رضوان سلیم سندھو
برسوں پہلے 2002 میں جب میں استاد محترم میاں احمد فرحان صاحب کے دفترمیں داخل ہوا تو انکو کسی کتاب کی ورق گردانی میں مشغول پایا. اس زمانے میں یہ ہماری عادت تھی کہ کلاس کے آغاز سے پہلےآستانےپر حاضری دے کر حکمت کے موتی اکٹھے کیا کرتے تھے. میری آمد پر کہنے لگے پوچھو گے نہیں کے کیا دیکھ رہا ہوں, کہا بتا دیجیے, اور کہنے لگے یہ مولانا آذاد کی کتاب قرآن کا قانون عروج وزوال ہے, ابھی ایک دوست نے بھجوائی ہے. میں بولا یہ تو وہی کانگرسی ملاء ہیں جو ہمیں انگریز کی غلامی سے نکال کر ہندو کی غلامی میں دینا چاہتے تھے, انسے خیر کی امید کیسے ہوسکتی ہے. استاد خاموش رہے, مسکرا کر بولے ابھی تم کچھ نہیں جانتے, تمہیں مطالعہ کی سخت ضرورت ہے. جہالتِ مرکب کے دن تھے اور میں لگا بخث کرنے. میں نے بھی انکو بتا دیا کہ مجھے کتنی مطالعہ پاکستان آتی ہے. استاد تھے بڑے ٹھنڈے مزاج کے, دو کتابیں میری طرف بڑھا دیں, ایک جو وہ دیکھ رہے تھے اور دوسری بھی انہی مولانا کی جسکا نام تھا انسانیت موت کے دروازے پر.
میں ہچکچایا تو کہنے لگے رکھ لو کیونکہ میں تم سے مایوس نہیں ہوں. تاکید کی کہ جب دل چاہے تو پہلی کتاب کا آخری باب پڑھ لینا جو ہے تو سورۃ العصر کی تفسیر مگر تمھیں یہ سمجھ آجائے گی کہ منصوبہ بندی ہوتی کیا چیز ہے.
میں نے کتابیں وصول کرلیں اور نکل بھاگا. کچھ وقت بیت گیا اور ایک روز مجھے منصوبہ بندی پر کچھ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں نے مولانا کی کتاب کھول لی, آخری باب پڑھنے لگا, یقین جانیے ایسے شخص کی تصنیف پڑھنا جسکو میرا دشمن بتایا گیا تھا اور آدب کی دنیا میں وہ میرے لیے اجنبی تھا میں نے دل پر بڑا بوجھ محسوس کیا. پہلے پہل تو اپنا وجود مجھ کو غدار غدار سا لگا, لیکن جیسے جیسے وہ باب پڑھتا گیا مصنف کے علم وفن کا قائل ہوتا گیا. علم کی وسعت, زبان پر گرفت, فقروں کی کاٹ اور اسلوب میں ندرت گھائل کرتی گئی. میں متاثر تو بہت ہوا مگر تعصب کے ہاتھوں ابھی بھی یرغمال تھا.
محرم کے دن تھے اور میں امام عالی مقام کے ساتھ وقت بتانا چاہتا تھا, کتاب انسانیت موت کے دروازے پر کھولی اور شھید کربلا کا ذکر پڑھنے لگا. ایک ہی نشست میں سانحہ کربلا پڑھ لیا, اس موضوع پر بہت پڑھا تھا مگر اتنے اختصاراور جامعیت کے ساتھ پہلی مرتبہ پڑھا . امام چونکہ بقول احمد جاوید صاحب کے مسلم تہذیب کے ہیرو اور واقعہ کربلا ہماری ٹریجڈی ہے, اسلیے اس موضوع پر جس نے بھی لکھا خوب لکھا ہے. کتاب کے باقی حصے بھی پڑھ لیے خاص طور پر سرور عالم صلی الله علیه وسلم کے آخری لمحات. وقت بیت گیا میں رسمی تعلیم اور عشق ومستی سے ابھی فارغ نہیں ہوا تھا کہ فکر معاش میں غرق ہوگیا. یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے عہد کیاتھا کہ اپنا دین خود اپنے مطالعہ سے سمجھوں گا اور میں اہل علم کے مطالعہ میں مصروف تھا. انھی دنوں میں نے جانا کے تاریخ بھی کوئی اعتبار کرنے کی چیز نہیں بلکہ کھوجنے کی چیز ہے. کالج میں پڑھانے کے زمانے میں اساتذہ کی اقامت گاہ کے منتظم ہمارے سعید قریشی صاحب ہوتے تھے, رات گئے اپنے پہلو میں کوکا کولا کی بوتل اور سگریٹ کی ڈبیا رکھے کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوے خود ہی مسکرایا کرتے تھے. ایک روز میں نے پوچھا جناب کیا پڑھ رہے ہیں, کہنے لگے غبار خاطر, مولانا آذاد کی تصنیف ہے جسے اردو کی سب سے بڑی کتاب بھی کہا جاتا ہے. میں لاہور آگیا, کتاب خرید لی اور پڑھنے لگا, سردیوں کے آخری دن تھے اور کتاب مجھے چھوڑتی نہیں تھی. کئی بار پڑھا اور ہر بار پہلے سے بڑھ کر لطف لیا. اب مولانا سے میری اجنبیت انسیت سے ہوتی ہوئی پسند کے دائرہ میں داخل ہو رہی تھی. تاریخ پڑھتے ہوئے آذادی ہند بھی پڑھ لی اور تفسیر پڑھتے ہوئے ترجمان القرآن سے بھی مستفید ہوا. ام الکتاب بھی بلاشبا ایک شاہ پارہ ہے, سورۃ التین کی تفسیرتو کمال ہے.
مختار مسعود صاحب کی حرف شوق پڑھی اور پھر دو مرتبہ غبار خاطر پڑھی, اور آج کل مولانا کے سیرت رسول صلی الله علیه وسلم پر لکھے ہوئے مضامین پڑھ رہا ہوں. وہ کانگرسی ملاء جو کبھی اجنبی تھا اب میرا محبوب ترین مصنف ہے, جسکی سیاست سے اختلاف تو ہوسکتا ہے مگر اسکے کردار کی عظمت سے انکار ممکن نہیں. حق مغفرت کرے عجب آذاد مرد تھا.
کمنت کیجے