ڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ
ايكـ عالم دين نے سوال كيا ہے كه عربى اور اردو ميں اتنى بڑى تعداد ميں كتب تفسير كے ہوتے ہوئے آپ مودودى صاحب كى “تفہيم القرآن” كا حواله كيوں ديتے ہيں؟
جواب:
يه ايكـ مخلص انسان كا سوال ہے، اور ہم اس كى قدر كرتے ہيں، بعيد نہيں كه يه سوال كچه اور لوگوں كے ذہنوں ميں بهى اٹهتا ہو، اس لئے مناسب سمجها جا رہا ہے كه اس كا معقول اور سنجيده جواب دينے كى كوشش كى جائے، جواب تين نقاط پر مشتمل ہے: تمہيد، قرآن كريم كے تئيں علماء كى دو ذمه دارياں، تفہيم القرآن كا امتياز۔
تمہيد:
تمہيد كے طور پر دو باتوں كى طرف توجه مطلوب ہے:
پہلى بات يه ہے كه مجهے مولانا مودودى رحمة الله عليه سے كوئى دشمنى نہيں، نه ان سے كوئى حسد ہے اور نه نفرت، بلكه اس كے بر عكس ميں ان كا احترام كرتا ہوں اور ان كا شكر گزار ہوں، ہر وه عالم جس سے مسلمانوں كے كسى طبقه كو رہنمائى ملے، جو مسلمانوں كو ان كے پروردگار سے قريب كرے، دين كے متعلق ان كے شكوك وشبہات دور كرے مجهے اس سے محبت ہے اور ميں اس كو واجب التعظيم سمجهتا ہوں، اور اس احسان شناسى كو باعث اجر وثواب سمجهتا ہوں، مولانا مودودى سے بر صغير ہند وپاكـ، بنگلاديش، عالم عرب، اور يورپ وامريكه ميں لاكهوں مسلمانوں نے فائده اٹهايا ہے، اور يه سلسله جارى ہے، خاص طور سے تعليميافته طبقه كى ديندارى ميں ان كى تحريروں كا بڑا كردار ہے، عصر حاضر ميں عرب وعجم كے كسى عالم كا اثر اتنا وسيع اور گہرا نہيں رہا، ممكن ہے كه كچه لوگوں كو اتنى كهلى حقيقت دكهائى نه ديتى ہو، الحمد لله مجهے دكهائى ديتى ہے، اور ميں اپنى آنكهيں بند نہيں كر سكتا۔
دوسرى بات يه ہے كه ميں مسلمانوں كے قديم وجديد تمام علماء كا حواله ديتا ہوں، جس سے كوئى بات اخذ كرتا ہوں كوشش كرتا ہوں كه اس كا اعتراف كروں، اور جس سے مسلمانوں كو فائده ہو سكتا ہے اس كى طرف توجه دلاتا ہوں، نه ہر مضمون ميں مولانا مودودى كا ذكر كرتا ہوں اور نه كسى اور عالم كا، بلكه جب كوئى مناسبت ہوتى ہے تو علماء ومفكرين كا حواله آجاتا ہے، اسى طرح مولانا مودودى كى تصنيفات ميں سے جو ميرے نزديكـ مفيد ہيں ان كا ذكر كرتا ہوں، مثلا: تفہيم القرآن، تنقيحات، خطبات، رسالۂ دينيات، سود وغيره، جن كتابوں كے كسى حصه سے مجهے اختلاف ہے، موقع ومناسبت سے اس اختلاف كا ذكر بهى كر ديتا ہوں، ميرے نزديكـ مولانا مودودى دوسرے تمام علماء كى طرح ہيں، حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوى، مولانا رشيد احمد گنگوہى، سر سيد احمد خان، خواجه الطاف حسين حالى، علامه شبلى نعمانى، نواب حبيب الرحمن خان شروانى، علامه عبد الحى حسنى، مولانا حميد الدين فراہى، حكيم الامت اشرف على تهانوى، مولانا ابو الكلام آزاد، علامه سيد سليمان ندوى، مولانا ابو الحسن على ندوى وغيره، ان تمام اہل فكر ودانش سے اتفاق بهى كيا جا سكتا ہے اور اختلاف بهى، ہم ان كى جن باتوں كو صحيح سمجهتے ہيں انہيں سراہتے ہيں، اور جن باتوں كو غلط سمجهتے ہيں ان كے متعلق ہمارى دعا ہے كه الله تعالى ان كى مغفرت فرمائے، اسى طرح ميرا معامله بهى ہے، ہر عالم كو حق حاصل ہے كه مجه سے اختلاف كرے اور ميرى غلطيوں كى نشاندہى كرے، البته مسلمانوں سے نفرت كرنا اور ان كو اذيت پہنچانا جائز نہيں ہے۔
دو ذمه دارياں:
قرآن كريم كے تئيں علماء كى دو ذمه دارياں ہيں:
ايكـ تو اسے اس طرح سمجهنے كى كوشش كريں جس طرح صحابۂ كرام رضي الله عنہم نے سمجها، اس كے لئے قرآن كى زبان كا علم ضرورى ہے، جاہلى اشعار سے واقفيت، اسباب نزول كا علم، تفسير كے متعلق وارد صحيح احاديث وآثار كا علم، يه سارى باتيں فہم كتاب الله كے لوازم ومقدمات ہيں، ان چيزوں كے جاںے كے لئے صحيح بخارى وغيره كى كتب التفسير، تفسير طبرى، تفسير كشاف، تفسير كبير، تفسير ابن كثير وغيره مراجع كى حيثيت ركهتى ہيں، اردو كى اكثر تفسيروں ميں اسى مواد كو كم وبيش دہرانے كى كوشش كى گئى ہے۔
دوسرى ذمه دارى ہے كه اس صحيح مفہوم كو اپنے مخاطبين كى زبان ميں پيش كريں، ان كے زمان ومكان كى رعايت كريں، اور ان كے علمى، فكرى اور ثقافتى پس منظر كو ذہن ميں ركهيں، جو لوگ قديم عربى تفاسير كے اقوال كو اردو ميں منتقل كرتے ہيں وه صرف پہلى ذمه دارى پورى كرتے ہيں، ان كى تفسير ان كے مخاطب كے لئے غير مفيد ہوتى ہے۔
تفہيم القرآن كا امتياز:
قرآن كريم كے مطالب كو اپنے عہد كے مخاطبين كے سامنے كس طرح پيش كيا جائے، بر صغير ميں اس كوشش كى ابتدا شاه ولى الله دہلوى رحمة الله عليه نے كى، پهر ان كے صاحبزادوں نے اسے كسى قدر جارى ركها۔
عصر جديد ميں مولانا حميد الدين فراہى نے مختلف پہلوؤں سے قرآن كريم كى خدمت كى، ان كے اثرات بڑے وسيع اور گہرے تهے، علامه شبلى نعمانى، مولانا ابو الكلام آزاد، علامه سيد سليمان ندوى، مولانا ابو الاعلى مودودى وغيره سب نے كسى نه كسى حد تكـ مولانا فراہى كى خوشه چينى كى ہے، مولانا فراہى كى علمى امانت كو اردو ميں منتقل كرنے كا كام ان كے شاگرد رشيد مولانا امين احسن اصلاحى نے كيا۔
مولانا امين احسن اصلاحى اور مولانا مودودى كى تفسيريں ايك دوسرے سے مختلف ہيں، تاہم ان ميں ايك چيز مشترك ہے، اور ايك چيز مختلف ہے، مشترك بات يه ہے كه ان دونوں نے قرآن كريم كے پيغام كو جوں كا توں پيش كرنے كى كوشش كى، اسے نه نحوى كتاب بنايا، نه اسے فقہى فروعات وجزئيات سے گرانبار كيا، نه اسے علم كلام يا تصوف كى كتاب بنانے كا تكلف كيا، دونوں نے پورى توجه اس بات كى تشريح پر مركوز كى كه قرآن الله تعالى كا ہدايت نامه ہے، وه انسانوں تكـ خدا كا پيغام ہے، اور اس كى يه بنيادى حيثيت كسى قسم كى آميزش كے نتيجه ميں متاثر نہيں ہونى چاہئے۔
دونوں ميں فرق يه ہے كه تدبر قرآن پر عالمانه رنگ كا غلبه ہے، جبكه تفہيم القرآن پر داعيانه رنگ كا غلبه ہے، اسى فرق كا نتيجه ہے كه تفہيم القرآن جديد تعليميافته طبقه كے لئے زياده مفيد ہے، اور تدبر قرآن علماء كے لئے۔
مولانا مودودى نے جس طرح اپنے عہد كو سمجها اور جس طرح اپنے مخاطبين كى رعايت كى وه حيرت انگيز ہے، عربى اور اردو ميں كوئى تفسير نہيں جو تفہيم القرآن كى ہمسرى كا دعوى كرسكے، عربى ميں “في ظلال القرآن” بهى عصر حاضر كى زبان ميں لكهى گئى ہے، مگر سيد قطب شہيد چونكه ايك مايۂ ناز اديب ہيں اس لئے ان كى تفسير پر يه پہلو غالب ہے، اور اس ميں شك نہيں كه قرآن كے معجزانه اسلوب كى توضيح ميں زمخشرى كى كشاف كے بعد سيد قطب كى تفسير كے برابر كوئى تفسير نہيں۔
حاصل يه ہے كه مولانا مودودى كى تفسير عصر حاضر كے پڑهے لكهے انسانوں كے لئے سب سے زياده كامياب تفسير ہے، مولانا مودودى كے بعد علم وفكر كى دنيا ميں بڑى تبديلياں آئى ہيں، اور ايك نئى تفسير جو ہمارے عہد ميں تفہيم القرآن كى جگه لے سكے امت پر قرض ہے۔
آخر ميں دعا ہے كه الله تعالى مولانا مودودى رحمة الله عليه كو بہترين بدله دے، اور جن علماء ومفكرين نے اس دين كى خدمت كى ہے يا كر رہے ہيں سب كى مغفرت فرمائے، سب كے درجات بلند كرے، اور ہميں سب سے استفاده كى توفيق دے، آمين۔
کمنت کیجے