اظہر سہیل صاحب صحافت سے وابستہ تھے۔ ضیاء الحق اور اس کے بعد بینظیر حکومت کے دور کے حوالے سے انہوں نے تین کتابیں لکھی ہیں۔ “سازشوں کا دور” ضیاء دور کے آخری ایام، ۸۸ کے انتخابات اور پھر بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے واقعات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور کے بارے میں ان کی دو کتابیں الگ ہیں۔ اس کتاب کو فیروز سنز نے شائع کیا ہے۔
شروع میں اظہر سہیل صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے دور پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے دور کے تین ستون تھے،علماء، آئی ایس آئی اور اہل قلم۔ مصنف نے بتایا ہے کہ علماء کو ضیاء دور سے پہلے سرکاری سطح پر کبھی اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ان کو ضیاء دور میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ سال بہ سال علماء و مشائخ کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے آئے علماء کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا۔ ضیاء الحق ان سے ملاقات کرتے اور اپنے کمال حافظے کی وجہ سے وہ کسی عالم سے دوسری بار ملتے تو اس کے حال احوال پوچھتے۔ اس وجہ سے مساجد میں ضیاء الحق کی سادگی اور عاجزی کی باتیں ہونے لگیں یوں عوام میں ان کی امیج بلڈنگ ہوئی
آئی ایس آئی کو بھی جو فعالیت ضیاء دور میں ملی، اس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ آئی ایس آئی کے ذریعے جنرل ضیاء کو ملک سے کونے کونے کی خبریں ملتیں حتی کہ اپنے خلاف کہی جانے والی گالیوں سے بھی وہ باخبر ہوتے اور کئی بار ان سے لطف اندوز ہوتے۔ جس طرح سے انٹیلیجنس ایجنسی سے انہوں نے کام لیا وہ بہت عمدہ تھا۔ اس سے اقتدار پر ان کی گرفت بھی مضبوط رہی اور ان کے بعد آنے والی بینظیر بھٹو اس ایجنسی سے اس طرح کا کام نہیں نکلوا سکیں جو جنرل ضیاء الحق لے لیتے تھے۔
اہل قلم سے بھی اپنا رابطہ مضبوط رکھتے۔ اگر کوئی فون پر ان کو پیغام چھوڑ جاتا تو اس کو فون ضرور کرتے۔ کوئی بڑا مدیر ہوتا یا چھوٹا قلم کار وہ ہر کسی کی بات بہت خندہ پیشانی سے سنتے اور یوں تاثر دیتے کہ جیسے کہ وہ ان کے ذاتی دوست ہوں۔ وہ صبح سویرے اخبارات پڑھ لیا کرتے اور کئی بار رپورٹروں کو کال کر کے کہتے کہ ان کی خبر کی یہ سطر درست نہیں۔ یہ چیز ان رپورٹروں پر خوشگوار تاثر چھوڑتی۔ یہ ان کا ایک اور ذریعہ تھا امیج بلڈنگ جس کی وجہ سے وہ عوام میں اپنا مثبت تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی اس منکسر المزاجی کے پیچھے ان کے مقاصد اور عزائم کچھ اور تھے مگر یہ رویہ ان کے حق میں جا رہا تھا۔ اس لیے جب بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو وہاں صحافیوں کو مختلف رویے کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ وہ اس امید پر تھے کہ ایک ڈکٹیٹر جو ان کی باتیں سنتا اور ان سے رابطے میں رہتا ہے کی بنسبت ایک جمہوری لیڈر سے ملنے میں زیادہ آزادی ہو گی لیکن مصنف کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے اردگرد خوشامدیوں کا اتنا گھیراؤ تھا جس نے انہیں اخبار نویسوں سے دور کر دیا اور ان تک رسائی کے لیے ان کے وفاداروں سے ملنا ضروری ہوتا تھا اور وہ بھی اس کے لیے مال بناتے تھے۔ مصنف کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے بارے میں یہ عام تاثر تھا کہ وہ بدعنوان نہیں ہیں اور مال بنانے کی کوشش نہیں کی مگر ان کے سیکرٹریٹ میں رشوت کا بازار گرم تھا۔ ان کے وزراء آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف تھے۔ ان کے وزراء کی بدعنوانیوں کی جب انہیں شکایت کی جاتی تو وہ ان کی صفائیاں دیتیں ایک دن تنگ آ کر انہوں نے اپنے وزیر احسان الحق پراچہ کو بلایا اور غصے کا اظہار کیا تو وہ امید کر رہی تھیں کہ اس پر پراچہ صاحب از خود مستعفی ہو جائیں گے۔ اظہر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ۸۸ کے انتخابات کے نتائج کے بعد انہیں بعض مشیروں نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا مشورہ دیا مگر اس پر اتفاق نہیں کیا جا سکا کیونکہ ان کے سامنے پچھلے گیارہ سال تھے جس میں ان کے خاندان اور کارکنوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ سلسلہ جاری نہ رہے اور جو قوت انتخابات کے ذریعے حاصل ہوئی ہے کہیں اس سے بھی ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ حکومت کے بیٹھنے کے ساتھ ہی مقتدرہ کی جانب سے بتا دیا گیا کہ اسحاق خان ، صاحبزادہ یعقوب علی خان اور وی اے جعفری کو حکومت کا حصہ بنانا ہو گا جس پر وہ رضا مند ہو گئیں۔
مصنف نے جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بتایا ہے کہ جونیجو حکومت کو گرانے کے بعد وہ لمبے عرصے تک اقتدار میں رہنے کے خواہاں تھے، وہ انتخابات کرانے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اگلے ریفرنڈم کے بارے میں پیر صاحب پگارا کو آگاہ بھی کر دیا۔ وہ بینظیر بھٹو کے ذکر پر جارحانہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ اس لڑکی کو اقتدار کے لیے میری لاش کے اوپر سے جانا پڑے گا اور اتفاق کی بات ہے یہ درست بھی ثابت ہوا۔
جنرل ضیاء جب طیارہ حادثے میں ہلاک ہوئے تو اس کے بعد انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بھرپور کوشش کی کہ انتخابات نہ ہوں لیکن صدر اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے ان کا انعقاد یقینی بنایا۔ جبکہ دوسری طرف محمد خان جونیجو اور غلام مصطفی جتوئی کا خیال تھا کہ جنرل بیگ آخری وقت میں انتخابات نہیں کروائیں گے۔ ابھی وہ جمہوری اپنا تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بعد میں وہ مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف، غلام مصطفی جتوئی اور جنرل (ر) فضل حق انٹیلیجنس ایجنسی کے ساتھ ملکر انتخابات کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ان کا ہدف پیپلز پارٹی تھی اور بالفرض اگر انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس کا راستہ کیسے روکا جائے ، ان کی محفلوں کا یہ ہی موضوع ہوتا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میاں صاحب اور انٹیلیجنس ایجنسی کا اب بھی منصوبہ یہی ہے اس دفعہ ہدف بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی بجائے عمران خان اور تحریک انصاف ہے۔ جب انتخابات کے حوالے سے ان کو یقین ہو گیا کہ ان کا ہونا طے پا گیا تو پھر انٹیلیجنس ایجنسی نے آئی جے آئی کا اتحاد قائم کیا ورنہ یہ کسی طرح بھی پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ جیسے اس وقت آئی جے آئی تھی تو آج ہم پی ڈی ایم کی شکل میں ایک اور اتحاد دیکھ رہے ہیں جو جرنیلی چھتری میں قائم ہوا ہے اور اس کا مقصد بھی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر کرنا ہے.لطف کی بات انتخابات کے مخالف سیاسی و غیر سیاسی قوتیں اس وقت بھی کہہ رہی تھیں کہ پاکستان کو انتخابات کی نہیں استحکام کی ضرورت ہے اور اب بھی ہم نے دیکھا کہ دو صوبوں میں انتخابات نہ کروا کر آئین شکنی کا ایسا ہی جواز پیش کیا گیا بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی بتایا گیا کہ اس وقت انتخابات ملکی استحکام کے لیے اچھے نہیں ۔
مصنف نے بتایا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسی بینظیر بھٹو کی کوکھ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ جب انتخابات ٹالنے کے حربے ناکام ہوئے تو نومبر کی وہ تاریخ رکھی گئی جس کے مطابق بینظیر بھٹو کی ڈیلیوری ہونی تھی مگر بینظیر بھٹو نے ایجنسیوں کو دھوکے میں رکھا اور ستمبر میں بلاول کو جنم دیا۔ یہ بینظیر بھٹو کی بہت عمدہ حکمت عملی تھی جس نے ایجنسیوں کو مات دی
مسلم لیگ کی تقسیم اور اس کا جونیجو اور نواز شریف میں بٹنے کی داستان بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ کیسے میاں صاحب نے جونیجو سے اس جماعت کی کمان چھینی جس میں ایجنسیوں کی بھرپور مدد بھی شامل تھی۔ لیکن ہمیں جونیجو صاحب بالکل مظلوم نظر نہیں آتے، کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جونیجو صاحب میں قوت فیصلہ کی شدید کمی تھی۔ ان کو پیر صاحب پگارا نے کئی دفعہ میاں صاحب کی سازشوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ میاں صاحب کو جماعت سے نکال دیں مگر میاں صاحب نے ان کے ساتھیوں میں اپنے لوگ شامل کیے ہوئے تھے جنہوں نے جونیجو صاحب کو فیصلہ لینے نہیں دیا۔ پھر ضیاء الحق کی موت کے دس دنوں میں ہی میاں صاحب نے اپنے آپ کو جونیجو صاحب سے الگ کر لیا اور فدا محمد خان کو سربراہ بنایا لیکن وہ برائے نام سربراہ تھے اصل حکم میاں صاحب کا چلتا تھا۔ بعد میں آگے جا کر مسلم لیگ متحد بھی ہوئی اور جونیجو صاحب کو سربراہ بھی مانا گیا مگر میاں صاحب اپنا دھڑا قائم کر کے جونیجو صاحب کے لیے خطرہ پیدا کر چکے تھے۔ پھر دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب مسلم لیگ میں جونیجو صاحب میاں صاحب کے سربراہ تھے جبکہ آئی جے آئی میں وہ ان کے ماتحت تھے۔ اس سے قبل جب میاں صاحب نے اپنا دھڑا الگ کیا تو جونیجو صاحب اور حامد ناصر چٹھہ کو اپنے ساتھیوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیں اس سلسلے میں پیپلز پارٹی سے زین نورانی نے بات چیت کی جونیجو صاحب کا مطالبہ تھا کہ پیپلز پارٹی کم از کم چالیس نشستوں پر ان کے حق میں دستبردار ہو جبکہ پیپلز پارٹی نے ستر نشستوں پر حامی بھر لی لیکن جونیجو صاحب کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکے اور یوں یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ایک دفعہ خیال آتا ہے کہ اگر یہ اتحاد ہو جاتا تو پھر پاکستان کا سیاسی منظرنامہ بالکل مختلف ہوتا۔ بینظیر بھٹو کی حکومت مضبوط ہوتی اور میاں نواز شریف کو کبھی بھی وہ سیاسی اہمیت نہ ملتی جو ان کو بعد میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ کی اکثریت بھی جونیجو صاحب کو حاصل ہوتی لیکن یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ایک بہت بڑا ووٹ بینک اینٹی بھٹو اور پرو ضیاء موجود تھا وہ سب کے سب یا اکثر آئی جے آئی کو ملتا اور یقیناً اس کے بنفیشری میاں صاحب ہی ہوتے لیکن کس حد تک اس کا درست جواب ہم کبھی نہیں جان سکتے۔
جونیجو صاحب جو کے بعد میں آئی جے آئی کا حصہ بن گئے تھے اور نواز شریف کے ساتھ ان کی صلح بھی ہو گئی تھی لیکن میاں صاحب نے یہاں بھی منتقم مزاجی سے کام لیا اور ایسے لوگ جو جونیجو صاحب کے خلاف بغاوت میں ان کے ساتھ نہیں تھے کو ہرانے کے لیے سرگرم رہے۔ اسلام آباد کی نشست پر نواز کھوکھر مضبوط امیدوار تھے، انہیں آئی جے آئی کا ٹکٹ نہیں لینا دیا گیا۔ اس پر حالانکہ جتوئی صاحب اور صدر اسحاق خان کے صحافتی مشیر نے بھی کھوکھر صاحب کے حق میں بات کی لیکن انہیں آئی جے آئی کا ٹکٹ میاں صاحب نے نہیں لینے دیا اور ان کے مقابلے میں ایک کمزور امیدوار سرفراز احمد میر کو ٹکٹ دیا نتیجتاً کھوکر صاحب یہ نشست چند سو ووٹوں سے ہار گئے۔
۸۸ کے انتخابات کے حوالے سے بھی مصنف نے بتایا ہے کہ اس میں کم از کم اکیس نشستوں پر پیپلز پارٹی کو ہرا کر انہیں آئی جے آئی کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ اس کا مقصد بھی پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت سے محروم کرنا تھا۔ یہ کتاب ۱۹۹۰ میں لکھی گئی اور اس میں اظہر سہیل صاحب نے بریگیڈیئر امتیاز کا اعتراف کا ذکر کیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے آئی جے آئی بنوائی کیونکہ اس کی قیادت پیپلز سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔
بینظیر بھٹو کے بارے میں اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ ان کے المیہ یہ تھا کہ ان کے اردگرد انانیت پسند جاگیردار تھے اور وہ خود بھی خوشامد پسند تھیں۔ ان کے حامی ان کو ان کے والد سے بھی بڑا لیڈر قرار دیتے۔ وہ مردم ناشناس بھی تھیں۔ پھر جب وہ حکومت میں آئیں تو ناتجربہ کاری کے باعث ان کے لیے الگ سے مشکلات کھڑی ہوئیں۔ خوشامدیوں میں گھر کر وہ عوام سے بھی دور ہوئیں ساتھ ہی ان کے اور اخبار نویسوں کے درمیان بھی فاصلہ پیدا ہو گیا۔ وہ اخبار نویس جو ضیاء الحق کے دور میں بآسانی ان تک رسائی حاصل کر سکتے تھے اب انہیں وزیر اعظم سے بات کرتے ہوئے جیالوں سے اجازت لینا پڑتی۔ ان کے وزراء کے الگ مسائل تھے۔ ان کی بدعنوانیوں کی داستانیں سرعام تھیں حتیٰ کہ ایجنسیوں نے ان کے سامنے ان کی بدعنوانیوں کے ثبوت رکھے مگر محترمہ بینظیر بھٹو ان کی صفائیاں دیتی رہتیں۔ فوجی انٹیلیجنس ایجنسی تو ان کے خلاف تھی مگر آئی بی کا یہ حال تھا کہ اس نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تسلی بخش رپورٹ کی کہ ایسا کچھ اہم نہیں ہے جبکہ مصنف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے بینظیر بھٹو کو خبردار کر دیا تھا۔ ان کے شوہر کی جانب سے ان کو الگ شکایات کا سامنا تھا۔ وہ protocol norms سے ہی ناواقف تھے۔ اس حوالے سے بیرون ملک دورے پر ان کو کافی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ وہ انٹیلیجنس ایجنسی جو جنرل ضیاء الحق کی طاقت تھی اس سے محترمہ تو کام نہ لے سکی ساتھ ہی وہ ان کے مخالفین کے لیے کام کرنا شروع ہو گئی۔ فوج کے ساتھ بھی بینظیر کا مرحلہ وار محاذ آرائی کا آغاز ہوا بالخصوص اس وقت جب انہوں نے جنرل حمید گل کو ہٹا کر شمس الدین کلو کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ طرفہ تماشا یہ کہ کلو صاحب کی تقرری کا کبھی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا۔ میں اس کو بھی بینظیر بھٹو کا ایک دلیرانہ قدم سمجھتا ہوں۔ گو کہ اس کے نتائج ان کے خلاف گئے لیکن ایک منہ زور گھوڑے کو لگام دینے کی انہوں نے کوشش ضرور کی۔ انہوں نے میجر عامر سمیت کچھ فوجیوں کو زبردستی ریٹائر بھی کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس کے ساتھ محترمہ کے لیے ایوان صدر والا محاذ بھی الگ سے کھل گیا۔ صدر اسحاق خان کے بارے میں مصنف نے بتایا ہے کہ جنرل ضیاء کی موت کے وقت ان کا چئیرمن سینٹ ہونا ایک حسن اتفاق تھا جس کی بدولت ان کو قائم مقام صدر بنایا گیا اور انہوں نے ہی تمام تر دباؤ کے باوجود انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا۔ پھر انتخابات کے بعد بھی بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بننے سے روکنے کی بھرپور کوشش ہوئی جس کو انہوں نے ناکام بنا دیا۔ لیکن بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے تعلقات کشیدگی کی جانب بڑھ گئے۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں اختیارات کی جنگ شروع ہو گئی ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اور جونیجو صاحب کے درمیان اختلافات تو کافی پہلے شروع ہو گئے تھے مگر اس کے باوجود اگر جونیجو صاحب دو بار ایوان صدر کا چکر لگاتے تو جنرل ضیاء بھی وزیر اعظم ہاؤس آتے جبکہ اسحاق خان ایک بار بھی وزیر اعظم ہاؤس نہ گئے، ہمیشہ محترمہ کو ایوانِ صدر جانا پڑا۔ پھر بینظیر بھٹو بھی وہاں کئی کئی عرصے بعد جایا کرتیں ۔ اسحاق خان نے شروع میں بینظیر بھٹو کی ناتجربہ کاری کو برداشت کیا مگر پھر انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کو مشورے ارسال کرنا شروع کیے جس کو وزیر اعظم نے ناپسند کیا۔ اس کے علاوہ ججز کی تقرری اور کچھ فوجی عہدوں کی ریٹائرمنٹ اور تعیناتی پر دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ حزب اختلاف کا رویہ بھی وزیر اعظم سے معاندانہ جبکہ ایوان صدر سے دوستانہ تھا۔
سینٹ جو کہ جونیجو دور کے مینڈیٹ پر چل رہی تھی سے بھی حکومت کی لڑائی رہی۔ چئیرمین سینٹ وسیم سجاد نے تقریباً تین ماہ بعد وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے احوال کو بھی مصنف نے لکھا۔ وزیر اعظم سینٹ جاتی ہی نہیں تھیں کیونکہ اس میں ان کے مخالفین کی اکثریت تھی۔ ایک دو دفعہ گئیں تو وہاں ان کا استقبال نہیں کیا گیا اور ان پر شدید تنقید بھی ہوئی جس سے ان کا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں قائم ہوا۔
ایک اور طرف نواز شریف جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے کی جانب سے انہیں الگ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں صاحب نے ان کے ارکان کی خرید وفروخت کیلئے بھی سرکاری وسائل کا استعمال کیا۔ بیچ میں ایک دو بار وزیر اعظم نے ان کو صلح کا پیغام بھی بھیجا اور کہا کہ وہ ان کا احترام کرتی ہیں مگر عملی طور پر یہ محاذ آرائی کم نہ ہو سکی۔
تحریک عدم اعتماد ایک بڑا امتحان تھا۔ اس کو پہلے حکومت نے اتنا سنجیدہ نہیں لیا مگر بعد میں ان کو احساس ہوا کہ یہ کافی گھمبیر صورتحال بننے والی ہے۔ حکومت کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور حزب اختلاف سے جا ملی۔ اس تحریک میں مقتدرہ کے کئی عناصر کی آئی جے آئی کو بھرپور مدد حاصل تھی۔ آئی جے آئی کے لیے اس وقت میاں زاہد سرفراز لابنگ کر رہے تھے اظہر صاحب کہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جاتے لیکن میاں نواز شریف کو جب معلوم ہوا کہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد وزارت اعظمی کا پھل ان کی بجائے جتوئی صاحب کی گود میں گرے گا تو وہ کچھ پیچھے بھی ہٹ گئے۔ جتوئی صاحب کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ عام انتخابات میں ہار گئے تھے بعد میں ضمنی انتخابات میں غلام مصطفیٰ کھر کی مدد سے وہ مظفرگڑھ سے جیتے تھے۔ویسے متحدہ قومی موومنٹ کا جو کردار اس وقت تھا وہی کردار ہمیں آپریشن رجیم چینج میں بھی نظر آیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ کسی کے اشارے پر محسن کشی سے گریز نہیں کرتے۔
بینظیر بھٹو کے دور میں اسلام آباد میں سارک کانفرنس ہوئی تو سربراہان کو مختلف ریسٹ ہاؤسز میں ٹھہرانے کا فیصلہ ہوا۔ ان میں سندھ ہاؤس ، بلوچستان ہاؤس ، فرنٹیئر ہاؤس اور کشمیر ہاؤس شامل تھے۔ کیونکہ یہ سربراہان کسی صوبے کے نہیں وفاق کے مہمان تھے تو دفتر خارجہ کے مشورے کے بعد ان کے نام کو ڈھانپ کر سب کو پاکستان ہاؤس قرار دیا گیا تو اس پر بینظیر بھٹو پر کشمیر بیچنے کا الزام لگا اور اس میں اول اول آئی جے آئی کہ بینظیر بھٹو نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی خوشنودی کی خاطر کشمیر کا نام ہٹا دیا۔ میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں اس الزام پر بینظیر بھٹو کے اس قدم پر خوب طعن و تشنیع سنی اور انہیں کشمیر فروش قرار دینے والی باتیں بھی سنیں جن سے میں خود بھی متاثر ہوا ، مگر حقیقت کیا تھی اور کتنی مختلف تھی اس کا علم بعد میں ہوا۔ یہ پروپیگنڈہ کی طاقت تھی جس کو میاں صاحب اور اسٹبلشمنٹ نے بہت تکنیک سے مخالفین کے لیے استعمال کیا اور اتفاق کی بات ہے اس کشمیر فروشی کا طعنہ اب حال ہی میں عمران خان کو بھی ملا اور اس دفعہ بھی الزام لگانے والے عناصر ۸۹ والے عناصر ہی تھے اور میاں نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں نے عمران خان کی کردار کشی کی۔ مجموعی طور پر بھی اس وقت پیپلز پارٹی کے ساتھ پریس کا رویہ اور تھا ان کی بدعنوانیوں کی داستانیں تو خوب چرچا کرتیں مگر آئی جے آئی جو بدعنوانیوں میں پیپلز پارٹی سے کسی طرح کم نہیں تھی کے سکینڈلز کو کبھی زیرِ بحث ہی نہیں لایا گیا۔ پیپلز پارٹی نے میاں صاحب کی پنجاب حکومت گرانے پر جو خرید وفروخت کی وہ تو خبروں کی زینت بنی لیکن جب میاں صاحب اور آئی جے آئی نے وفاقی حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں منڈی سجائی تو اس پر کم کم ہی بات ہوئی حالانکہ اس میں خرید وفروخت اور پیسہ پنجاب حکومت سے کئی گنا زیادہ لگا۔ دوسری جانب صحافیوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے جیالوں کا رویہ بھی سخت تھا مصنف کہتے ہیں کہ ہم نے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ہاتھوں کو بدسلوکی برداشت کی وہ کسی مارشل لاء میں بھی نہیں کی۔
بینظیر بھٹو کے خلاف اپوزیشن نے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا کہ سعودی عرب سمیت مسلم ممالک عورت کی حکمرانی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور وہ پاکستان سے ناراض ہیں اس پر بینظیر کو عمرے پر جانا پڑا جہاں ان کا پرتپاک استقبال ہوا مگر زرداری صاحب کا رویہ غیر سفارتی تھی وہ مناسب تقریباتی لباسِ میں نہیں آئے اور ساتھ ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد محترمہ نے آصف زرداری کو ہدایت کی کہ آئندہ وہ کسی سفارتی تقریب میں مناسب لباس میں جایا کریں۔
محترمہ کے دور میں امریکی سفارت خانے کا کردار بھی بہت فعال ہو گیا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ امریکی سفارت خانہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کی سجدہ گاہ بن گیا تھا وہ امریکہ جس کو اپنے باپ کا قاتل کہتی تھیں اب انہوں نے سجدہ سہو کر لیا تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ محترمہ اپنے کئی معاملات میں امریکی سفارت خانے سے مشورہ کرتی تھیں اور ان کو اعتماد میں رکھتی تھیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ اس سے ان حکومت مضبوط ہو گی مگر امریکہ نے کبھی اپنا سارا زور ایک پلڑے میں نہیں ڈالا اس نے دوسری جانب بھی اپنے تعلقات قائم رکھے۔ ویسے بینظیر بھٹو کے سجدہ سہو پر مصنف نے کچھ تنقید کی ہے یہ کسی حد تک درست بھی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ کا یہ عمل حقیقت پسندانہ تھا۔ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے جس کا پاکستان پر بہت زیادہ اثر ہے، پھر بین الاقوامی سطح پر بھی ان سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ضروری ہوتا ہے اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اگر حکمت عملی بدلی تو ٹھیک کیا لیکن اپنی حکومت میں ان سے مشاورت کا حد سے زیادہ بڑھ جانا تشویش ناک ہے جس پر محترمہ پر تنقید بنتی ہے۔
مصنف نے محترمہ کی کابینہ کے چند ارکان جیسے کہ خواجہ احمد طارق ، چوہدری اعتزاز احسن اور احسان الحق پراچہ کے رویوں پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا لاابالی پن محترمہ کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہا۔ بالخصوص اعتزاز احسن ہر وقت جارحانہ موڈ میں رہتے پہلے ان کو وزیر قانون بنایا گیا تو اپنے بچگانہ مشوروں اور طرزِ عمل کی وجہ سے ان کی وزارت تبدیل کی اور ان کو وزیر داخلہ بنایا گیا تو وہ تھانے کچہری کی سیاست میں ملوث ہو گئے۔ خواجہ طارق رحیم وکٹ کی دونوں جانب کھیلتے تھے۔ پراچہ صاحب پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات تھے جن کے شواہد بھی محترمہ کو فراہم کیے گئے۔ اعتزاز احسن کی جگہ وزیر قانون بننے والے افتخار گیلانی بھی کوئی کارگر ثابت نہ ہوئے ۔
ان وزراء کی وجہ سے بیوروکریسی کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہو گئے۔ مصنف کہتے ہیں کہ بیوروکریسی کسی شخصیت کی وفادار نہیں ہوتی وہ حکومت کی وفادار ہوتی ہے۔مگر پیپلز پارٹی کے جیالوں اور وزراء نے بیوروکریسی کے ساتھ ذاتی ملازموں جیسا سلوک کیا۔ ان میں چوہدری اعتزاز احسن کے بارے میں مصنف کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا سے تھوڑا سا نیچا سمجھتے تھے۔ ان کے وفاقی سیکریٹریوں کے ساتھ رویہ انتہائی تضحیک آمیز تھا۔ جس کا بعد میں انہوں نے ترکی با ترکی جواب بھی دیا۔ ایسا ہی دیگر محکموں کے وزراء کے حوالے سے بھی بیوروکریسی کو شکایات تھیں۔ اس کا آخرکار نقصان بینظیر بھٹو کو ہوا اور بیوروکریسی نے بھی وزیر اعظم ہاؤس کی بجائے ایوانِ صدر کو اہمیت دینا شروع کر دی۔ بینظیر بھٹو کے مشیروں میں سے ناہید خان اور بشیر ریاض کے بارے میں بھی مصنف نے لکھا کہ وہ بھی ان کے لیے بوجھ تھے۔ بالخصوص ناہید خان جو کہ پولٹیکل سکریٹری تھیں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی تھیں۔ انہوں نے سرکاری افسران ، میڈیا اور بیوروکریسی ہر ایک سے توہین آمیز گفتگو کی وہ ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتی تھیں۔ بشیر ریاض کے بارے میں لکھا ہے کہ ضیاء دور میں ایک بار ضیاء الحق شیخ عبد القادر جیلانی رح کے مزار پر گئے تو انہوں نے وہاں ضیاء الحق کے خلاف تقریر شروع کر دی جس کا مصنف نے برا منایا کہ ضیاء الحق اس وقت بھلے ناجائز طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں مگر بیرون ملک وہ پاکستان کے نمائندے ہیں۔ اس وجہ سے مصنف اور بشیر ریاض کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہوئے
بینظیر بھٹو کو جہاں وزراء کی جانب سے مشکلات کا سامنا تھا تو وہاں ان کو اپنے اسپیکر کے بارے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔ بی بی کے وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے چوہدری پرویز الٰہی ، چوہدری شجاعت ، غلام حیدر وائیں ، مولانا عبدالستار خان نیازی اور میاں نواز شریف کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا جس کو اسپیکر نے روکے رکھا ، اس کے جواب میں بینظیر کے خلاف بھی حزب اختلاف نے ریفرنس دائر کیا۔ بینظیر بھٹو نے ملک معراج خالد کو کہا کہ آپ دونوں ریفرنسز کو الیکشن کمیشن کو ارسال کریں مگر وہ ٹالتے رہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ ڈاکٹر شیر افگن نیازی کا ریفرنس بہت مضبوط شواہد پر تھا اگر اسپیکر ملک معراج خالد اس کو الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیتے تو یہ پانچوں لوگ پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکتے تھے۔ یہاں ایک بار پھر ذہن میں آتا ہے کہ بالفرض یہ پانچ لوگ بالخصوص میاں نواز شریف اور غلام حیدر وائیں نااہل ہو جاتے تو اس کے بعد پنجاب اور وفاق کی صورتحال کیا ہوتی۔ پرویز الٰہی اور شجاعت کی شکل میں لیگ کی متبادل قیادت بھی نااہل ہو جاتی تو منظر نامے مزید دلچسپ ہو جاتا لیکن کچھ لمحات وقت کا دھارا بدل دیتے ہیں ایسا ہی ایک لمحہ ملک معراج خالد کا ریفرنس کو التواء میں ڈالنا تھا۔ دراصل ملک معراج خالد کمپرومائز ہو چکے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ کتاب کے ضمیمے میں مصنف نے ڈاکٹر نیازی کے ریفرنس اور اس کے ثبوت کی کاپی لگائی ہوئی ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے خبریں کافی عرصہ سے گردش کر رہی تھیں اور بہت سے باخبر ذرائع کے مطابق یہ حقیقت بھی تھی لیکن اگر کوئی اس سے بے خبر تھا تو وہ وزیراعظم بینظیر بھٹو اور ان کے قریبی ساتھی تھے۔ جس روز حکومت کا خاتمہ ہوا اس دن بینظیر بھٹو نے اپنے ایک نمائندے کو صدر اسحاق خان کے پاس بھیجا تو انہوں نے یہ پیغام دیا کہ وہ کوئی غیر آئینی کام نہیں کریں گے جس پر وزیر اعظم مطمئن ہو گئیں حالانکہ صدر کا اسمبلی توڑنا جبکہ ان کے پاس اس کا جواز موجود ہو کوئی غیر آئینی کام نہیں تھا
اظہر سہیل صاحب کے تجزیات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اگر تو انہوں نے واقعات کو دیانتداری سے پیش کیا ہے تو پھر یہ کتاب پاکستان کی ان دو اڑھائی سال کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے جہاں ہمیں بینظیر بھٹو کی ناتجربہ کاری کا پتہ چلتا ہے تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ کئی جگہ مظلوم بھی تھیں۔ جو ایک طرف اپنے نااہل مشیروں کے گرد گھری تھیں تو دوسری طرف بے رحم دشمن جو ان کی کردار کشی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ ریاستی مشینری جہاں وہ ایک طرف کام نہیں لی سکیں تو دوسری طرف اپنے وزیروں کے تکبر نے ان کو الگ امتحان میں ڈالا اور نئے مخالف پیدا کر لیے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کس قدر مشکل حالات میں بیس ماہ حکومت کی لیکن کچھ غلطیوں کا جواز نہیں پیش کیا جا سکتا۔ جیسے کہ ان کا خوشامد پسند ہو کر حقیقت سے دور ہو جانا اور اپنے لوگوں کا ناجائز دفاع کرنا۔ اس کے ساتھ ہمیں اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خفیہ ادارے کس طرح سیاست دانوں کو استعمال کرتے ہیں اور کیسے کچھ لوگ اپنے مفادات کی خاطر ملکی سیاست میں تلخیاں گھولتے ہیں۔ یہ کتاب بینظیر بھٹو کے خاتمے کے فوراً بعد لکھی گئی تو ان واقعات کی یاداشت مصنف کے ذہن میں تازہ ہو گی۔کتاب کا یہ پہلو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ واقعات کی حقیقت بعد میں کھلے لیکن آئی جے آئی کے بارے میں جو بات اس وقت مصنف نے کی اس کا اعتراف جرنیلوں نے بعد میں کیا۔ اس کے کئی کردار انتقال کر چکے ہیں مگر کچھ لوگ اب بھی زندہ ہیں اور ان باتوں پر اپنے حصے کا سچ سامنے لا سکتے ہیں جس کو لانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
کمنت کیجے