Home » نظمِ قران، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب شخصیات وافکار کلام

نظمِ قران، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت

جہانگیر حنیف

نظمِ قرآن، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت کا نظریہ ایک ہی پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ وہ پراجیکٹ قرآن مجید کے متن کو ایک نئی ہرمیونیٹکس دینا ہے۔ یہ خیال اس احساس سے پیدا ہوا کہ روایتی اور مروج و متداول اصولِ تفسیر قرآن مجید میں اپنی بنیاد نہیں رکھتے۔ ان کا اطلاق قرآن مجید پر کیا جاتا ہے؛ حالانکہ ان کی دریافت میں قرآن مجید کا کوئی کردار نہیں۔ فنی زبان میں اِسے کہا جائے گا کہ یہ اصولِ تفسیر منصوص نہیں۔ قطع نظر اس سے یہ خیال اپنی جگہ درست ہے اور اس کے پیدا ہونے کی قرآنی وجوہات ہیں یا زمانے کے بدلے ہوئے حالات۔ اس پراجیکٹ کے حاملین اس کا یہ rationale دیتے ہیں کہ قرآن شریف کو سمجھنے کے لیے قرآنی زاویۂ نگاہ کی دریافت ضروری ہے۔ ان کی نظر میں دورِ اول جسے بہت درست معنوں میں دورِ تدوین کہنا چاہیے، یہ گڑبڑ اسی دور میں واقع ہوگئی تھی۔ یونانی فلسفہ کی یلغار، رومی و ایرانی قوتوں (foreign elements) کا متحرک ہوجانا اور ضرورت سے بڑھا ہوا حدیث و روایت سےاشتغال قرآن مجید کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ بنا۔ قرآن مجید متن کی حیثیت میں موجود تھا، مگر معنی غائب تھے۔ معنی یونانی فلسفہ اور رومی و ایرانی تہذیب کے دباؤ میں بننے والے تصورات سے تشکیل پاتے تھے۔ لہذا قرآن مجید نظر انداز ہوگیا۔ دب گیا۔ مغلوب ہوگیا۔ دنیائے علم پر آسمانی ہدایت کی بجائے مغربی فلسفہ اور تصوف کی حکومت تھی۔اصولی و نظری علوم کی نشست پر سقراط و افلاطون براجمان تھے۔ ایمان و اخلاق کلامی مباحث کی نذر ہوگئے۔ فلاطینںوس مسلم معاشرے میں وحدت الوجود کے گمراہ ترین نظریات کے نفوذ کی وجہ بنا۔

علاوہ ازیں امت میں فکری و عملی انتشار اور تفرقہ بازی کو فروغ ملا۔ ہر ایک نے اپنی اپنی فقہ ایجاد کرلی اور اس پر جم کر ایک دوسرے کی تکذیب و تضلیل کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا۔ دین اپنی اصلی و عملی شکل میں امت میں جاری و ساری رہا۔ لیکن اپنی اصولی و اساسی جہات سے کاٹ دیا گیا۔ علم کی دنیا میں اصولِ دین کی بجائے فقہ نے پرچم گھاڑ دیے۔ یہ وہی فقہ تھی جس کی تنظیم و تہذیب میں متکلمین نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ آئمہ اربعہ تک شاید قرآن و سنت کا امتیاز قائم تھا۔ پھر حدیث کے غلبہ اور دوسری وجوہات کی بنا پر دین کے اصلی ماخذ یعنی قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ حدیث، قیاس اور اجماع وغیرہ کو ماخذ شمار کیا جانے لگا۔ ان کے نزدیک اس ساری صورتحال کی بنیادی ترین وجہ علمائے امت کی قرآن مجید سے روگردانی تھی۔ کہیں کہیں روشنی کے کمزور دیے ٹمٹماتے دکھائی دیتے۔ لیکن غیر موافق ہواؤں کا زور اس قدر تھا کہ وہ بے چارے دو چار منٹ جلتے اور پھر بجھ جاتے۔

مدرسۂ فراہی کے بانی حمید الدین فراہی صاحب نے اس پراجیکٹ کی تکمیل کا بیڑہ اٹھایا۔ انھوں نے قرآن مجید کو قرآن مجید سے سمجھنے کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ ایک جانب انھوں نے اس کام کی نظری و اساسی اہمیت و ضرورت پر کلام کیا اور وہ اصول وضع کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں قرآن مجید کو محض قرآن مجید سے سمجھنا ممکن ہوسکے اور باقی وسائل جن میں حدیث و اجماع وغیرہ کو کافی اہمیت دی جاتی تھی، ان سے چھٹکارا حاصل ہو۔ دوسری جانب انھوں نے اپنے دریافت کردہ تفسیری اصولوں کی بنیاد پر قرآن مجید کی تفسیر کا کام بھی شروع کردیا۔ اسے انھوں نے “نظام القرآن و تاویل الفرقان بالفرقان” کا عنوان دیا۔ یہ عنوان ان کے علمی و تفسیری مقاصد پر خود حجت ہے۔ ان کے بعد ان کے شاگرد رشید مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے “تدبر قرآن” کی صورت میں ان اصولوں کے اطلاق کو بعض لوگوں کے بقول مجسم اور مشہود کردیا۔ پھر جناب غامدی صاحب نے ان اصولوں میں کچھ ترمیم و اضافہ کے بعد قبول کیا اور پھر “البیان” کی شکل میں انھیں مزید مجسم اور مشہود کردیا۔ آج ان کے تلامذہ ان تفاسیر کو نظمِ قرآن کے نظریہ کی صحت کے مبحث میں قطعی دلیل سمجھتے ہیں۔

لہذا بزعمِ خویش یہ پروجیکٹ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اب اس کی شرح و وضاحت کا کام ہونا باقی ہے۔ باعتبار اصل اس میں کسی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غامدی صاحب کے ادارے المورد علم و تحقیق جس کا منشور علم کا فروغ اور علماء کی سرپرستی تھی بدل دیا گیا۔ اس کی جگہ غامدی سینٹر آف لرننگ کو امریکہ میں قائم کیا گیا۔ تمام اوریجنل نوعیت کے علمی کاموں اور علمی فکر کو اس ادارے کے مقاصد سے دور رکھا گیا اور حتمی طور پر یہ متعین ہوگیا کہ اب غامدی صاحب کے کام پر محض حواشی اور شرح و وضاحت کے کام کو فنڈ کیا جائے گا۔ لہذا زمامِ کار علماء کی جگہ اعلی درجہ کے حاشیہ نگار اور شارحین کے سپرد کی گئی۔ یہ پراجیکٹ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پورے دین سے متلعق تھا۔ جس کے بارے میں جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں:

“یہ پورے دین کا بیان ہے۔ اسے فرقہ وارانہ تعصبات اور فلسفہ و تصوف کی ہر آمیزش سے بالکل الگ کرکے بے کم و کاست اور خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ ”

غامدی صاحب واضح لفظوں میں پورے دین کی تصریح فرماتے ہیں۔ پورے دین کو فلسفہ و تصوف سے درپیش چیلنج یعنی آمیزش کا ذکر فرماتے ہیں۔ یعنی دین اپنی اصلی حالت میں دوبارہ دریافت ہونا تھا اور یہ کام غامدی صاحب کا بنیادی مشن تھا۔ جو بالآخر مکمل ہوا۔ پھر آخر میں بتاتے ہیں کہ انھوں نے فلسفہ کو ایک سائیڈ پر رکھ پر اور تصوف کو دوسری سائیڈ پر رکھ کر محض قرآن و سنت کی بنیاد پر دین کو سمجھا اور بیان کردیا۔ سنت کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے کیونکہ غامدی صاحب سنت کو ایک خاص الخاص معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ اس سے مراد وہ سنن ہیں، جو انھی کے بیان کردہ سات اصولوں پر پوری اترتی ہیں۔ یہ اصول بھی ترمیم کا موضوع رہے ہیں اور ان کے اطلاق سے حاصل ہونے والی سنن کی فہرست میں بھی رد و بدل رہا ہے۔ مثلاً ایک وقت تھا جب مردار اور خون نظمِ قرآن کے تحت قرآن کا حکم تھا۔ پھر ان اصولوں کی روشنی میں وہ سنت کا حصہ بن گیا۔ اسی طرح نومولود کے کان میں اذان دینا ان اصولوں پر پورا اترتا تھا۔ پھر ایک تلمیذ کی ریسرچ سے معلوم ہوا کہ وہ قطعی نہیں، ظنی ہے۔ لہذا اسے سنن کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ یہ سنت پہلے قطعی تھی، پھر ظنی بن گئی۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ اگر آپ کی قطعیات میں ظنیات اس طرح داخل اور خارج ہیں، تو “دین محض اسی دائرے میں محصور ہے”، کے الفاظ کچھ نرم کرلیجیۓ۔ شاید حدیث شریف کے مقام کی تفھیم میں یہ نرمی تمھید بن جائے۔

چناچہ اس پراجیکٹ کے تحت قرآن مجید کو نئے اصولِ تفسیر فراہم کیے گئے۔ ان اصولوں کو جن ستونوں پر کھڑا کیا گیا، وہ یہ تین ہیں۔ نظمِ قرآن، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت۔ روایت و حدیث کے انکار اور اس سے روگردانی کے بعد قرآن مجید کے فہم کو حاصل کرنے کا رستہ ان اصولوں سے نکالا گیا۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن مجید کے متن کو خود مکتفی کیا جائے: تاویل الفرقان بالفرقان۔ یہ باور کروایا جائے کہ قرآن مجید اپنے معنی کی ادائیگی میں اپنے نظم، سیاق و سباق اور لفظوں کی دلالت پر منحصر ہے۔ اسے اپنے علاوہ کسی غیر کی ضرورت نہیں۔ یعنی روایت و حدیث جو خود قرآن
مجید کے سائے تلے پروان چڑھی، وہ قرآن مجید کا غیر ٹہری اور اسے الگ رکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ دورِ اول سے رائج اصول تفسیر غیر متعلق (irrelevant) کیوں محسوس ہوئے اور بالخصوص یہ واقعہ بیسیویں صدی کے اوائل میں کیوں پیش آیا، اہم سوال ہے۔ اس سے مراد ان حالات کا موضوعی و معروضی مطالعہ ہے، جس کے تحت برصغیر پاک و ہند میں وہ لوگ سامنے آئے، جنہوں نے دین کے اولین مآخذ اور ان کے علمی و اصولی دروبست کو فکر و نظر کا ازسرِنو ہدف بنایا۔ صدیوں اس پر بات اجماع رہا کہ دین کے باب میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور یہ کہ سنت کی دو اقسام ہیں، خبر کافہ عن کافہ اور خبر واحد۔ یہ مجموعی اتفاق دورِ اول ہی میں مشہود و مجسم تھا۔ وہ لوگ جو آپس میں دین کے فقہی اصولوں میں مختلف فیہ تھے، وہ بھی اس اتفاق کی فضا میں ایک دوسرے سے ہم کلام ہوئے۔ بلکہ جہاں کہیں انھیں اپنے مخالف کا موقف اس اتفاق کے سایہ سے بھی ہٹتا ہوا دکھائی دیا، تو اس کی سرزنش کے لیے محض اس اتفاق کی جانب اشارہ کافی دلیل سمجھا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام شافعی اختلاف الحدیث میں اپنے مخاطبین کو محض یہ بتانا کافی سمجھتے تھے کہ ان کا موقف خوارج کے مذہب سے ملتا جلتا ہے، جو تشویش ناک بات ہے۔ وہ کوئی دوسری دلیل دینا بھی مناسب نہیں گردانتے تھے۔

یہ اصول قرآن مجید کو خود مکتفی کرنے کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ مغربی فلسفہ کے انکار اور اسے ایک سائیڈ پر رکھ کر مدرسۂ فراہی نے اپنا فلسفہ تشکیل دیا۔ قرآن مجید کے ضمن میں نظم کے تصور کو وضع کیا گیا۔ نظم کا تصور اپنی اساس میں متن کے دروبست، اس کے باہمی ربط اور اس ترتیب و مناسبت سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ اس میں متکلم، زمانے کے حالات، مخاطبین کی رعایت اور شان نزول کو جزوِ لاینفک تصور کیا جاتا تھا۔ چونکہ ان امور کا تعلق روایت و حدیث سے تھا اور پیش نظر روایت و حدیث سے آزاد حالت میں قرآن مجید کی تفھیم تھی، لہذا ان امور کو ترک کیا گیا یا قرآن مجید ہی سے اخذ کرنے کی شرط کے تحت رکھا گیا۔ یعنی جو قرآن مجید کے الفاظ سے سمجھ آتا ہے، اسے قبول کرو اور باقی سے کنارہ کشی اختیار کرو۔ یہ محض نظم کا تصور نہیں تھا۔ یہ قرآن مجید میں ایک نظام کی دریافت تھی۔ ایک پیچیدہ اور تہ دار نظام۔ جس کی کوئی نظیر نہ پہلے کسی آسمانی کتاب میں ملتی ہے اور نہ انسانوں کے کلام میں اس قبیل کی کوئی چیز پیش کی جاسکتی ہے۔ نظم کے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے نظام کو قرآن مجید میں متعارف کروایا گیا۔ یہ محض نظم کے فلسفہ کی glorification تھی۔

اس تصور کی پذیرائی کے لیے ایسے جملہ (punch statements) وضع کرکے عوام الناس کو پھیلائی گئی کہ نظم کو مانو گے، تو قرآن مجید کا مفہوم کھلے گا۔ دلالت کو قطعی مانو گے، تو عقل مند ہوگے، ورنہ جاہلوں کا ایک ٹولہ۔ یعنی جو لوگ قرآن مجید کو قطعی دلالت کا حامل نہیں سمجھتے، وہ اسے تاویل کا تختۂ مشق بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک ابلاغ لایعنی چیز ہے۔ وہ معنی کے تعیین میں شکوک پیدا کرتے ہیں۔ وہ فسطائیت پھیلاتے ہیں۔ میزان کے ادعیٰ ایک طرف اور عوام الناس میں ایک planned اسلوب میں کیا جانے والا پروپیگنڈا دوسری طرف۔ اس چیز نے علمی رویوں اور اسلاف کے ساتھ ہمارے تعلق کو جتنا نقصان پہنچایا، شاید ہی کسی دوسری چیز نے پہنچایا ہو۔ نظمِ قرآن کا تصور یا زیادہ مناسب اصطلاح میں نظامِ قرآن کے فلسفہ نے مغربی فلسفہ کے زیر سایہ بننے والے اصولِ تفسیر کی جگہ لے لی۔ اس کی سند قرآن مجید سے مل گئی۔ مثانی کو قرآن مجید کے سورتوں کے جوڑا جوڑا ہونے سے جوڑا گیا۔ سبع کو سات گروپس کے ساتھ متعلق کردیا گیا۔ اپنی دریافت میں یہ گروپس نو تھے، لیکن نو کے لیے کوئی نص فراہم نہیں ہو سکی۔ لہذا سات کا انتخاب زیادہ موزوں تھا۔ اگر گروپس کی یہ دریافت اپنی اصل میں قرآن مجید سے ماخوذ تھی، تو اسے نص سے نظام کی جانب جانا چاہیے تھا۔ پھر یہ نو گروپس کبھی سامنے نہ آتے۔ یہ نو گروپس نص کی دریافت سے پہلے دریافت ہو چکے تھے۔ ہمارے استاذ نادر صاحب نے جب یہ فرمایا کہ قاری کلام میں خود کو read کرتا ہے، تو ان کی یہی مراد تھی۔ بسا اوقات قاری loaded ذہن کے ساتھ کلام کی جانب رجوع کرتا ہے، تب کلام اس کے لیے آئینہ بن جاتا ہے۔ اسے اپنا ذہن کلام میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ روایت اس loaded ذہن کا توڑ فراہم کرتی ہے۔ یا الوالابصار۔ آپ نے روایت کا انکار کردیا۔ آپ کے ذہن کی ہر تشکیل، اب قرآن مجید سے تصویب حاصل کرتی دکھائی دے گی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ غامدی صاحب نے سنت متواترہ کو باقاعدہ مان لیا۔ ورنہ جتنے مسائل پیدا ہوتے، ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
۔
چناچہ نص مل گئی۔ نظم کا تصور قرآن مجید سے تصویب پاگیا۔ اب قرآن مجید قرآنی اصولِ تفسیر کے تحت قابلِ فہم ہوگیا۔ نظام کی یہ دریافت ایک تہلکہ خیز انکشاف تھا۔ لیکن ابھی اسے کچھ ترمیمات سے گزرنا تھا۔ غامدی صاحب کے نظریۂ سرگزشتِ انذار کے ماتحت ہونا تھا۔ یہ ایک دوسرا تہلکہ مچا دینے والا انکشاف تھا۔ اس تصور نے نظم و نظام کے پورے تصور کو ایک دوسرے پاورفل میٹا نریٹو کی تحویل میں دے دیا۔ وہ یہ تھا کہ کلام اپنی ساخت میں خاص اور مقید ہے۔ اب اسے عام اور ممتد ہونا ہے۔ روایت میں دلیل تخصیص کی مانگی جاتی تھی۔ غامدی صاحب نے اس ایکویشن کو 180 ڈگری الٹ دیا۔ انھوں نے موقف اختیار کیا کہ قرآن مجید کا متن اپنی بناوٹ میں خاص ہے۔ تعمیم کی دلیل لاؤ۔ اس کی نصوص وافر مقدار میں قرآن مجید میں دریافت ہوگئی۔ رسولوں کے باب میں خدا کی نصرت پر ہمارے اسلاف بھی مطلع تھے۔ مگر روایت انھیں دین کے عمومی غلبہ کو محض دور رسالت تک محدود کرنے کی سوچ میں بھی مانع تھی۔ لیکن یہاں یہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ مسئلہ دور جدید سے ہم آہنگی کے ایسے اسالیب کی دریافت تھی جس میں دین کی گنجائش پیدا ہو اور خارجی حالات میں کسی بھی رد و بدل کی ضرورت سے، ضمیر کی کسی ملامت کے بغیر، انسان ذہنی اور عملی طور پر دستبردار ہو جائے۔ جناب غامدی صاحب اکثر فرماتے تھے کہ اہل اسلام کو بالکل اس وقت زیرہ پوائنٹ پر کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر شریعت محض لنگوٹ باندھنے کا حکم دیتی ہے، تو بس یہی۔ شریعت کے باب میں بالکل اس کے کم سے کم پر کھڑے ہو جاؤ۔

تاویلِ واحد کو خواہ مخواہ متن پر نافذ کیا گیا۔ یہ تحدید متن کے ساتھ ساتھ متکلم پر بھی عائد کردی گئی۔ اگر
متکلم معانی کے احتمال کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلام فرماتا ہے، تو بھی اسے واحد احتمال تک محدود کیا جائے گا۔ قولِ فیصل متکلم اور اس کا کلام نہیں۔ بلکہ پہلے سے طہ شدہ تصورِ تاویل ہے۔ تاویلِ واحد بھی نظم کی طرح قرآن مجید سے ماخوذ ہونے کی بجائے، اس پر حاکم بن گیا۔ تاویلِ واحد نے قطعی دلالت کی راہ ہموار کی۔ اگر تاویل واحد ہوتی ہے، تو لفظوں کو اس پر قطعی دلالت کرنی چاہیے۔ بلکہ قطعی دلالت کی شرط ہی تاویلِ واحد ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ تاویلات کا احتمال، دلالت کی قطعیت کی نفی کرتا ہے۔ اور اگر دلالت قطعی ہے، تو قرآن مجید خود منحصر اور روایت و حدیث کی مدد کے بغیر بھی درست معنی منتقل کرتا ہے۔ قرآن مجید کے روایتی اور مروج و متداول اصولِ تفسیر مغربی فلسفہ اور متکلمانہ و متصوفانہ روایت سے اخذ کیے گئے ہونگے، لیکن مدرسۂ فراہی کے اصول تفسیر میں دور جدید سے مطابقت اور کامل ہم آہنگی کے داعیات کا کوئی دخل نہیں۔ روایت نے فلسفہ و تصوف کی دین میں آمیزش کی۔ غامدی صاحب کی فکر میں کسی بھی طرح کی بیرونی آمیزش محال ہے۔ روایت اگر مغربی فلسفہ و تصوف پر قائم ہے، تو مدرسۂ فراہی کن بنیادوں پر استوار ہے۔ اس کی چھان پھٹک ضروری ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں