ایک طویل مدت کے بعد ہمارے پڑوسی اس وقت ایک بار پھر بڑی تعداد میں پریشانی کے عالم میں ہیں۔انہیں اپنے گھروں کو لوٹنا ہے، جو ایک دن بہ ہر حال انہیں لوٹنا ہی تھا، لیکن یہ بار بار کی بے دخلی اور پھر اس میں جبر کا عنصر انسانوں کو کس طرح اندر سے توڑ توڑ کر رکھ دیتا ہے، اس کو وہی سمجھ سکتا ہے جو خدانہ خواستہ ان حالات سے کبھی خود گزرا ہو، یا جس نے ان حالات کو قریب سے ضرور دیکھا ہو۔ہمارے ہاں معاملہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی بات کا صرف ایک ہی پہلو پیش نظر رہتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نیک نیتی اور پورے اخلاص کے باوجود بھی ہمارا کیا ہوا تجزیہ کبھی درست نتائج دینے میں کام یاب نہیں ہو پاتا۔ نتیجتا ہماری الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
اس موجودہ مسئلے پر بھی دو تین اہم پہلو پیش نظر رہنے چاہییں۔
الف: یہ بات تمام لکھنے اور پڑھنے والوں کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ ایک ہے ضابطے کے مطابق آنے والے اور ضابطے کے مطابق قیام پذیر حضرات کا انخلا، یہ بھی بعض اوقات ناگزیر ہو جاتا ہے کہ کسی بھی حکومت یا ریاست کی اس نوعیت کے خیر خواہی تادیر تو ہو سکتی ہے تاحیات نہیں۔ اس لیے پناہ گزینوں کو بہ ہہر کیف ایک نہ ایک دن واپس لوٹنا ہی ہوتا ہے۔
ب: جہاں تک ہمارے علم میں ہے اس وقت حکومت پاکستان کی جانب سے طے کی جانے والی آخری حد صرف ان حضرات کے لیے تھی، جو غیر قانونی طور پر مقیم تھے یا جن کے کاغذات مکمل نہیں تھے، اور انہوں نے اپنی کاغذی کاروائی کی تکمیل کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ان حضرات کی تکلیف بھی ہماری ہی تکلیف ہے کہ وہ ہمارے پڑوسی بھی ہیں،اور مسلمان بھائی بھی، لیکن بہ ہرحال انہیں بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت تھی کہ وہ پہلے ہی اس بات کا اہتمام کرتے کہ اپنے قیام کو ضروری حد تک قانونی بنانے کی کوشش کرتے، لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا تو دنیا بھر کے ضابطوں کے مطابق یہ تکلیف ان کی اپنی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اس میں پاکستان اور اہل پاکستان کو ذمے دار قرار دینا ایک لایعنی سی حرکت ہے۔
ج: ہمارے ہاں جو قانونی طور پر بھی مقیم ہیں ان میں بھی بڑی تعداد ایسی ہے جو غیر قانونی طریقے اختیار کر کے ( اگرچہ کہ یہ طریقے بھی ہمارے پاکستانی بھائیوں ہی نے انہیں سجھائے اور مکمل کروائے ہیں) یہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ ان حضرات کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہوسکتی ہے، اس وقت سے بچنے کے لیے زیادہ بہتر ہے کہ وہ ابھی سے اپنے کاغذات درست کر لیں،تاکہ انہیں اس مرحلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
د: ہمارے پاس دوست رد عمل میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح بے دخلی کے بعد اگر وہ پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات رکھیں یا اس کا اظہار پاکستان کے پرچم وغیرہ کو جلا کر کریں تو وہ حق بہ جانب ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اس صریح غلط عمل میں حق بہ جانب کیسے ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو کہیں پر کچھ مدت کے لیے کسی ضرورت کے تحت رکھ بھی لیا جائے تو کیا اس سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لیے یہ سہولت فراہم کر دی گئی ہے،اور کیا کسی شخص یا ریاست کے حسن سلوک کا بدلہ صرف اس بنیاد پر نفرت سے دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ احسان 10 سال کیا تو 12 سال کیوں نہیں کیا اور 20 سال کیا تو 25 سال تک اس احسان کو طوالت کیوں نہیں دی۔ یہ کون سی منطق ہے۔
ھ: یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کے لیے قابل غور ہے کہ اس عمل کے لیے موجودہ وقت کیوں چنا گیا اس کی کچھ اسٹریٹجک ضرورتیں ہوں گی،ہمارے بہت سے سیاسی اور معاشی معاملات میں بہت سے پڑوسی بھائیوں کی غیر قانونی مداخلت تو ہم میں سے اکثر لوگوں کے علم میں آچکی ہے، لیکن موسم اعتبار سے اگر یہ عمل ایک آدھ مہینے پہلے ہوتا تو ہمارے ان بھائیوں کی مشکلات میں کمی واقع ہو سکتی تھی.
و: اگرچہ کہ اب واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن بہ ہر حال اگر کہیں پہ ہمارے یہ بھائی اپنی استعمال کی چیزیں فروخت کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے کئی ایک لکھنے والوں نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان کو ان کے سامان کی اصل قیمت ادا کرنی چاہیے ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی کم قیمت پر وصول کرنا کسی صورت درست نہیں ہوگا اس عمل سے بچنا ہماری ذمے داری ہے.
ز: ہمارے وہ پاکستانی بھائی جو ابا و اجداد کی طرف سے پڑوس کی قبائلی نسبت رکھتے ہیں اس معاملے میں بہت زیادہ جذباتی پوسٹیں کر رہے ہیں ان کا یہ عمل ہمارے لیے کافی تکلیف دہ ہے پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے سارے وسائل سے ہر طرح استفادہ کرتے ہوئے اس نوعیت کا لب و لہجہ ہمارا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی اور ملک میں اختیار کرنا ممکن ہے۔یہ آزادی بھی ہمارے ہی اس ریاست میں حاصل ہے۔ ہم ایسے دوستوں کو بھی جانتے ہیں جو یہاں اچھے گریڈوں میں سرکاری ملازمت رکھتے ہیں لیکن ان کی پوسٹوں سے ان کا نام ہٹا دیا جائے تو بالکل باور نہیں آتا کہ یہ پوسٹ کسی پاکستانی کی تحریر کردہ ہوگی۔ اس معاملے میں ان دوستوں کو غور کرنا چاہیے.
ح: یہ بات چاہے کسی کو اچھی لگے یا بری اس خطے کے رہنے والوں کو پڑوس سے بہت زیادہ ٹھنڈی ہوائیں کبھی بھی میسر نہیں آ سکیں،اس کے برعکس ان کا تعلق ہمارے دوسرے پڑوسی ملک کے ساتھ نہ جانے کیوں انتہائی گہرا رہا ہے جبکہ گزشتہ 50 برسوں میں وہ پڑوس ہمیشہ حاوی اور حملہ اور قوتوں کا حصہ رہا ہے اس کے باوجود ہمارے یہ دوست ان سے اگر قلبی تعلق رکھتے ہیں جبکہ ان کا ایمان کا رشتہ بھی ہمارے ساتھ ہے،اور سماجی رشتے بھی ہمارے ساتھ ہیں تو یہ انہیں مبارک ہو ۔ انہیں بہ ہرحال اپنے دوست منتخب کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن انہیں ہمارے جذبات سے کھیلنے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔رد عمل پھر یہاں سے بھی آئے گا.
یہ جملے نہایت خیر خواہی سے لکھے گئے ہیں۔ پھر بھی دل آزاری کی معذرت
کمنت کیجے