عمران شاہد بھنڈر
انسان نے آج تک کسی بھی شعبہ حیات میں جو ترقی کی ہے اور اپنے ارد گرد کی چیزوں کو قابل فہم بنایا ہے اور ان کا علم حاصل کیا ہے، اس کی بنیاد میں فلسفیوں کا تخلیق کردہ علیت کا مقولہ ہے۔ طب، کیمیا، طبیعات، تاریخ، قانون، اخلاقیات علم البشریات، سائنس، تکنیک اور فلسفہ وغیرہ میں سے اگر علت و معلول کے تصورات خارج کر دیے جائیں تو یہ تمام علوم ناقابل فہم ہی نہیں ہو جاتے بلکہ ان علوم کا برقرار رہنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
علت و معلول کا تصور فلسفیوں نے اپنے ارد گرد کی دنیا سے اخذ کیا ہے۔ ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ رونما ہونا اور دونوں واقعات کا قابل فہم ہونا۔ طبی حوالے سے دیکھیں تو علت و معلول کے بغیر کسی بیماری کا علاج تک دریافت کرنا ممکن نہیں ہے۔ گلا خراب ہونے، جسم میں درد ہونے کی وجہ تک معلوم نہیں کی جا سکتی، تدارک تو علت کے معلوم ہونے کے بعد کا معاملہ ہے۔ سماجی سطح پر علت و معلول کے بغیر کسی مجرم کو سزا تک نہیں دی جا سکتی۔ اخلاقی، ریاستی اور قانونی سطح پر علت و معلول کے بغیر “ذمہ داری” کا تصور تک مٹ جاتا ہے۔ کسی وجہ کی بنیاد پر ہی کسی کو اس کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ علت و معلول کے بغیر انسان پتھر کے دور میں چلا جاتا ہے۔
ڈیوڈ ہیوم کا استدلال یہ تھا کہ یہ درست ہے کہ ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ رونما ہوتا ہے، جو کہ ایک تجربی معاملہ ہے۔ تاہم دو واقعات کے درمیان علیتی ربط بطور لازمہ تجربے میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اور ماورائے تجربہ علیتی ربط کو تلاش کرنا صرف عقلی قیاس ہے جس کی بنیاد میں تجربہ شامل ہوتا ہے۔ یعنی علت و معلول بنیادی طور پر تجربے سے ماخوذ تصور ہے۔ ایک تجربی تصور کو ماورائے تجربہ کسی متصورہ مفروضے پر لاگو کرنا حماقت ہے، اور متکلمین کی زندگی اسی حماقت کا ارتکاب کرتے ہوئے گزری ہے۔ ایک زمانی تصور کو مستعار لے کر اس کا ماورائے زمان اطلاق کرنا، ایک ایسی دنیا پر جس کے بارے میں کوئی تجربی شہادت نہیں ہے، نہ اس ماورائے زمان دنیا کی ماہیت کا ہی کوئی علم ہے، نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ علت و معلول جیسے تصورات کا اطلاق “وہاں” ہوتا بھی ہے یا نہیں، اس کے باوجود پوری ڈھٹائی سے جھوٹ پر قائم رہنا ایک عمومی مذہبی المیہ ہے۔ کیا ماورائے زمان و مکاں بھی علت و معلول کے قوانین موجود ہیں؟ اگر علت و معلول کے درمیان ربط تجربے میں بطور لزوم ظاہر نہیں ہوتا، تو یہ علیتی لزوم ماورائے زمان و مکاں کیسے ظاہر ہو جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تمام متکلمین ایک محدود مذہبی دائرے میں ایک دوسرے سے مخاطب تھے اور اپنے عقیدے کی حدود میں بنیادی اعتقادات کو تسلیم کرتے ہوئے اذعانی طرز پر “دلائل” پیش کر رہے تھے۔ ورنہ صرف اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا جا سکتا کہ ماورائے زمان و مکاں علت کی ماہیت کیا ہے اور اسے معلوم کرنے کے لیے تجربے سے ماخوذ تصورات کا اطلاق کیوں کیا جا سکتا ہے؟ اگر علت و معلول کا تصور ہی زمان کا پابند ہے تو ماورائے زمان اس کا اطلاق ماورائے زمان کو زمان کا پابند کرنا ہے جو کہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ماورائے زمان کی ماہیت معلوم نہ ہو۔ اگر ماورائے زمان زمانی قوانین کا پابند ہے تو ایسے میں وہ ماورائے زمان کیوں کر ہو سکتا ہے؟ مظاہر کے قوانین کا اطلاق اس دنیا پر نہیں کیا جا سکتا جس کے بارے یہ بھی علم نہ ہو کہ وہ مشروط کائناتی مظاہر کا تسلسل بھی ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کی ماہیت ہی معلوم نہیں، اسے علیت کے تحت لانا ناممکن ہے۔ فلسفیوں نے منطق اس لیے ایجاد نہیں کی تھی کہ اس کا زمان و مکاں سے ماورا اطلاق کیا جائے، بلک منطق زمان و مکاں کی حدود میں قابل فہم ہوتی ہے۔ یہی اس کا درست استعمال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں۔
کمنت کیجے