تعلیم اور تدریس کے حوالے سے ہماری ماضی کی روایت بہت مختلف رہی ہے۔ اس روایت میں نئے آنے والے اساتذہ کو از خود اس بات کا موقع ملتا رہتا تھا کہ وہ حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریس کے مراحل سے آشنا ہوتے جاتے تھے اور بڑے اساتذہ کی سرپرستی میں انہیں باقاعدہ تعلیمی فراغت سے پہلے بھی تدریس کا تجربہ شروع ہو جاتا تھا۔ ایسے میں بڑی دل چسپ قسم کی تفصیلات بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہمارے استاد محترم مولانا مفتی غلام قادر رحمہ اللہ نے اپنے ہی شاگرد کو جب اپنے ادارے میں بہ طور استاد مقرر کیا تو ان کے ذمے یہ لگایا گیا کہ صبح میں طلبہ کو جو سبق پڑھانا ہے وہ شام میں انہیں دکھا لیا کریں، اور سنا دیا کریں۔ اس نوعیت کے طریق کار سے نکلنے والے اساتذہ کو ظاہر ہے کہ الگ سے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر تربیت کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔
لیکن موجودہ صورت حال اور انتہائی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کو باقاعدہ تربیت فراہم کریں۔ ایک وقت تھا کہ یہ لفظ بھی مدارس میں بیرونی سازش کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ بڑے جلیل القدر اساتذہ نے اس پر نقد کیا،اور ان کا نقد بنیادی طور پر ان کے لحاظ سے درست بھی تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمیں اگر الگ سے تدریب المعلمین نوعیت کے کسی تربیتی کیمپ سے گزارنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، تو اب کیوں پیش آ رہی ہے،لیکن شاید ان کی نظر سے یہی حقیقت اوجھل رہی کہ انہیں تو ان کے اساتذہ نے دوران تعلیم ہی تدریس کے آداب سکھا دیے تھے، اور اس کا عملی مظاہرہ بھی اپنے سامنے کر انہیں مطمئن کر دیا تھا، اب یہ ریاضت تو ہمارے نظام کا حصہ نہیں رہی، اس لیے اب اس کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔
مدارس کے لیے تربیت خصوصا اساتذہ کرام کے تربیتی نشستوں کا محدود پیمانے پر اہتمام تو کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن اس پر اصرار کے ساتھ کاوشیں کوئی ۱۵سے ۲۰ برس قبل شروع ہوئی تھیں، اور اتنا وقت گزرنے کے بعد یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ الحمدللہ ان ابتدائی کاوشوں میں چند فیصد سہی لیکن ہمارا حصہ بھی شامل تھا الحمدللہ۔ اس وقت ان کاوشوں کو بہت زیادہ مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ہوتا یوں تھا کہ جو اساتذہ کرام کسی بھی سبب سے غلطی کر کے ان پروگراموں میں تشریف لے آتے تھے تو پھر وہ آگے چل کر اس کے مناد اور نمائندے بن جاتے تھے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا اور آگے بڑھتا چلا گیا، لیکن جیسا کہ عموماً ہوتا آیا ہے، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مختلف شخصیات اور اداروں نے اسی تربیت کو عنوان بنا کر مختلف نوعیتوں کے پروگرام شروع کر دیے،اب الحمدللہ اس میدان میں کافی لوگ سرگرم عمل ہیں، لیکن جیسا کہ ہر معاملے میں ہوتا ہوتا ہے کہ جوں ہی ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو مختلف نوعیتوں کی مصنوعات سامنے آ جاتی ہیں، لیکن کوالٹی کا معاملہ پھر درپیش ضرور رہتا ہے، وہی معاملہ اب ان نوعیتوں کے کورسز میں بھی پیش آرہا ہے، اور یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
چناں چہ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اس نوعیت کے تربیتی پروگرام آن سائٹ منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ آن لائن بھی منعقد ہونے لگے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آن لائن کلاسز کی سہولت نے بہت سے کام آسان کر دیے ہیں اور فاصلاتی طریق تعلیم باقاعدہ ایک منظم اور ایک تسلیم شدہ طریق تعلیم ہے، لیکن یہاں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، کیوں کہ ہم اس تربیت کے لیے ورکشاپ یا تربت گاہ کا عنوان استعمال کرتے ہیں،جس کا مفہوم تقریر نہیں ہے، بہت سے دوست اور احباب یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں کثرت سے ادارے اور شخصیات تربیت کے عنوان پر کام کر رہے ہیں، لیکن ان میں انگلیوں پر گنی جانے والی شخصیات بل کہ صرف دو تین سے زیادہ نہیں ہوں گی اور یہ بھی میں نے بہت محتاط عدد تحریر کیا ہے، جو باقاعدہ تربیت کار کا درجہ رکھتے ہوں، باقی صرف موٹیویشنل اسپیکر ہیں، اور فضائل سنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے تربیت کا حق ادا کر دیا ہے۔ وہ تربیت کی الف نہیں شروع کر پاتے،تر بیت کی ی تک کون پہنچے گا۔
ان حالات میں پھر کیا کیا جائے۔ایسے میں ہم چند تجاویز یا چند ایسے نکات ضرور پیش کر سکتے ہیں، جن کی روشنی میں یہ جانچنا ہر ایک کے لیے آسان ہو جائے گا کہ کیا واقعی یہ پروگرام مفید ہے اور ثمربار ہو سکتا ہے یا یہ محض اٹھک بیٹھک کی ایک شکل ہوگی۔
الف: معیاری تربیتی ورکشاپ کی ایک علامت اس کا skill based ہونا ہے۔motivation based نہیں۔یعنی اس کے نتیجے میں محض جذبات حاصل نہیں ہوتے، بل کہ انسان ہنرمند ہو کر لوٹتا ہے۔
ب: بہ طور استاد انسان کے ذہن میں جو بھی سوالات پیش آتے ہیں ان کے حتمی اور عملی جواب انہیں ان پروگراموں سے میں میسر آتے ہیں۔
ج: ان تربیتی نشستوں میں بچوں کی نفسیات، بچوں کی اقسام، کلاس میں موجود طلبہ کے مختلف درجات، پھر ان درجات کو کیسے علیحدہ علیحدہ کیا جا سکتا ہے، اور ہر ہر درجے کے طلبہ سے کیا کیا رویے اختیار کرنے ضروری ہوتے ہیں۔اگر کسی طالب علم کی کلاس میں دل چسپی کا عنصر کم ہو رہا ہے تو اس کو جانچنے کے کیا طریقے ہیں، اگر کوئی طالب علم انتہائی درجے کا لاپروا ہے تو اس کے مسائل کیا کیا ہو سکتے ہیں، اگر کوئی طالب علم انتہائی شریر اور متحرک مزاج ہے تو اس کے کیا مسائل اور اسباب ہیں اور انہیں کیسے ڈیل کیا جانا چاہیے۔ ان سوالات کے جوابات اگر کسی تربیتی ورکشاپ میں مل رہے ہیں تو وہ تربیتی ورکشاپ باقاعدہ ورکشاپ کا درجہ رکھتی ہے۔
د: تعلیم اور فلسفہ تعلیم میں خاص طور پر اسلام کا نقطہ نظر اگر اس درجے میں سمجھایا جا رہا ہے کہ انسان کے ذہن میں پہلے سے موجود الجھنیں دور ہو رہی ہیں تو واقعی یہ مفید ہے۔
ھ: ورکشاپ کا بڑا حصہ اگر سوالات اور تجربات پر مبنی ہے یا اس میں عملی اقدامات کرائے جا رہے ہیں اور ورکشاپ باقاعدہ ایکشن بیسڈ ہے تو وہ واقعی ورکشاپ ہے۔
و: اگر تربیت گاہ میں واقعی مختلف اسباق اور مضامین پڑھانے کے لیے ضروری عملی ہدایات دی گئی ہیں،اور تقاریر کے علاوہ بھی کچھ نکات اور عملی طریق کار کی رہنمائی ملتی ہے تو وہ تربیت گاہ واقعی مفید اور موثر ہے۔
جب ہم مدارس کے اساتذہ کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں دو تین پہلوؤں کو مزید بھی پیش نظر رکھنا چاہیے، مثلاً:
الف: درس نظامی میں دو نوعیتوں کی کتب شامل ہیں، ایک وہ جن کی حیثیت ابتدائی ضرورتوں کی ہے، اور ایک وہ جو بنیادی طور پر مقصود ہیں۔ دونوں کی تدریس میں یقیناً تیکنیکی اعتبار سے فرق ہوگا۔ یہ فرق کیا ہے اور استاد کو یہ فرق کیسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ب: خاص طور پر صرف اور نحو کی تدریس کے اب جدید طریقے اس قدر سامنے آ چکے ہیں اور تجربات نے انہیں اس قدر موثر پایا ہے کہ اب قدیم انداز کی تدریس بالکل مفید نہیں ہے۔ نہ ہی اس مقصد کے لیے ہماری متداول کتب مفید ہیں، لیکن یہ کتب کی بحث نصاب کا مرحلہ ہے، کتابوں کی تبدیلی کے حوالے سے بات ہم نصاب کے ضمن میں کریں گے۔
ج: جن علوم کے لیے خاص طور پر یہ نصاب تشکیل دیا گیا ہے وہ تو قرآن اور حدیث ہی ہیں، یا پھر ان کے معاون کے طور پر فقہ اور اصول فقہ کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات کہ ان علوم میں بھی پورا نصاب قرآن کریم کے گرد گھومنا چاہیے اور قرآن کریم کو نصاب میں مرکز کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
د: اور قران کریم کی تدریس میں کن کن پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، جن کی وجہ سے ماضی کے ذخیرے سے ہم منسلک ہو سکیں اور ہم یہ جان سکیں کہ اسلامی علوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اب تک ایک ترتیب کے ساتھ مسلسل ارتقا کی صورت اختیار کرتے ہوئے آج ہمارے درمیان موجود ہیں، جن کے درمیان کہیں کوئی ہلکا سا بھی انقطاع نہیں ہے۔
ھ: اسی طرح حدیث کا علم بھی مکمل تاریخ کے ادوار سے منسلک کر کے اور اس کے عملی انطباقی پہلوؤں کو نمایاں کر کے پڑھانا چاہیے۔ حدیث ہو یا تو علوم قرآن یہ زندہ علوم ہیں، یہ محض ماضی میں گزری ہوئی باتیں یا ان کی بازگشت نہیں ہیں، ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔
ز: سب سے اہم مرحلہ فقہ کی تعلیم کا ہے اس میں تین چیزیں بہ یک وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہییں اور یہ تینوں چیزیں تدریس کے ذریعے طلبہ میں منتقل ہونی چاہیں:
۱۔وہ تمام مسائل جو بہ راہ راست منصوص ہیں، جن میں اجتہاد کا کچھ دخل نہیں۔
۲۔ وہ تمام مسائل جو منصوص نہیں لیکن نصوص سے بہ راہ راست مستنبط ہیں۔
۳۔ وقتی اور اتفاقی مسائل، جنہیں کسی بھی دور میں فقہا نے یا اس دور کی حکومتوں نے اپنی انتظامی ضرورت کے تحت متعین کیا تھا۔
ح: ان علوم کی تدریس میں خاص طور پر ان کتب کا تعارف لازم ہے جو ہر ہر فن کے ارتقائی دور کی علامت ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہر فن کی تدریس میں محض نصابی طور پر منتخب کی جانے والی کتاب کی تدریس کے ساتھ ساتھ اس فن کی ابتدا سے لے کر اب تک شائع شدہ اہم کتب کا مختصر تعارف بھی طلبہ کے سامنے اہتمام کے ساتھ پیش کیا جائے۔
اگر کسی بھی تدریب المعلمین نوعیت کی تربیت گاہ میں ان چند پہلوؤں کا اہتمام ہے تو وہ مفید ہے، اگر ان پہلوؤں کو نظر انداز کر کے محض خطابت کے جوہر دکھائے جائیں گے تو وہ تربیت گاہ کسی صورت مفید نہیں ہوگی، اس لیے اگر تربیت گاہوں کا یہ سلسلہ شروع ہو ہی رہا ہے اور اساتذہ کرام کو تربیت دینے کے لیے ہم آمادہ ہو ہی گئے ہیں تو ایسے تجربہ کار افراد سے استفادہ کرنا زیادہ بہتر ہے، جو اس شعبے میں ایک عرصے سے مصروف ہوں، بل کہ اس سے بھی بڑھ کر ایسے ماسٹر ٹرینرز کی تیاری بھی ضروری ہے، جو اس سلسلے کو آگے بھی بڑھا سکیں اور ملک بھر میں اسے پھیلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
کمنت کیجے