Home » قرآن اور نظریہ ارتقاء: ایک جائزہ
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث سائنس کلام

قرآن اور نظریہ ارتقاء: ایک جائزہ

محمد رضوان سلیم سندھو

قرآن خدا کی آخری کتاب ھے جو آج سے تقریبا پندرہ سو سال پہلے خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمّد (صلى الله عليه وآله وسلم) پر مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تئیس سال کی مدت میں نازل هوئ . قرآن حکیم کے اولین مخاطب وہ لوگ تھے جو جزیرہ نما عرب ، خاص کر مکّہ اور مدینہ کے رہائشی جو مشرکین ، نصاریٰ اور یہود پر مشتمل تھے ، میں رہتے تھے . قرآن حکیم عربی زبان میں نازل ہوا اور تمام زمانوں کے لیے خدا کی آخری کتاب ھے . قرآن کا بنیادی موضوع معرفت خدا وندی اور ہدایت انسانی ھے . قرآن کی چاہت یہ ھے کہ بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچانے اور اسکی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے تاکہ آخرت کے بعد آنے والی ہمیشہ کی زندگی میں کامیاب ہو سکے . اپنے بنیادی موضوع پر رہتے ھوے قرآن انفس و آفاق میں موجود خدا کی نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ھے ، اور ایسا کرنے والوں کی تعریف و توصیف کرتا ھے . اپنے مخاطبین کو قائل کرنے کے لیے قرآن نے بہت سے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ انفس و آفاق میں موجود اپنی نشانیوں اور حقائق کا ذکر بھی کیا ھے . اسی سلسلے میں قرآن نے کائنات ، آسمان ، زمین اور حیات کی ابتداء ، تخلیق اور نشوونما کا تذکرہ مختلف مقامات پر کیا ھے . ایک تحقیق کے مطابق ستر سے زیادہ مقامات پر قرآن نے زندگی اور انسان کی تخلیق کا ذکر کیا ھے .

زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ سے ہی اھل علم اور عوام کی توجہ کا مرکز رہا ھے. یہ ایسا سوال ھے جس پر انھوں نے بھی رائے دی ھے جو مذهب کے ماننے والے ھیں اور وہ بھی جو مذھب کو نہیں مانتے . اس سوال کے جواب میں دی جانے والی آراء کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ھے ، نظریہ پیدائش اور نظریہ ارتقاء . نظریہ پیدائش کے حاملین یہ مانتے اور بیان کرتے ھیں کہ تمام انواع آج جیسے موجود ھیں ایسے ہی پیدا کی گئیں . مثال کے طور پر مرغی کی جد امجد مرغی ہی تھی ، اور اسی طرح تمام جانداروں بشمول انسان ، نباتات ، حیوانات سب ایسے ہی پیدا کیے گئے جیسے وہ آج موجود ھیں .

اسکے مقابلے میں حاملین نظریہ ارتقاء کا خیال ھے کہ زندگی ارتقاء پذیر ہوئی ھے اور تمام جانداروں کا آغاز ایک سادہ جرثومے سے ہوا جو پانی میں پیدا ہوا . وہ سادہ جرثومہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوے پچیدہ سے پچیدہ تر ہوتا گیا . انکے خیال میں زندگی کا آغاز ایک پیڑ کی طرح ایک بیج سے ہوا جو مختلف حالات کے زیر اثر بڑھتا گیا اور شاخیں نکالتا گیا، اور پھر ہر شاخ سے مزید شاخیں نکلتی گئیں . انکے مطابق ارتقاء کا یہ عمل لاکھوں سال میں مکمل ہوا اور اس دوران کرہ عرض پر کئی ادوار گزرے . ارتقاء کا عمل جس اصول کے تحت بروکار آیا اسے قدرتی انتخاب کا اصول کہتے ھیں . اس اصول کے مطابق زندگی ایک کشمکش سے گزرتی رہی ، اپنے ماحول سے مقابلہ کرنے اور مطابقت پیدا کرنے کے لیے اسے مختلف خواص پیدا کرنے پڑے ، ان میں سے وہ خواص جو فائدہ مند تھے باقی رھے اور اگلی نسلوں کو منتقل ھوتے رھے . اس کشمکش کے دوران وہ تمام انواع فنا ہو گئیں جو کسی لحاظ سے بھی نامکمل تھیں اور صرف وہ باقی رھیں جو تکمیل تک پہنچیں . ایک دلچسب پہلو یہ بھی ھے کہ تمام اعضاء بھی ارتقاء پذیر ھوے ھیں . مثال کے طور پر آنکھ ، جو اب مختلف انواع میں مختلف خوبیوں اور افعال کی حامل ھے ، سادہ افعال سے پچیدہ افعال کی انجام دہی تک پہنچنے تک ارتقاء سے گزری ھے . دوسرے اعضاء جو انسانوں ، جانوروں اور پودوں میں موجود ہیں ،بھی ارتقاء کی عطا ہیں.

ارتقاء کے نتیجہ میں جانداروں کے مختلف گروہ یا انواع وجود میں آئی ہیں . جانوروں میں ایسے بھی ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں ، کچھ چار ٹانگوں پر چلتے ہیں اور کچھ دو ٹانگوں پر . اسی طرح پرندے بھی ہیں . کچھ جانور صرف پانی میں رہتے ہیں ، کچھ صرف خشکی پر اور کچھ ایسے ہیں جو دونوں جگہوں پر زندگی گزارتے ہیں . پرندوں میں ایسے بھی ہیں جو اڑ نہیں سکتے مگر خشکی کے ساتھ پانی میں تیر سکتے ہیں . اگر آپ نباتات کی دنیا کو دیکھیں تو وہاں بھی بیشمار انواع ہیں . کچھ صرف پانی کے اندر ہوتی ہیں اور کچھ خشکی پر ، کچھ بلندی کی طرف بڑھتی ہیں اور کچھ سطح زمین پر . نظریہ ارتقاء کے مطابق تمام انواع اپنی ابتداء اور کئی دوسرے حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں ، اور مختلف انواع کے مشترکہ جد امجد ہیں . زندگی ابتدائی طور پر پانی اور زمین کے اندر پیدا ہوئی اور وہیں ارتقاء پذیر ہوئی . اس لحاظ سے زمیں نے وہی کردار ادا کیا جو اب ماں ادا کرتی ھے .

گو کہ اس بات کے ثبوت ملتے ہیں کے ارتقاء کا نظریہ صدیوں پرانا ھے مگر آج کی دنیا میں سب سے بہتر شکل میں اسے چارلس ڈارون نے اپنی شہرہ آفاق کتابOrigin of Species by Charles Darwin, 1859 میں پیش کیا . ایسا نہیں ھے کہ کتاب خامیوں سے پاک ھے یا اس پر اعتراضات نہیں کیے گئے . کتاب کو تمام تر خامیوں کے باوجود اپنے موضوع پر بہترین انسانی کاوش کہا جا سکتا ھے .

اس مضمون کا مرکزی موضوع یہ دیکھنا ھے کہ آیا قرآن اور نظریہ ارتقاء میں کوئی مطابقت ھے یا نہیں . سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ قرآن زندگی کی ابتداء ور تخلیق کیا بیان فرماتا ھے . ذیل میں آیات قرآنی کی بنیاد پر ھم یہ دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر قرآن کا خلاصہ کیا ھے :

١. زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی.
((یہ نشانیاں مانگتے ہیں)۔ کیا اِن منکروں نے بارہا دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمین، دونوں بند ہیں، پھر ہم نے اُن کو کھول دیا اور ہم نے ہر زندہ چیز کو آسمان کے پانی ہی سے پیدا کیا ہے؟ کیا وہ پھر بھی ایمان نہ لائیں گے؟٢١/٣٠)

٢. انسان کو زمیں کے پیٹ سے پیدا کیا گیا.
(اور دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ ہی نے خاص اہتمام کے ساتھ تمھیں زمین سے اگایا؟٧١/١٧)
((تم اگر سمجھو تو حقیقت یہ ہے کہ) ہم نے اِسی زمین سے تم کو پیدا کیا ہے، ہم اِسی میں تم کو لوٹائیں گے اور اِسی سے تم کو دوبارہ نکال کھڑا کریں گے۔٢٠/٥٥)

٣. انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا.
((وہی کہ) جس نے جو چیز بھی بنائی ہے، خوب ہی بنائی ہے۔ انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے مٹی سے کیا۔٣٢/٧)
(وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر (تمھارے لیے) ایک مدت ٹھیرا دی اور ایک دوسری مدت بھی ہے جو اُس کے ہاں مقرر ہے۔تعجب ہے کہ اِس کے بعد بھی کج بحثیاں کرتے ہو!٦/١)
(اب اِن سے پوچھو کہ اِنھیں بنانا زیادہ مشکل ہے یا اُن کو جنھیں ہم (اِن سے پہلے) بنا چکے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اِنھیں تو ہم نے چپکتی مٹی سے پیدا کر دیا تھا۔٣٧/١١)

٤. انسان پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ھے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہی تھا.
(کیا انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟ ٧٦/١)

٥. ہر چیز ، بشمول زندگی، کی تخلیق ادوار/مدارج میں ہوئی.
(دراں حالیکہ اُس نے (تخلیق کے) کئی مدارج سے گزار کر تمھیں بنایا ہے۔٧١/١٥)

٦. بہت سی انواع مٹا دی گئیں.
(اللہ جو کچھ چاہتا ہے، اُس میں سے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے، باقی رکھتا ہے اور اِس نوشتے کی اصل اُسی کے پاس ہے۔١٣/٣٩)

٧. زندگی کا آغاز نفس واحدہ سے ہوا اور پھر اسکا جوڑا بنایا گیا.
(وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ہے، پھرہر ایک کے لیے ایک جاے قرار ہے اور اُس کے سپرد خاک کیے جانے کی جگہ بھی۔ ہم نے اپنی نشانیاں اُن لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دی ہیں جو سمجھنا چاہیں۔٦/٩٨)
(وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا تاکہ اُس سے تسکین پائے.)٧/٨٩

٩. ہر چیز کے جوڑے بناۓ گۓ ہیں.
(وہی زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اُسی نے تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور چوپایوں کی جنس سے بھی جوڑے بنائے۔ وہ اِس مزرعہ میں تمھاری تخم ریزی کرتا ہے۔ اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔٤٢/١١)
(پاک ہے وہ ذات جس نے سب جوڑے بنائے، اُن چیزوں کے بھی جنھیں زمین اگاتی ہے اور خود اِن لوگوں کے اندر سے بھی اور اُن چیزوں کے بھی جنھیں یہ جانتے نہیں ہیں۔٣٦/٣٦)

١٠. انسانوں کی طرح دوسرے جانداروں کی بھی امتیں ہیں.
((دیکھتے نہیں ہو کہ) زمین پر جتنے جانور اپنے پاؤں سے چلتے ہیں اور فضا میں جتنے پرندے اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں، سب تمھاری ہی طرح امتیں ہیں (اور سمجھانے کی حد تک تو) ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اِس کے بعد (یہی باقی ہے کہ ایک دن) یہ اپنے پروردگار کے حضور میں اکٹھے کر دیے جائیں گے۔٦/٣٨)

١١. جانداروں میں کچھ پیٹ کے بل چلتے ہیں ، کچھ چار ٹانگوں پر ، کچھ دو ٹانگوں پر اور کچھ ہوا میں اڑتے ہیں.
(ہر جان دار کو اللہ ہی نے پانی سے پیدا کیا ہے۔ پھر (تم دیکھتے ہو کہ) اِن میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے تو اِن میں سے کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے اور اِن میں سے کوئی چار پاؤں پر۔ اللہ جو چاہے، پیدا کر دیتا ہے۔ بے شک، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔٢٤/٤٥)

١٢. خدا کے ھاں دن ہزاروں سال کے برابر ہیں.
(آسمان سے زمین تک وہی تمام معاملات کی تدبیر فرماتا ہے، پھر وہ اوپر اُس کی طرف لوٹتے ہیں، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھاری گنتی سے ہزار سال کے برابر ہے۔ ٣٥/٥)
((یہ ہر چیز کو اپنے پیمانوں سے ناپتے اور پھرجلدی مچادیتے ہیں۔ اِنھیں بتا ؤ کہ) فرشتے اور روح الامین (تمھارے حساب سے)پچاس ہزار سال کے برابر ایک دن میں اُس کے حضور چڑھ کر پہنچتے ہیں۔٧٠/٦)

١٣. زندگی مردہ سے نکل سکتی ھے اور مردہ زندگی سے .
(دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے۔ وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے نکال لانے والا ہے۔ یہ ہے اللہ تو کہاں پھرے جاتے ہو؟٦/٩٥)

اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوۓ چند آیات قرآنی کو حوالے کے طور پر پیش کیا گیا ھے حالانکہ قرآن حکیم میں اور بھی بہت سے مقامات پر اسی مفھوم کی آیات موجود ہیں . یہ بات یاد رکھتے ھوے کہ قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے ،اور اس نے اپنے مرکزی موضوع کو سامنے رکھتے ھوے زندگی کے آغاز کا عام طور پر اور تخلیق انسانی کا خاص طور پر ذکر دلائل معرفت خدا وندی کے طور پر کیا ھے ، یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا نظریہ ارتقاء قرآن سے مطابقت رکھتا ھے . ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ڈارون ایک حیاتیاتی سائنسدان تھا اور اسکی کتاب سائنسی نظریات اور شواہد کا بیان ھے . سب سے اہم بات یہ بھی ھے کہ قرآن خالق کا کلام ھے جس میں کوئی خامی نھیں ہو سکتی ، جبکہ کسی بھی دوسری انسانی کوشش کی طرح ڈارون کی کاوش بھی بے خطا نہیں ھے . البتہ اپنے موضوع پر لکھی گئی تفصیلی اور بہترین کتاب ھے .

اوپر دی گئی آیات قرانی کی روشنی میں جب میں نظریہ ارتقاء کا جائزہ لیتا ھوں تو مجھے یہ لگتا ھے کہ یہ نظریہ قرآن حکیم سے مطابقت رکھتا ھے . مجھ قرآن کی آیات ارتقاء کا پتا دیتی ھیں . تخلیق کا آغاز پانی سے ہوا ، ادوار میں ہوا ، زندگی کی ابتداء ایک جان سے ہوئی پھر جوڑے بنے ، انسان کی تخلیق کا آغاز مٹی سے ہوا ، انسان زمین سے اگا ، ایک زمانے تک انسان کوئی قابل ذکر چیز ہی نہیں تھا ، انسانوں کی طرح دوسرے جانداروں کی بھی امتیں ھیں . پھر یہ دیکھیے کہ اب جس طرح ماں کے پیٹ میں بچا جن مراحل سے گزرتا ھے کیا وہ ارتقاء نھیں ھے ؟ ذیل کی آیات قرانی دیکھیں :

“لوگو، اگر تمھیں دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں کچھ شک ہے تو غور کرو کہ ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے، جو پوری بھی ہوتی ہے اور ادھوری بھی۔ اِس لیے کہ تم پر کچھ حقائق واضح کریں (جو تم کو سمجھنے چاہییں)۔ ہم جو چاہتے ہیں، ایک مقرر مدت تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں۔ پھر ایک بچے کی صورت میں تمھیں نکال لاتے ہیں۔ پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔اور تم میں سے کوئی پہلے ہی بلا لیا جاتا ہے اور کوئی (بڑھاپے کی) نکمی عمر کو پہنچایا جاتا ہے کہ وہ بہت کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ بھی نہیں جانتا۔ اِسی طرح زمین کو دیکھتے ہو کہ خشک پڑی ہے۔ پھر جب ہم اُس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر طرح کی خوش منظر چیزیں اگاتی ہے۔” (٢٢/٥)

ڈارون نا تو کوئی مذھبی رہنما تھا اور نا ہی اسکی کتاب مذھب کے موضوع پر لکھی گئی ھے ، وہ ایک سائنسدان تھا اور اسکی نگارش کو ایک سائنسی تخقیق کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے . مجھے لگتا ھے کہ اہل علم اگر قرآن کی روشنی میں نظریہ ارتقاء پر غور کریں تو بہت سے فائدہ مند اسباق حاصل کیے جاسکتے ہیں . ویسے بھی اھل ایمان کو فکر و تدبر کا حکم ھے . قرانی آیات کی روشنی میں جب میں نے نظریہ ارتقاء پر غور کیا تو میں پکار اٹھا کہ میرے خدا کے سوا کوئی بھی اتنا باریک بین اور بڑا منصوبہ ساز نہیں ہوسکتا . یقین جانیے انواع کا ارتقاء ایک ایسا معجزہ ھے جو خدا بزرگ و برتر کے سوا کسی اور کی کاریگری ہو ہی نہیں سکتی.

نوٹ : آیات قرانی کا ترجمہ جاوید احمد غامدی صاحب کی تفسیر قرآن البیان سے لیا گیا ھے ، مزید غور کے لیے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن ، مولانا اصلاحی کی تدبر قرآن اور ڈاکٹر اسرار صاحب کی بیان القرآن کا مطالہ بھی کیا گیا ھے . دلچسب بات ھے کہ ویسے تو مولانا مودودی نے نظریہ ارتقاء پر تنقید کی ھے لیکن ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ارتقاء اور پیدائش دونوں کا امکان موجود ھے . مولانا اصلاحی نے تدبر میں ارتقاء کو تسلیم کیا ھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد رضوان سلیم سندھو صاحب نے مینجمنٹ سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور ورچوئیل یونیورسٹی میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں