Home » نصاب سازی اور اس کے جدید تقاضے
تعلیم و تعلم مدارس اور تعلیم

نصاب سازی اور اس کے جدید تقاضے

تعلیم و تعلم کے میدان میں نصاب کا معاملہ بہت اہم ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے بھی پہلے نصاب آتا ہے، پھر نظام۔ لیکن نصاب کا معاملہ ہماری دینی تعلیم روایت میں جس خود اہمیت رکھتا ہے ہم اسی قدر اس کے معاملے میں بے پرواہ بھی ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ نصاب کی باتیں ہمارے ہاں بہت ہوتی ہیں، مشورے بھی دیے جاتے ہیں، کمیٹیاں بھی بنتی ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ نصاب کو بہ طور فن سمجھنے والے اور اس پر رائے زنی کرنے والے حضرات کی تعداد ہمارے ہاں اس قدر بھی نہیں کہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر انہیں شمار کیا جا سکے۔

نصاب سازی کے لیے تین چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں:

الف: سب سے پہلے اس فن سے واقفیت، جس کا نصاب مدون کرنا مطلوب ہے۔

ب: دوسرے اس متعلقہ فن کی تاریخ اور ارتقا سے واقفیت، اس میں اس فن کی اہم کتب اور ان کے مناہج بھی شامل ہیں۔

ج:اور تیسرے خود فن نصاب سازی سے واقفیت.

ہماری مشکل یہ ہے کہ اگر ہم درس نظامی کے حوالے سے نصاب پر بات کرنا چاہیں تو ہر مدرس اور ہر خطیب کو یہ حق دے دیتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کریں، جب کہ وہ حضرات عین ممکن ہے کہ کسی ایک فن کے حوالے سے کچھ مہارت رکھتے ہوں یا تدریس پر ان کی غیر معمولی گرفت ہو،لیکن اگر وہ اس فن کی دیگر کتب سے اور خاص طور پر اس فن کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، تو پھر ان کی رائے کسی صورت بھی معتبر نہیں ہوگی، بل کہ ان کی صرف کسی فن کی تاریخ اور اس کے ارتقا سے واقفیت بھی کافی نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ خود فن نصاب سازی سے بنیادی ابتدائی واقفیت نہ رکھتے ہوں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی عصبیت وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر یہ مزید پختہ ہوتی چلی جا رہی ہے کہ اگر کوئی شخص درس نظامی کے پورے ماحول سے واقفیت کے باوجود بھی سر دست کسی مدرسے سے بہ راہ راست منسلک نہیں ہے، تو اسے مدارس کے نصاب اور نظام کے معاملے میں رائے زنی کا حق نہیں دیا جا سکتا،حال آں کہ اس مقصد کے لیے جہاں تدریس کی اپنی اہمیت ہے، وہاں اصل میں فن سے واقفیت لازم ہے، یعنی کوئی شخص اگر فقہ کا نصاب مرتب کرنا چاہتا ہے، تو اول اول یہ دیکھنا ہم پر لازم ہوگا کہ فقیہات کے پورے ذخیرے اور تراث پر وہ شخص کتنی گہری نظر رکھتا ہے۔ محض درس نظامی میں موجود کتبِ فقہ سے واقفیت اور ان کی تدریس اس مقصد کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ ہاں تدریس کے لیے اس قدر مہارت کافی ہے۔

ہمارے ہاں خاص طور پر دو مزید پہلو کسی بھی سطح کے نصاب سازی میں پیش نظر رہنے چاہییں:

۱۔ سب سے پہلے وہ علوم اور فنون جن کا تعلق مقصدی علوم سے نہیں ہے، لیکن وہ کسی بھی مطلوب علم کے سیکھنے اور سمجھنے کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں، مثلاً صرف اور نحو،یا اس نوعیت کا کوئی اور فن لے لیجیے، ایسے تمام علوم و فنون میں مقصود کتاب نہیں بل کہ کتاب میں موجود وہ فن ہے،اور آج کی دنیا نے ان فنون کو سکھانے کے لیے غیر معمولی تجربات کے بعد بہت سی نئی راہیں تلاش کر لی ہیں، اس لیے اس معاملے میں کسی بھی نوعیت کی کج بحثی یا وہی سو دو سو سال پرانی کتابوں پر اکتفا، نہ عقلاً محمود عمل ہے،نہ اس کا تعلق اکابر پرستی اور اکابر پسندی سے ہی ہو سکتا ہے۔ جن اکابرین نے یہ کتب اپنے اپنے عہد میں نصاب کا حصہ بنائی تھیں،انہوں نے اپنے اپنے عہد میں موجود بہترین آپشنز کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا تھا،ہمارے کرنے کا بھی یہی کام ہے۔اسی وجہ سے ہمارا پورا حسن ظن ہے کہ وہ حیات ہوتے تو وہ بھی آج اس بات کی تائید کرتے کہ اس ضمن میں ہونے والے نئے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہی درست عمل ہے۔

۲۔ دوسرے وہ علوم جو بنیادی اسلامی علوم میں علوم قرآن، علوم حدیث، حدیم فقہ، سیرت وغیرہ، ان علوم میں قدیم ترین کتب ہی بنیادی کتب کہلائیں گی، یہاں حدیث کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا کہ اصولی، بنیادی، اساسی ماخذ کو چھوڑ کر جدید کتب تحریر کی جائیں اور انہیں داخل نصاب کیا جائے۔ ہاں مبتدی طلبہ کے لیے ہر فن کی ایک آدھ آسان کتاب کا انتخاب غلط نہیں ہوگا۔ نصاب سازی کے سلسلے میں ایک اصول ہمیشہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آسان سے مشکل کی طرف نصاب کا سفر ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں، ہمارے استاد محترم جب ہمیں شرح عقائد نسفیہ پڑھا رہے تھے تو انہوں نے ہمیں ابتدا میں کتاب کا نصف اخر شروع کرایا تھا۔ نصف آخر کی تکمیل کے بعد پھر آغاز سے کتاب انہوں نے شروع کی تھی، اور ہمارے استفسار پر یہی کہا تھا کہ اس دوران چوں کہ تم لوگ کتاب سے مانوس ہو چکے ہو گے، اس لیے اب پہلے حصے کو جو قدرے مشکل ہے،تمہارے لیے سمجھنا کسی قدر آسان ہو جائے گا۔ آج ہمیں اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو تین کام کرنے ہوں گے:

الف: سب سے پہلے تو یہ کہ جو بھی فن ابتدا میں پڑھایا جا رہا ہے اس کی تاریخ سے بھی طلبہ کو واقفیت کرائی جائے۔

ب:اس مقصد کے لیے ایسی کتابیں منتخب کی جائیں جو فن کی تاریخ بھی بیان کر سکیں اور اس فن کی بنیادی اصطلاحات کو آسان ترین انداز میں بچوں کے ذہن میں بٹھا سکیں۔اس لیے کہ ابتدائی درجات میں بچوں کی عمر کم ہونے کی وجہ سے صلاحیت بھی اس درجے کے نہیں ہوتی جو منتہی طلبہ کی ہو سکتی ہے، دوسرے اس فن کے بنیادی مصادر استاد کو بھی معلوم ہونے چاہییں، اور پڑھنے والوں کو بھی۔

ج: تیسرے اس فن میں جو بنیادی اہم ترین کتب لکھی جا چکی ہیں،ان میں سے کسی کتاب کا یا کچھ کتابوں کے کچھ حصوں کا انتخاب کر کے ان کی تدریس کروائی جائے۔ مثال کے طور پہ اصول الفقہ میں کئی ایک متون ایسے ہیں، جو ہمارے روایتی مروج متون کے مقابلے میں انتہائی مفید ہو سکتے ہیں، ابتدا میں بھی اور منتہی طلبہ کے لیے بھی، لیکن چوں کہ وہ کبھی نصاب میں شامل نہیں رہے،اور درس نظامی کا حصہ نہیں رہے، اس لیے نہ ہم انہیں جانتے ہیں نہ ان کو پڑھانا ہمارے لیے کسی طور اب ممکن رہا ہے۔

د:اب نصاب کی سطح پر سیرت کی تدریس کی طرف بھی توجہ شروع ہوئی ہے،گو کہ وہ ابتدائی مرحلے میں ہے۔لیکن اس جانب زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ سیرت کی تعلیم محض رسول اللہ صلی اللہ یہ وسلم کی ذات سے تعلق کا اظہار نہیں ہے،بل کہ مطالعہ سیرت خاص قرآن و حدیث اور فقہ و شریعت کی تفہیم کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

ھ: نصاب کے حوالے سے ایک اہم پہلو زبان کا بھی ہے۔ہم اس باب میں بھی تھوڑا سا الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ کسی بھی ادب کے مطالعے حوالے سے دو چیزیں بالکل الگ الگ ہوتی ہیں۔خاص طور پر عربی ادب کی جب ہم بات کریں تو اس کے سلسلے میں ہماری دو بنیادی ضرورتیں اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔

۱۔ عربی زبان میں اس قدر مہارت کہ زبان اور بیان کی باریکیوں کے ساتھ ہم کسی بھی متن کو حل کر سکیں، اور اس میں اتر کر مولف کا ما فی ضمیر سہولت سے جان سکیں۔

۲۔ عربی زبان میں تحریر اور تکلم کی صلاحیت۔ چوں کہ یہ دونوں باتیں الگ الگ ہیں،اور چوں کہ ان دونوں کے مقاصد الگ الگ ہیں، اس لیے ان دونوں کو الگ الگ ہی حاصل کرنا ہوگا، اور نصاب میں ایسی گنجائش رکھنی ہوگی کہ یہ دونوں مقاصد ہمارے نئے طلبہ آسانی اور سہولت سے حاصل کر سکیں۔

و: درس نظامی کے ساتھ مروج تعلیم کے مختلف درجات کو بھی وقف وقفے سے نتھی کیا جاتا ہے، کبھی میٹرک لازمی قرار پاتا ہے تو کبھی ایف اے، ہم چوں کہ ایک زمانے سے جوتے اور پیاز دونوں کی تعداد پوری کرنے کے عادی ہیں، اس لیے ہم اس بارے میں بھی فکری یکسوئی پیدا کیے بغیر محض دباؤ قبول کرتے ہوئے کچھ فیصلے کر لیتے ہیں، لیکن چوں کہ وہ فیصلے اوپر سے مسلط شدہ ہوتے ہیں، اس لیے ہماری اس میں دل چسپی کا عنصر پیدا نہیں ہو پاتا۔اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں ایک خاص سطح تک مروج تعلیم کو اپنے اندر سمونا پڑے گا، چاہے یہ بات آج کسی کو سمجھ میں آئے، چاہے مزید وقت گزرنے کے بعد اس کے لیے ہم آمادگی پیدا کر سکیں، اور یہ بھی بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ اس تعلیم کا آخری درجہ بی اے ہی ہے، چاہے جو کر لیا جائے، ہمیں جانا وہیں تک ہے، اس لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ ہمارے نصاب ساز درس نظامی ہی میں ایسی گنجائش پیدا کریں کہ ہمارے فضلا درس نظامی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بی اے کی لازمی تعلیم سے بھی فراغت حاصل کر سکیں، اس مقصد کے لیے جو چیز بہت اہتمام کے ساتھ پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ بی اے کی سطح کے تمام لازمی اسباق طلبہ باقاعدہ اہتمام سے پڑھ کر اس کی سند حاصل کرنے میں کام یاب ہو سکیں، نہ یہ کہ انہیں ایک مجبوری تصور کرتے ہوئے محض حصول سند کا ایک ذریعہ بنایا جائے۔

جس قدر جلد ہمارے نصاب سازوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے اسی قدر بہتر ہوگا۔

 

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے انچارج اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے نائب مدیر ہیں۔

syed.azizurrahman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں