Home » مولانا ابوالکلام آزاد کا فکری ارتقاء
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

مولانا ابوالکلام آزاد کا فکری ارتقاء

گل رحمان ہمدرد

مولانا ابوالکلام آزاد فرقہ پرستی سے وحدت دین اور پھر وحدت دین سے وحدت ادیان تک کیسے پہنچے؟ اپنے ذہنی سفر کی روداد بیان کرتے ہوۓ مولانا آزاد خود غبار خاطر میں لکھتے ہیں:

”عام حالات میں مذہب انسان کو اس کے خاندانی ورثہ کے ساتھ ملتا ہے ، اور مجھے بھی ملا۔ لیکن میں موروثی عقاید پر قانع نہ رہ سکا۔ میری پیاس اس سے زیادہ نکلی جتنی سیرابی وہ دے سکتے تھے۔ مجھے ”پرانی راہوں“ سے نکل کر خود اپنی ”نئی راہیں“ ڈھونڈھنی پڑیں۔ زندگی کے ابھی پندرہ برس بھی پورے نہیں ہوۓ تھے کہ طبیعت نئی خلشوں اور نئی جستجوؤں سے آشنا ہوگئی تھی۔ اور ”موروثی عقائد“جس شکل و صورت میں سامنے آ کھڑے ہوئے تھے ، ان پر مطمئن ہونے سے انکار کرنے لگی تھی۔ پہلے اسلام کے اندرونی مذاہب کے اختلافات سامنے آئے ، اور ان کے متعارض دعوؤں اور متصادم فیصلوں نے حیران و سرگشتہ کر دیا۔ پھر جب کچھ قدم آگے بڑھے ، تو خود ”نفس مذہب“ کی ”عالمگیر نزاعیں“ سامنے آگئیں ، اور انہوں نے حیرانگی کو شک تک اور شک کو انکار تک پہنچا دیا۔ پھر اس کے بعد مذہب اور علم کی باہمی آویزشوں کا میدان نمودار ہوا۔ اور اس نے رہا سہا اعتقاد بھی کھو دیا۔ زندگی کے وہ بنیادی سوال جو عام حالات میں بہت کم ہمیں یاد آتے ہیں۔ ایک ایک کر کے ابھرے اور دل و دماغ پر چھا گئے۔ حقیقت کیا ہے اور کہاں ہے؟ اور ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے ، اور ایک ہی ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ حقیقتیں ہو نہیں سکتیں ، تو پھر راستے مختلف کیوں ہوئے؟ کیوں صرف مختلف ہی نہیں ہوئے بلکہ باہم متعارض اور متصادم ہوئے؟ پھر یہ کیا ہے کہ خلاف و نزاع کی ان تمام لڑتی ہوئی راہوں کے سامنے علم اپنے بے لچک فیصلوں اور ٹھوس حقیقتوں کا چراغ ہاتھ میں لیے کھڑا ہے ، اور اس کی بے رحم روشنی میں قدامت اور روایت کی وہ تمام پراسرار تاریکیاں جنہیں نوع انسانی عظمت و تقدیس کی نگاہ سے دیکھنے کی خوگر ہوگئی تھی ، ایک ایک کر کے نابود ہورہی ہیں.!
یہ راہ ہمیشہ شک سے شروع ہوتی ہے اور انکار پر ختم ہوتی ہے۔ اور اگر قدم اُسی پر رُک جائیں تو پھر مایوسی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔مجھے بھی ان منزلوں سے گزرنا پڑا ، مگر میں رُکا نہیں۔ میری پیاس مایوسی پر قائع ہونا نہیں چاہتی تھی۔ بالآخر حیرانیوں اور سرگشتگیوں کے بہت سے مرحلے طے کرنے کے بعد جو مقام نمودار ہوا۔ اس نے ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچادیا۔ معلوم ہوا کہ اختلاف و نزاع کی انہی متعارض راہوں اور اوہام و خیالات کی انہی گہری تاریکیوں کے اندر ”ایک روشن اور قطعی راہ“ بھی موجود ہے جو یقین اور اعتقاد کی منزل مقصود تک چلی گئی ہے اور اگر سکون و طمانیت کا سراغ مل سکتا ہے تو وہیں مل سکتا ہے۔ میں نے جو اعتقاد حقیقت کی جستجو میں کھو دیا تھا ، وہ اس جستجو کے ہاتھوں پھر واپس مل گیا۔ میری بیماری کی جو علت تھی ، وہی بالآخر دارُوئے شفا بھی ثابت ہوئی:

قد اویت من لیلیٰ بلیلیٰ عن الھویٰ
کما یتد اوی شارب الخمر بالخمر!

البتہ جو عقیدہ کھویا تھا وہ تقلیدی تھا ، جو عقیدہ پایا وہ تحقیقی تھا۔
جب تک موروثی عقائد کے جمود اور تقلیدی ایمان کی چشم بندیوں کی پٹیاں ہماری آنکھوں پر بندھی رہتی ہیں ، ہم اس راہ کا سراغ نہیں پاسکتے۔ لیکن جونہی یہ پٹیاں کھلنے لگتی ہیں صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ راہ نہ تو دور تھی اور نہ ہی کھوئی ہوئی تھی یہ خود ہماری ہی چشم بندی تھی جس نے عین روشنی میں گم کردیا تھا۔“[ غبارِ خاطر ، خط 6 ] مذاہب عالم کے متضاد و متعارض دعوؤں کے درمیان وہ ”ایک روشن اور قطعی راہ“ جسے ابوالکلام نے اپنے موروثی عقاٸد کو ”ترک کرکے“ دریافت کیا اس کے خدوخال کیاہیں۔مولانا آزاد اس کے خد وخال بیان کرتے ہوۓ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں ”خلاصہ بحث “ کے عنوان کے ذیل میں لکھتے ہیں:

”نزولِ قرآن کے وقت دنیا کا مذہبی تخیل اس سے زیادہ وسعت نہیں رکھتا تھا کہ نسلوں,خاندانوں,اور قبیلوں کی معاشرتی حدبندیوں کی طرح مذہب کی بھی ایک خاص گروہ بندی کرلی گٸ تھی۔ہر گروہ بندی کا آدمی سمجھتا تھا ,دین کی سچاٸ صرف اسی کے حصہ میں آئی ہے۔جو انسان اس کی مذہبی حدبندی میں داخل ہے ,نجاتِ یافتہ ہے,جو داخل نہیں ہے,نجات سے محروم ہے۔۔۔لیکن قرآن نے نوعِ انسانی کے سامنے مذہب کی ”عالمگیر سچائی“ کا اصول پیش کیا۔اس نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے بلکہ صاف صاف بتادیا کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔اس نے کہا دین خدا کہ ”عام بخشش“ ہے۔اسلیۓ ممکن نہیں کہ کسی ایک جماعت ہی کو دیا گیا ہودوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔اس نے کہا کہ خدا کے تمام قوانینِ فطرت کی طرح انسان کے ”روحانی سعادت“ کا قانون بھی ایک ہی ہے اور سب کےلیۓ (یکساں)ہے۔پس پیروانِ مذاہب کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے ”دینِ الہی کی وحدت“ کو فراموش کرکے الگ الگ (مذہبی) گروہ بندیاں کرلی ہیں اور ہر گروہ بندی دوسری گروہ بندی سے لڑ رہی ہے۔اس نے بتایا کہ خدا کا دین اسلیۓ تھا کہ نوعِ انسانی کا (مذہبی)تفرقہ و اختلاف دور ہو۔اسلیۓ نہ تھا کہ تفرقہ ونزاع کی علت بن جاۓ۔پس اس سے بڑھ کر اور گمراہی کیا ہوسکتی ہے کہ جو چیز تفرقہ دور کرنے کےلیۓ آئی تھی اسی کو تفرقہ کی بنیاد بنالیا ہے؟۔اس نے بتایا کہ ایک چیز دین ہے ۔ایک شرع ومنہج(یعنی مذاہب کے ظواہر) ہے۔دین ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح پر سب کو دیا گیا ہے۔البتہ شرع ومنہاج میں اختلاف ہوا اور یہ اختلاف ناگزیر تھا۔کیونکہ ہر عہد اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھا کہ جیسی بھی حالت ہو ویسے ہی احکام و اعمال بھی اس کےلیۓ اختیار کیۓ جاٸیں۔پس شرع ومنہاج کے (محض ظاہری )اختلاف سے اصل دین مختلف نہیں ہوجاسکتے۔تم نے دین کی حقیقت تو فراموش کردی محض شرع ومنہاج(جیسے ظاہری اعمال)کے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھٹلا رہے ہو۔اس نے بتایا کہ تہماری مذہبی گروہ بندیاں اور ظواہر ورسوم(یعنی شرع ومنہاج) کو ”انسانی نجات وسعادت“ میں کوٸ دخل نہیں ۔۔۔اس نے صاف صاف لفظوں میں اعلان کردیا کہ اس کی دعوت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں لیکن پیروانِ مذاہب سچاٸ سے منحرف ہوگیۓ ہیں“۔(تفسیر سورہ فاتحہ)
اسی حوالے سے سورہ فاتحہ کی تفسیر کے اسی مقام پر مزید فرمایا :

”مذاہبِ عالم کا اختلاف صرف اختلاف ہی کی حد تک نہیں رہا ہے ،بلکہ باہمی نفرت ومخاصمت کا زریعہ بن گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ مخاصمت کیونکر دور ہو؟۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ”تمام پیروانِ مذاہب“ اپنے دعوے میں سچے مان لیۓ جائیں کیونکہ ”ہر مذہب کا پیرو“ صرف اسی بات کا مدعی نہیں ہے کہ وہ سچا ہے بلکہ اس کا بھی مدعی ہے کہ دوسرے جھوٹے ہیں۔پس اگر ان کے دعاوی مان لیۓ جائیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر مذہب بہ یک وقت سچا بھی ہے اور جھوٹا بھی ہے۔یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ سب کو جھوٹا قرار دیاجاۓ۔کیونکہ اگر”تمام مذاہب“ جھوٹے ہیں تو پھر (مذہبی)سچائی ہے کہاں؟پس اگرکوئی صورت رفع نزاع کی ہوسکتی ہے تو وہ وہی ہے جس کی دعوت لے کر قرآن نمودار ہواہے۔تمام مذاہب سچے ہیں ,کیونکہ ”اصل دین“ ایک ہی ہے اور سب کو دیا گیا ہےلیکن ”تمام پیروانِ دعوت“ سچائی سے منحرف ہوگیۓ ہیں کیونکہ ”دین کی حقیقت اور وحدت“ ضائع کردی ہےاوراپنی گمراہیوں کی الگ الگ ٹولیاں بنا لی ہیں۔اگر ان گمراہیوں سے لوگ باز آجاٸیں اور ”اپنے اپنے مذہب“ کی حقیقی تعلیم پر کاربند ہوجائیں تو مذاہب کی ”تمام نزاعات“ ختم ہوجائیں گی۔ہر گروہ دیکھ لے گا کہ ” اُس کی راہ“ بھی اصلاََ وہی ہے جو اور ”تمام گروہوں“ کی راہ ہے۔قرآن کہتا ہے ,تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ حقیقت ”الدین “ہے۔۔۔“(تفسیر سورہ فاتحہ)

اس سے قبل فروری 1920میں(یعنی گاندھی جی س اہنی ملاقات کے ٹھیک ایک مہنے بعد) ابوالکلام نےاپنی ایک تقریر میں یہ پُر اسرار جملے کہے تھے:

”دنیا کے تمام نزاعات اوراختلافات کی ایک سب سے بڑی علت حقیقت کی وحدت اور اسماء و مصطلحات کی کثرت ہے۔طلبِ صداقت کےاکثر جھگڑے حکایتِ شہد وعسل سے زیادہ نہیں۔یعنی سچائی ہر جگہ اور ہر گوشہ عمل میں حقیقت اور مسمیٰ کے اعتبار سے ایک ہی ہے ,لیکن بھیس مختلف ہوگیۓ ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ دنیا معانی کی جگہ لفظوں کی پرستش کرتی ہے۔اور گو سب طلب گار و پرستار ایک ہی حقیقت کے ہیں لیکن محض ناموں کے اختلاف کی وجہ سے باہم دیگر لڑ رہے ہیں۔۔۔اگر کبھی ہوسکے کہ ظواہر واسماء کے تمام پردے اٹھادیۓ جاٸیں اور حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجاۓ تو یکایک دنیا کے تمام نزاعات ختم ہوجاٸیں اور تمام لڑنے والے دیکھ لیں کہ سب کا مطلوب ایک ہی ہے اگرچہ بھیس مختلف ہیں اور سب کا مقصود ایک ہی ہے اگرچہ نام مختلف ہیں۔۔“

وحدت ادیان پرگفتگو کرتے ہوۓ ایک دوسری جگہ وہ فرماتے ہیں :
”وہ وقت اب دور نہیں جب عالمِ انسانیت مذاہبِ عالم کے اختلافات سے اُکتا کر مجبور ہوجاۓ گی کہ یا تو یک قلم مذہب ترک کردے یا تمام مذہبی صداقتوں کو جمع کردے۔میرا یقین ہے کہ جمیعتِ انسانی مذہب ترک نہیں کرسکتی۔اسلیۓ ناگزیر ہے کہ دوسرا طریقہ اختیار کرے۔(یعنی تمام مذہبی صداقتوں کو جمع کرنے کاراستہ اختیار کرے )“۔
(سنِ تحریر1927 ,مشمولہ تصریحاتِ آزاد,صفحہ 95 )

مولانا آزاد مزید فرماتے ہیں:
”مذاہبِ عالم کا مشترکہ حق دنیا کی عالمگیر وجدانی صداقت ہے۔“
(ایضا“ ,صفحہ 94)

یہ قول کہ ”مذاہب عالم کا مشترکہ حق دنیا کی عالمگیر وجدانی صداقت ہے“ بہت اہم ہے۔اس میں ترکیب ”مذاہب عالم کا مشترکہ حق“ توجہ طلب ہے۔۔دوسرا لفظ ”عالمگیر“بھی اہم ہے یعنی ازلی وابدی آفاقی صداقت ۔۔۔۔۔۔تیسری ترکیب ”وجدانی صداقت“ بھی اہم ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دین(توحید و اخلاقیات) اصلا“ کتابوں میں نہیں بلکہ انسانوں میں وجدانی طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔۔۔
خلاصہ بحث یہ کہ ابوالکلام کا موقف ہے کہ

١۔مذاہب عالم کا ظاہر(یعنی شریعت ومنہج) خواہ کتنا ہی مختلف ہولیکن ان کا باطن دیکھا جاۓ تو یکساں ہی نکلے گا
٢۔مذاہب عالم کی مشترکہ تعلیمات(جو کہ توحید واخلاقیات ہیں) اصلاََانسانوں کے ”وجدان میں ودیعت “ کی گئیں ہیں۔اس لیۓ وہ لکھتے ہیں:

”اسلام ایک صداقت ہے اور اس لیۓ دنیا میں اس وقت سے موجود ہے جس وقت سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں صداقت کا وجود ہے“
ابوالکلام آزاد,مضامین الہلال ,صفحہ 147

بعض دوسری جگہوں پر انہوں نے لکھاہے کہ

١۔”سچائی“ خوا وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ,خداٸ ہو یا انسانی ,ایک ہی ہے کہ ایک سے زیادہ سچاٸیاں ہونہیں سکتیں۔ان کے نزدیک ایسا ممکن نہیں کہ دس متضاد باتیں ہوں اور سب بیک وقت ایک جیسی سطح کا سچ ہوں۔لہذا سچائی ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔

٢۔سچائی ازلی وابدی ,عالمگیر اور آفاقی ہے۔

٣۔سچائی اصلاََ وجدانی ہے یعنی ہر انسان کے اندر ودیعت کردی گٸ ہے۔اور ثانیاََاللہ نے نبیوں کے زریعہ اس سچاٸ کی یاد دہانی کرائی ہے۔

٤۔اس سچائی کا وارث کوئی ایک فرد ,قوم یا مذہب نہیں ہے۔بلکہ سب اس سچائی کے وارث ہیں۔ ابوالکلام ہی کا قول ہے”دنیا میں طلبِ صداقت (یعنی طلبِ حق)کےاکثر جھگڑے حکایت شہد وعسل سے زیادہ نہیں۔۔۔یعنی سچائی ہر جگہ اور ہر گوشہ عمل میں حقیقت اور مسمیٰ کے اعتبار سے ایک ہی ہے ,لیکن بھیس مختلف ہوگیۓ ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ دنیا معانی کی جگہ لفظوں کی پرستش کرتی ہے۔اور گو سب طلب گار و پرستار ایک ہی حقیقت کے ہیں لیکن محض ناموں کے اختلاف کی وجہ سے باہم دیگر لڑ رہے ہیں۔۔۔اگر کبھی ہوسکے کہ ظواہر واسماء کے تمام پردے اٹھادیۓ جاٸیں اور حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجاۓ تو یکایک دنیا کے تمام نزاعات ختم ہوجائیں اور تمام لڑنے والے دیکھ لیں کہ سب کا مطلوب ایک ہی ہے اگرچہ بھیس مختلف ہیں اور سب کا مقصود ایک ہی ہے اگرچہ نام مختلف ہیں۔۔“

٥۔اس ازلی و ابدی ,عالمگیر و آفاقی واحد وجدانی صداقت وسچائی کا نام عربی زبان میں ”اسلام “ رکھا گیا ہے ,دنیا کی دیگر زبانوں میں یہ مختلف ناموں سے موسوم کی جاتی رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں