Home » کلام اللہ اور متبادل انسانی کلام
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب کلام

کلام اللہ اور متبادل انسانی کلام

ڈاکٹر خضر یسین

“کلام اللہ” کا متبادل “انسانی کلام” کی شکل میں ممکن ھے یا نہیں ھے؟ بالفاظ دیگر قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور خلاصہ ممکن ھے یا نہیں ھے؟

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ “متبادل کلام” an alternative expression اور “جدید کلام” a new expression میں کیا فرق ھے؟

عربی زبان میں “تبادل” ہمیشہ “وحدة ما” اور “مغائرة ما” پر مشتمل ھوتا ھے۔ جس کا مطلب ھے کہ کچھ باتوں میں متبادل کلام مشترک ھوتا ھے اور کچھ میں غیرمشترک ھے۔ “من کل الوجوه” وحدت، کلام کو عین بنا دیتی ھے اور “من کل الوجوہ” مغائرت، اسے جدید بنا دیتی ھے۔ عینیت، جدیدیت اور تبادل کا فرق پیش نظر رکھیں تو بہت ساری الجھنیں ختم ھو جائیں گی۔

“کلام اللہ” کا ترجمہ و تفسیر اور خلاصہ، درحقیقت “کلام اللہ” سے “انسانی کلام” کی طرف ہبوط کا نتیجہ ھوتا ھے۔ ھم اس ہبوط کو ممکن نہیں مانتے اور نہ اسے جائز مانتے ہیں۔ یہاں امکان سے “ایمانی امکان” مراد ھے اور عقلی یا نظری امکان، “ایمانی امکان” کے تابع ھے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ ھم یہاں اصلا ایمانی امکان مراد لیتے ہیں اور عقلی امکان یا نظری امکان کو ایمانی امکان کے تابع مانتے ہیں۔ عقلی اور نظری امکان یہاں مستقل بالذات فضیلت intrinsic value نہیں ھے۔

اگر کوئی صاحب اس ہبوط کو نہیں مانتا یا اسے خاطر میں نہیں لاتا تو اس کے اور ہمارے مابین “مقدماتی اشتراک” نہیں ھے۔ بحث و تمحیص میں اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کرے۔

قرآن مجید کی “الوہی عظمت” نظرانداز کی جا سکتی ھے اور مذکورة الصدر ہبوط کو غیراہم بنایا جا سکتا یا اس “حنث عظیم” کے بدلے میں کسی نوع کا “دنیوی مفاد” immediate advantage کو زیادہ اہمیت دی جا سکتی مگر یاد رھے کہ اس کی قیمت “ایمان باللہ” کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ھے۔

بعض عقل مند کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی الوہی عظمت کی قرآن مجید سے دلیل پیش کی جائے۔ عقل مندو؛ قرآن مجید کی الوہی عظمت، قرآن مجید کے سند ھونے سے قبل متحقق ھے۔ قرآن مجید الوہیت کی وجہ سند ھے۔

مان لیا کہ قرآن مجید کا ترجمہ، تفسیر، اور خلاصہ اور کچھ نہیں ھے، بس قرآن مجید کے معنی کا آسان اور عام فہم بیان ھے۔ لیکن میرے ہاتھ میں ایک کتاب پکڑا کر کوئی کہہ دے کہ یہ قرآن مجید کے معنی کا آسان اور عام فہم بیان ھے تو کیا میں آنکھیں بند کر کے اسے قبول کر لوں؟ یا مجھ پر لازم ھے کہ پہلے یقین حاصل کروں؛ آیا یہ قرآن مجید کے واقعتا معنی کا آسان بیان ھے یا کچھ اور ھے؟

میرے پاس وہ کونسا معیار ھے جس سے مجھے یقین حاصل ھو سکتا ھے کہ تفہیم القرآن، بیان القرآن، معارف القرآن اور عرفان القرآن، المیزان وغیرہ میں اور قرآن مجید میں ایک ہی بات بیان ھوئی ھے؟ ان تراجم، تفاسیر اور خلاصوں اور قرآن مجید میں بس انداز اور اسلوب کا فرق ھے؟ نیز کیا یہ یقین بھی مجھے مل سکتا ھے کہ مترجم، مفسر اور ملخص نے اپنی طرف سے اپنے اپنے علمی حاصلات میں اپنی طرف سے کوئی ترمیم و توسیع نہیں ڈالی؟

یہ پیمانہ یا معیار، اگر میرے پاس آ جائے تو میں گمراہ کن تراجم، تفاسیر اور خلاصوں کے پڑھنے سے اپنی جان چھڑا سکتا ھوں اور قرآن مجید پڑھنے سمجھنے کے لئے عربی زبان سیکھنے کی تکلیف سے بچ سکتا ھوں۔ نیز فرقہ پرستی کے تحت لکھے جانے والے تراجم، تفاسیر اور خلاصوں سے بھی اپنی گلو خلاصی حاصل کر سکتا ھوں۔

وہ معیار ایسا ھونا چاھئے جو ہر طرح کے گروہی تعصب اور مسلکی وابستگی سے بالاتر ھو تاکہ صرف رسالات اللہ یعنی کتاب و سنت تک میری رسائی کو یقینی بنا سکے۔

یہ معیار میری علمی اور ایمانی دونوں ضرورتوں کو پورا کرتا ھو، صرف علمی ضرورت پوری ھو اور ایمانی نہ ھو یا ایمانی ضرورت پس پشت ڈال دے تو بھی یہ معیار میرے لئے مفید کار ہرگز نہ ھو گا۔ ایمانی ضرورت ایک ایسی شے ھے جس کا شعور میرا ایمان مجھے عطا کرتا ھے۔ میں ایمانی شعور کو نظرانداز کر سکتا ھوں اور نہ اسے کم اہم بنا سکتا ہوں

اگر ایسا معیار میسر آ جائے تو وہ میرے دل و دماغ میں ایک ترازو قائم کر دے گا جس سے میں یہ معلوم کر سکتا ھوں، کونسا ترجمہ، کونسی تفسیر اور کونسا “خلاصہ نبوت” سچا اور کھرا ھے اور کونسا غلط اور کھوٹا ھے؟ اس معیار کو سمجھنے اور اپلائی کرنے کے لئے میں اپنے کمرے میں کتابوں کی الماری میں پڑے قرآن مجید کے تراجم، تفاسیر اور خلاصوں کو دیکھ سکتا ھوں۔ ایک طرف کے خانے میں قرآن مجید رکھا ھے اور دوسری طرف کے دس خانوں میں اوپر سے نیچے تک ہر ہر خانے میں اس کے الگ الگ تراجم، تفاسیر اور خلاصے رکھے ھیں۔

ایمانی اور علمی دونوں ضرورتوں کو جو پیمانہ پورا کر سکتا ھے، وہ یہ ھے؛

جس ترجمے، تفسیر اور خلاصے کے متعلق مجھے یہ یقین حاصل ھو جاتا ھے کہ اس کا انکار رسالات اللہ کا انکار ھے، اس ترجمے، تفسیر اور خلاصے میں اور قرآن مجید میں یقینا ایک ہی بات بیان کی گئی ھے اور جس ترجمہ، تفسیر اور خلاصے کا انکار، قرآن مجید کا انکار نہیں ھے وہ غلط اور کھوٹا ھے۔ یہی وہ علمی اور ایمانی معیار ھے جو مجھے رسالات اللہ کے انسانی متبادلات یعنی ترجمہ، تفسیر اور خلاصے کے سچ اور جھوٹ کا پول کھول دیتا ھے۔

اب میرے پاس ایک معیار ھے۔ اس معیار کی رو سے میں اپنے آپ سے سوال کرتا ھوں؛

عرفان القرآن نامی ترجمہ قرآن کا انکار قرآن مجید کا انکار ھے؟

کیا تفہیم القرآن، معارف القرآن، تدبر قرآن، بیان القرآن نامی تفاسیر کا انکار، قرآن مجید کا انکار ھے؟

المیزان نامی “خلاصہ نبوت” کا انکار “رسالات من اللہ” کا انکار ھے؟

غرض اب تک لکھی جانے والے تمام تراجم، تفاسیر اور خلاصوں میں سے کوئی ایک ترجمہ،تفسیر اور خلاصہ ایسا نہیں ھے، جس کا انکار قرآن مجید یا رسالات اللہ کا انکار متصور ھو سکے۔

آپ بھی خود اپنے آپ سے سوال کریں اور اپنے ایمانی ضمیر کا جواب، پورے تحمل اور بردباری سے قبول کریں۔ یہ ایک راہ نجات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر خضر یسین صاحب فاضل علومِ اسلامیہ ہیں اور آپ نے فلسفہء وجود میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں