل بھی مقرر کردے اور پھر فرمانبرداروں و نافرمانوں کو انعام و عذاب دے نیز محمدﷺ پر انبیاء کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے اور پھر رہتی دنیا تک کے لئے خدا انسانوں کو اسی وحی کا مکلف ٹھرائے وغیرہ یہ سب باطل ثابت ہوگئے ہیں وہ اپنی دلیل پیش کرے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں