Home » نظمِ قرآن سے متعلق فراہی مکتب کے بنیادی استدلال کی وضاحت
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث شخصیات وافکار کلام

نظمِ قرآن سے متعلق فراہی مکتب کے بنیادی استدلال کی وضاحت

خزیمہ ظاہری

1 : یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ نظمِ قرآن کی اصطلاح جن معانی اور مفاہیم کے لئے مستعمل تھی.. وہ مفہوم محدود بھی تھا اور قرآن فہمی کی بنیادوں سے دوری پر واقع تھا.. جس وجہ سے مفسرین کے ہاں اسکی حیثیت بنیاد کی نہیں تھی.

2 : دوسری جانب امام فراہی نے نظمِ قرآن سے مفہوم ہی وہ مراد لیا ہے جسکا فہمِ قرآن سے گہرا تعلق ہے.. اس مفہوم کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ “سب سے پہلے قرآن مجید کے بنیادی موضوعات ہیں.. اسکے بعد قرآن کے سات بڑے حصوں یعنی سات منازل کے بنیادی موضوعات ہیں.. اسکے بعد سورتوں کے دو دو جوڑے ہیں جنکے بنیادی موضوعات مشترک ہیں اور آخر میں تمام آیات ان سورتوں کے بنیادی اہداف سے ملی ہوئی ہیں.. یوں نیچے سے اوپر تک آیات سورتوں کے ساتھ،سورتیں قرآن کی سات منزلوں کے ساتھ اور ساتوں منازل پورے قرآن کے بنیادی موضوعات کے ساتھ مربوط ہیں.. اسی طرح سات میں سے ہر منزل میں پائی جانے والی سورتوں کی موضوع کے لحاظ سے خاص ترتيب یوں ہے کہ ہر منزل مکی سورتوں سے شروع ہو کر آگے بڑھتی ہے اور مدنی سورتوں پر اس منزل / حصے کا اختتام ہوتا ہے “.

3 : فراہی مکتب کے ہاں اس تمام ترتیب اور سورتوں کے دو دو جوڑوں میں تقسیم ہونے کی بنیاد سورہ حجر کی آیت نمبر 87 ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ :
” و لقد آتيناك سبعا من المثانى و القرآن العظيم “.
یعنی ہم نے آپ کو دو دو کے جوڑوں پر مشتمل سات حصے عنایت کئے جسکا نام قرآنِ عظیم ہے.

اس آیت سے استدلال کی تفصیلی وضاحت یہ ہے کہ :

5 : مثانی در اصل مثنیٰ کی جمع ہے جسکا مطلب وہ چیز ہے جو دو دو کر کے ہو.. یعنی وہ دو دو کے جوڑوں پر مشتمل ہو.. قرآنِ مجید میں مثنیٰ کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے.. چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى و ثلاث و ربٰع. (سورہ نساء،آیت 3).
یعنی بوقتِ مناسبت دو دو،تین تین یا چار چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو.
اسی طرح فرمایا کہ :
الحمد للّٰه فاطر السموات والارض جاعل الملائكة رسلا اولى أجنحة مثنى و ثلاث و ربٰع. (سورہ فاطر،آیت 1).
تمام تعریفیں آسمان و زمین کے خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جس نے دو دو،تین تین اور چار چار پَروں والے فرشتے پیدا کئے ہیں.

6 : مثانی کا لفظ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر بھی مستعمل ہے جس سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ مثانی سورہ فاتحہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پورے قرآن پر اسکا اطلاق ہے اور اس سے سورتوں کا دو دو کے جوڑے میں منقسم ہونا واضح ہوتا ہے..
آیت یہ ہے کہ :
الله نزل احسن الحديث كتابا متشابها مثانى.
(سورہ زمر،آیت 23).
یعنی اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے جو ایسی کتاب پر مبنی ہے جسکے اجزاء ہم آہنگ ہیں اور وہ جوڑوں میں منقسم ہے.
اس آیت میں مثانی کا اطلاق پورے قرآن پر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ سبعِ مثانی سورہ فاتحہ کے ساتھ خاص نہیں ہے.

7 : صحیح بخاری کی حدیث میں سبعِ مثانی سے مراد سورہ فاتحہ بتائی گئی ہے.. یہ حدیث اس استدلال کے منافی نہیں ہے کیونکہ سورہ فاتحہ میں پورے قرآن کا خلاصہ درج ہے.. لہذا قرآن کے اس جزء پر پورے قرآن کا اسی طرح اطلاق کیا گیا ہے جیسے سورہ فاتحہ پر “قرآنِ عظیم” کا اطلاق بھی اسی حدیث میں وارد ہے.

8 : سلف کی تفسير کے لئے حافظ ابن جریر طبری رحمه الله کی تفسیر دیکھیں تو اس میں بھی سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بیان ہوا ہے کہ “سبعِ مثانی” سے مراد پورا قرآن ہے.. لہذا صحیح بخاری کی ذکر کردہ حدیث کے ساتھ ساتھ سلف کی تفسير بھی “سبعِ مثانی” سے پورا قرآن مراد لینے کو ممنوع قرار نہیں دیتی بلکہ اسکی تائید کرتی ہے.

9 : سبع سے قرآن کی سات منازل مراد لینا بھی کسی صورت ممنوع نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید کی سات حصوں میں تقسیم توقیفی امر ہے.. چنانچہ مسند احمد کی ایک ثابت شدہ روایت کے مطابق سلف صالحین کا کہنا ہے کہ “ہم قرآن مجید کو رسول اللہ کے زمانے سے ہی 7 منزلوں میں تقسیم کرتے آئے ہیں”.

10 : قرآن مجید کو جب ہم اس نظریے سے مطالعہ کرتے ہیں تو از خود سورتوں کے موضوعات و مضامین بھی اسکی تائید کرتے ہیں کہ سورتیں اپنے موضوع کے لحاظ سے جوڑا جوڑا ہی ہیں.. اسکی واضح ترین مثال یہ ہے کہ آخری دو سورتیں معوذتین کے نام سے معروف ہیں کیونکہ دونوں کا بنیادی مضمون تعوّذ ہے.. اسی طرح سورہ توبہ اور انفال کی مثال نہایت واضح ہے کہ دونوں جنگ اور اسکے احکام سے متعلق ہیں اور دونوں کا یہی بنیادی مضمون ہے.
یہ دو مثالیں عام طور پر سب کے سامنے ہیں.. بالکل اسی نہج پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام سورتیں ہی اس طرح مربوط ہیں کہ ایک سورت اپنے جوڑے کی دوسری سورت کے مضمون کو مکمل کرتی ہے.. (چند سورتیں البتہ اس سے مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں).

11 : سبع مثانی کی آیت سے بظاہر یہ ایک نیا استدلال ہے مگر قرآن کی موضوعات کے لحاظ سے کی گئی یہ تقسیم گویا قرآن مجید کی ایک اندرونی شہادت ہے کہ یہ استدلال نا صرف اپنی جگہ درست ہے بلکہ اس آیت سے متعلق صحیح بخاری کی حدیث اور سلف کی تفسیر بھی اس استدلال کے مخالف نہیں جاتی بلکہ انکی اس استدلال سے تطبیق ممکن ہے.

12 : اس تفصیل سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ امام فراھی کا تصورِ نظم باہر سے پیدا کی گئی چیز نہیں بلکہ قرآن مجید کی اندرونی شہادتوں اور قرائن سے مستنبط کیا گیا تصور ہے جسے باہر سے لا کر مسلط کی گئی چیز قرار دینا از خود محل نظر ہے.

13 : امام فراہی نے اس نظریے کی اساس اور تفصیل اپنی کتاب “دلائل النظام” میں بیان کر دی ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی نے اس طرز پر پورے قرآن کی تفسير کر کے اسکی عملی تطبیق بھی پیش کر دی ہے.. جہاں تک غامدی صاحب کی بات ہے تو وہ نظم کے اس تصور میں انہی دو بزرگوں کے مرہونِ منت ہیں..
اس تحریر میں ذکر کردہ استدلال کی تفصیل امام فراہی کی ذکر کردہ کتاب اور مولانا اصلاحی کی تفسیر کے مقدمے اور تدبرِ قرآن میں سبعِ مثانی کی تفسیر سے لی گئی ہے.. البتہ میں نے اس تحریر میں کچھ چیزوں کی وضاحت کے لئے بعض مثالوں کا اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں