ابو الحسین آزاد
تحفظِ ناموسِ صحابہ بِل پر شورش کی جو لہر اٹھی تھی وہ کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی تھمنے میں نہیں آرہی۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ شیعہ حلقوں کی طرف سے اتنے سخت اجتماعی مظاہرے ہوئے ہیں اور ایسا شدت پسندانہ موقف اختیار کیا گیا ہے۔حالیہ مظاہروں میں بعض شیعہ علماء کے بیانات میں افسوس ناک حد تک تلخ کلامی اور تردیدی رویہ دیکھنے کو ملا ہے۔غالبا اِس بِل کو پیش کرنے کا مقصد حاصل ہو چکا ہے۔ریاست کو ”لڑاؤ اور حکومت کرو “والا ماحول درکار تھا سو وہ اب مکمل طور پر میسر ہے۔
اِس بِل سے پہلے ریاست کے سب بڑے صوبے کی اسمبلی 2020ء میں ”تحفظِ بنیادِ اسلام“ ایکٹ کے عنوان سے ایک بِل پاس کر چکی ہے جس میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ نے فلاں فلاں شخصیت کے نام کے ساتھ علیہ السلام اور فلاں فلاں کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ اور خلیفۂ راشد لازمی طور پر لکھنا ہوگا۔یہ سابقے اور لاحقے جو فرض، واجب اور سنت کی کسی کیٹگری میں نہیں آتے اور مسلمانوں کی ہزاروں سالہ علمی تراث میں اِن کا ایسا التزام کہیں بھی نہیں کیا گیا بلکہ ایک اختیاری اور مستحب عمل کے طور پر اہلِ سنت کے ہاں رائج رہے ہیں۔ انھیں یہ قانونی وجوب دے کر اور شیعہ اور سنی سب کو یکساں طور پر اِنھیں اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر کے ریاست نے اُس وقت ہی پیغام دے دیا تھا کہ اُس کی ترجیحات کیا ہیں، وہ اقلیتی فرقوں کے متعلق کیا موقف رکھتی ہے اور اُس کی قانون سازی کرنے والے کس قدر ذمہ دار اور باشعور لوگ ہیں۔ جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کردوں کہ اِس قدر اہم اور دقیق قانون کی پروف ریڈنگ اتنے اہتمام سے کی گئی تھی کہ ازواجِ مطہرات کے آگے ”رضی اللہ عنہم“ لکھا ہوا تھا۔
جو ریاست ایک مکتبۂ فکر کے اختیار کردہ مستحب تعظیمی القابات کو تمام فرقوں پر لاگو کرنے پہ مصر ہو، یہ جانتے ہوئے کہ ایک بڑا اقلیتی مسلک اِس معاملے میں بنیادی اختلاف رکھتا ہے، اور ریاست کے بڑے بڑے علماء اُس بِل کی تائید میں بیانات دے رہے ہوں آپ کی اُس ریاست سے کیا توقعات ہیں؟
حسبِ توقع اب کی بار بھی ریاست نے ایسا ہی کیا۔ پڈم حکومت نے جاتے جاتےپچاس دستخط فی گھنٹہ کی رفتار سے بِل پاس کیے جن میں ایک بِل ”تحفظ ِ ناموسِ صحابہ و اہلِ بیت“ بھی تھا(جو سینیٹ سے پہلے قومی اسمبلی میں 15 ارکان کی موجودگی میں پاس ہو چکا تھا)۔ جس کے ذریعے گستاخی کرنے والے کی سزاکو تین سال سے بڑھا کر دس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید تک لے جایا گیا۔
توہین کا یہ مبہم لفظ جو سپاہِ صحابہ اور تحریکِ لبیک کے بیانیوں کے زیرِ اثر اب مزید بھی مبہم ہو چکا ہے اُس کے متعلق ہونے والی کوئی بھی قانون سازی طویل مباحثے، سوچ بچار اور تمام قومی عناصر کو اعتماد میں لیے بغیر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ مزید ممتاز قادری پیدا کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں۔آصف جلالی نے میراث یا فدک کے مسئلے میں سیدہ کے موقف کو غلطی سے تعبیر کیا تھا، جس پر اہلِ تشیع نے اُن کے خلاف توہینِ اہلِ بیت کا مقدمہ درج کروایا کہ اِس نے سیدہ کے معصوم ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ توہین ہے، مفتی طارق مسعود صاحب کے بیان سے شیعہ حلقوں میں جو غلط فہمی پھیلی اُس سے بھی سب واقف ہیں۔ اِس قانون کی رو سے یہ دونوں حضرات عمر قید کے مستحق ہو سکتے تھے۔
ریاست کو قانون سازی کے عمل میں کالعدم تنظیموں اور ٹائرسوزوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہو نا چاہیے بلکہ حکمت اور دانش مندی سے کام لینا چاہیے۔ جب ہم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں تو یہ افغانستان، ایران اور سعودیہ کی طرح بالترتیب دیوبندی، شیعہ اور وہابی اسلام مراد نہیں ہوتا۔ پاکستان بحیثیت ایک اسلامی ریاست اُن تمام فرقوں کی دینی تعبیر و تشریح کو درست ماننے کی پابند ہے جنھیں اِس کے آئین نے مسلمان کہا ہے۔مسئلہ میرے اور آپ کے جذبات یا عقیدے کا نہیں بلکہ ایک قانونی اصول کا ہے۔ پاکستان میں شیعہ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ہم جانتے ہیں کہ اہلِ سنت کے مقدسات کے متعلق وہ یکسر مختلف موقف رکھتے ہیں۔ امن و امان کے قیام کے لیے انتظامی اعتبار سے وہ اِس بات کے پابند ہیں کہ اپنی تحریر و تقریر اہلِ سنت کے مقدسات کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہیں جو اضطراب اور تصادم کا باعث بنے۔ لیکن وہ دین کی اس تعبیر کے پابند نہیں ہو سکتے جو اہلِ سنت نے اختیار کی ہے۔ امن و امان کے انتظام میں خلل ڈالنے پر ایک محدود مدت کی سزا بالکل مناسب ہے اور اگر انصاف کا ترازو وینٹی لیٹر پر نہیں ہے تو تھوڑی سزا بھی جرم کی روک تھام کے لیے کافی ہو جاتی ہے۔ انتظامی نوعیت کے جرائم میں سزا میں اضافہ تب کیا جاتا ہے جب سابقہ سزا جرم کے سدباب میں ناکام ہو۔ کیا واقعی کوئی شخص محض سب وشتم کےآلودہ شوق میں تین سال جیل کی کوٹھڑی میں گزارنے کی حماقت کر سکتا ہے؟
کالعدم اور تشدد پسند تنظیمیں عوامی سطح پر لوگوں کے دلوں میں دوسرے فرقوں کی نفرت ابھارتی ہیں۔ یہ لوگوں کو بتاتی ہیں کہ جس ریڑھی والے نے محرم میں کالے کپڑے پہن رکھے ہیں اُس سے ٹماٹر لینا حرام ہے۔ جس گاڑی پر یاعلی لکھا ہوتا ہے اُس میں سوار ہونا غیرتِ دینی کے منافی ہے۔ جس گھر پر علَم لگا ہو اُس کا سماجی بائیکاٹ واجب ہے۔ اگر علاقے کا کوئی غریب اور ”کمی“ شخص محرم کے جلوس میں شریک ہو جائے تو یہ تنظیمیں اشرافیہ کے ذریعے اُس پر عرصۂ حیات تنگ کردیتی ہیں۔ یہ مقدسات کے دائرے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھاتی ہیں، اُن کے گرد سخت سے سخت قانون کی فصیلیں قائم کرتی ہیں۔یہ تعظیمی اور دعائیہ القابات کو ”بنیادِ اسلام“ باور کراتی ہیں۔یہ وہ فضا تشکیل دیتی ہیں جس میں طبری شیعہ قرار پاتے ہیں، صاحب مستدرک رافضی ٹھہرتے ہیں،مولانا اسماعیل ریحان جیسا جلیل القدر مؤرخ کراچی کے مناظرِ اسلام کی تھوک کا مستحق ٹھہرتا ہے اور ”تاریخِ امتِ مسلمہ“ گستاخانہ کتاب ٹھہرتی ہے۔
یہ جماعتیں مخصوص فرقوں کی کتابوں کو لہرا لہرا کر اُن کے اقتباسات عوام کو سناتی ہیں کہ دیکھو آٹھ صدیاں پہلے ایران کے فلاں مصنف نے اپنی فلاں کتاب میں یہ جملہ لکھا ہے لہذا کراچی میں جس کے ہاتھ پہ امامِ ضامن بندھا دیکھو جان لو یہ کائنات کا بدترین کا،فر ہے۔یہ جماعتیں ردّعمل میں جنم لیتی ہیں اورپورے مذہبی بیانیے پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ یہ لاشعوری اور شعوری انداز میں استعمال ہوتی ہیں، ان کے اسٹیجوں پر سے ”حافظ جی، حافظ جی“ کے ترانے گونجتے ہیں اور پھر کچھ ہی وقت میں یہ ہیگل کے قانون کے موجب اینٹی تھیسس سے تھیسس بن جاتی ہیں اور ان سے ”لبیک یا حسین“ کے نعرے کے ساتھ ”سپاہِ محمد“ کا اینٹی تھیسس برآمد (یا درآمد) ہوتا ہے۔جو شیعہ حلقوں میں وہی کچھ فرائض انجام دیتا ہے جو سنی حلقوں میں ان جماعتوں نے انجام دیے ہوتے ہیں الغرض:
یوں ہی چلتی رہتی ہے تکرار ان میں
ایک ریاست جو اپنے شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے سے ناکام ہو چکی ہے۔ جہاں بجلی کے بل دیکھ کر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، جہاں کا نوجوان فرار کے لیے راہیں تلاش کر رہا ہے۔ جہاں انسان کی ناموس،حرمت اور تقدس کو ہر وقت خطرہ ہے۔ جو شدید مذہبی ہو کر بھی بے حد بد انتظام، بے سمت اور اخلاقی بدحالی کا شکار ہے۔ آپ کبھی اُس ریاست کے حقیقی روگ کا سراغ لگانے کی کوشش کریں۔ یقیناًکھوج کی ایک لکیر آپ کو ان کالعدم تنظیموں تک بھی لے جائے گی جن کے ذمے یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ ”کمپنی کی حکومت“ کو قائم رکھنے کے لیے عوامی شعور اور ریاستی بیانیے اور یرغمال بنا کر رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالحسین آزاد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔آج کل مختلف عربی کتب کے تراجم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے