اسمعیل حسنی
مجموعی لحاظ سے ہم مسلمان عصرِ حاضر میں ایک ماضی پرست قوم بن چکے ہیں، ہماری ماضی ہمیں روشن اور چمکدار محسوس ہوتی ہے، حال مایوس کن اور مستقبل تاریک سے تاریک تر۔ اس ماضی پرستانہ روش نے ہمیں مردہ پرست بھی بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج ہم نہ صرف ماضی کے تراشیدہ ہیروؤں پر جھوٹے فخر میں مبتلا ہیں بلکہ معاشرتی زندگی میں بھی جب جہاں کوئی مرتا ہے تو اس کے ساری بشری کمزوریاں نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور مفروضہ کمالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ کل مرنے والے آئندہ کل والوں کےلیے اکابر کا درجہ پالیتے ہیں، جو جتنا پہلے مرگیا ہے اتنا ہی بڑا اکابر ہے، پھر کیا ہوتا ہے کہ ان اکابر کے نام پر ہم اپنی جذبات کی تسکین تو خوب کرلیتے ہیں لیکن ان کے تجربات کو وہاں سے آگے بڑھانے بالکل سنجیدہ نہیں ہوتے جہاں پر وہ چھوڑ کر اگلی جہاں کو سدھار چکے ہوتے ہیں، بلکہ ہم کرتے یہ ہیں کہ ان کے ابتدائی تجربات کو بھی پھر سے بار بار دہرانے لگتے ہیں، حالانکہ ایک تجربہ بار بار دہرانے سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو پہلے سے برآمد ہوچکا ہوتا ہے۔ دو جمع دو برابر چار (2+2=4) ۔ اب اس کو آج دہرائیں بھی یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور 2123ء میں دہراتے چلے جائیں بھی یہی ایک نتیجہ ہی برآمد ہوتا ہے۔ اب جن بزرگوں نے اپنے جوش شباب اور جذبہ جوانی میں جن جن تجربات کا آغاز کیا، ہم ان تجربات کو پڑھ کر پھر سے تو دہراتے ہیں لیکن جہاں تک انہوں نے پیشرفت کرکے اپنی تجربات بطور نمونہ ہمارے لیے چھوڑ دیے تھے، وہاں سے آگے بڑھانے میں ہم سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ہمارے سامنے ان کی 33 سالہ دور جوانی کے جوشیلے تجربات تو ہوتے ہیں لیکن 90 سالہ بڑھاپے کی سنجیدگی، حاصلِ زندگی اور تجربات کے نچوڑ بالکل نہیں ہوتے۔
ہماری اس روش سے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں آئندہ بھی جتنے لوگ آئیں گے۔ سب کے سب برے سے برے اور ایک دوسرے سے بد سے بدتر لوگ ہوں گے اور اچھے لوگ سارے مرجاتے ہیں اور مرنے والوں میں آج تک کوئی بھی برا آدمی نہیں گزرا ہے اور جو برے لوگ گزرے ہیں وہ ہم میں سے ہیں ہی نہیں۔ اب آپ ذرا ان علماء کی فہرست دیکھ لیں جو زندگی میں تو بد سے بدتر تھے، مرنے کے بعد نہ صرف اچھے قرار پائے بلکہ دنیا کے سامنے ان ہی کو بطور سند پیش کرتے ہیں کہ جی فلاں اجتہاد یا ایجاد کا امام فلاں مسلمان عالم اور سائنسدان ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ ہوں یا امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ ہوں یا سیدنا امام بخاریؒ، امام ابو عیسی ترمذیؒ ہو یا خاتمۃ المحدثین امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ، ان تمام جلیل القدر ائمہ کے ساتھ ان کے معاصر مولویوں اور ان مولویوں کے تابع چلنے والے عوام کالانعام کا رویہ حد درجہ منفی رہا ہے، ان کے ناجائز سلوک سے متعلق کبھی آپ ذرا تاریخ کے صفحات میں جھانک کر دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ حضرات اپنی زندگیوں میں خود مولویوں کے ہاتھوں کن مصائب و آلام سے دوچار رہیں۔ ایسے ہی تاریخ کے صفحات سے آج میرے پیشِ نظر وہ مسلمان سائنٹسٹ اور فلاسفر علماء ہیں، جن کا نام لیکر ہمارا ہمیشہ یہی دعوی کیا جاتا ہے کہ جدید سائنس کے اصل بانی تو یہی مسلم علماء ہیں۔ میری مراد الکندیؒ، الرازیؒ، ابن سیناؒ، ابن رشدؒ اور ابن خلدونؒ ہیں۔
جب مسلم تہذیب میں یونانی فلسفے کا مطالعہ عام ہونے لگا تو مترجمین اور راسخ الاعتقاد مسلم مفکرین کی زندگی کو ہمیشہ روایتی مذہبی مولویوں کی طرف سے ہر دور میں یکساں طور پر شدید خطرات کا سامنا رہا۔ ان مولویوں کی منفی روش کی زبردست ایکشن لیتے ہوئے صدیاں پہلے امام جاحظؒ نے کہا تھا:
”مذہبی علماء کی پارسائی صرف اس میں رہ گئی ہے کہ وہ مخالفین کو کا فر قرار دینے میں عجلت سے کام لیں!“
مولویوں کی اس متشددانہ روش نے مسلم فلاسفروں کو حکمرانوں کی آشیرباد حاصل کرنے پہ مجبور کردیا تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھ کر یکسوئی کے ساتھ اپنے کام کرسکیں۔ اس فیصلے سے ہوا یہ کہ سائنس و فلسفہ خواص تک محدود رہی اور عوام تک اس کا پہنچنا اور مستفید ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ایک ناممکن معاملہ بن گیا۔چنانچہ اسی تسلسل میں علامہ ابن رشدؒ کو یہ اصول وضع کرنا پڑی کہ:
”حکمران ، دانشوروں کی کتابیں عام عوام کےلیے ممنوع قرار دیں!“
مشہور مسلم دانشوروں کے حالات ذیل درج کیے جاتے ہیں۔
________________
ابو یوسف یعقوب الکندیؒ (ولادت 801ء – وفات 873ء)
اسلام میں فلسفہ کے بانی عالم الکندیؒ کو سمجھا جاتا ہے، الکندیؒ نے منطق، ریاضی، طبعیات اور موسیقی پر 270 کے لگ بھگ کتابیں لکھی ہیں۔ الکندیؒ مسلکاً پکے معتزلی تھے۔ ان کے نزدیک قرآن کریم کی وہ آیتیں جن کی لفظی تعبیر حقیقت کے برعکس ہو، عقلمندوں کےلیے اشارے و امثال ہیں۔ الکندیؒ کے مطابق تمام دانشوروں کے نزدیک سچائیاں دو ہیں۔ ایک سچائی احمق اور جاہل عوام کےلیے ہے اور دوسرا سچائی تعلیم یافتہ عقلمندوں کےلیے ہے۔ الکندیؒ کے مطابق اول الذکر طبقہ صرف بتوں، مظاہر فطرت، چاند ستارے، سورج اور آگ وغیرہ کو سمجھ سکتا تھا اس لیے انہیں حوروں اور دوسرے تصورات کی جانب ترغیب دی گئی۔ ثانی الذکر طبقہ کو عقل و نطق سے نوازا گیا تاکہ وہ قرآن کی تہہ تک رسائی حاصل کرکے انسانیت کے استفادے کےلیے کام کرسکے۔ قرآن کریم میں سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت اور درندوں کا اللہ تعالی کو سجدہ کرنے کی ذکر کے متعلق الکندیؒ کی رائے یہ ہے کہ سجدہ سے مراد فی الحقیقت رسمی سجدہ نہیں بلکہ الہی حکم کی بجاآوری مراد ہے۔ اس کی مزید تفسیر کرتے ہوئے الکندیؒ کا کہنا ہے کہ:
”ایک کائناتی قانون ہے جس کی تعمیل مادے کی تمام جاندار اور بے جان اقسام پر فرض ہے۔“
مامون کے دربار میں الکندیؒ دنیائے اسلام کا ایک چمکدار ستارہ تھا۔ مامون کے بعد کی علمی سرگرمیاں کٹر مذہبی حاکم متوکل کے دور تک جاری رہے۔ متوکل کا تخت پر بیٹھنے کے بعد ہی روشن خیالی اور علم فلسفہ کا دور ختم ہونا شروع ہوا۔ دربار کے مولویوں نے متوکل کو الکندیؒ کے عقائد سے آگاہ کرتے ہوئے مسلم معاشرہ کےلیے سم قاتل قرار دیا۔ یوں متوکل نے الکندیؒ کے ذاتی کتب خانہ کو ضبط کرنے کا حکم صادر کیا اور الکندیؒ جو سرعام کوڑے لگانے کا سخت ترین سزا سنانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی الکندیؒ کو کوڑے پڑتے ہجوم کی طرف سے خوشی کی صداؤں کی لہریں بلند ہوتیں۔ ہم اس بات پر تو فخر کرتے ہیں کہ الکندیؒ جدید سائنس کا بانی ہے، لیکن اس جانب کسی کا دھیان نہیں کہ علوم سائنس کی پاداش میں اپنی عقلیت پسندی اور روشن خیالی کی قیمت الکندیؒ کو کس صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔
________________
محمد بن زکریا الرازیؒ (ولادت 865ء – وفات 925ء)
محمد بن زکریا الرازیؒ اسلامی دنیا کے اولین طبیب گزرے ہیں بلکہ یوں سمجھیے کہ مسلمانوں میں طب و حکمت کے بانی ہیں، اسی نسبت سے انہیں جالینوسِ عرب کہا جاتا ہے۔ یہ نسلی طور پر ایرانی تھے، تعلیم بغداد عراق میں حاصل کی۔ تحصیل علم کے بعد تہران میں ایک دواخانہ کھولا۔ یہ ایک نہایت ہمدرد معالج تھے، امیر و غریب کا یکساں لحاظ کرتے تھے، عقلیت پسند فلاسفی ہونے کے ناطے مذہب کے معاملے میں وہ غیرمقلدانہ نظریات کے حامل تھے، (یہاں غیر مقلد کا معنی اہل حدیث نہیں بلکہ تحقیق سے شغف رکھنے والے۔) اس وجہ سے روایتی مذہبی فکر کے حاملین انہیں سخت ناپسند کرتے تھے، رازیؒ کے خلاف سب سے پہلے نصر خسرو نے فتوی جاری کیا۔
________________
بوعلی سیناؒ (ولادت 890ء – وفات 1037ء)
ابو علی الحسین ابن سیناؒ کے کارنامے کئی شعبوں پر محیط ہیں، انہوں نے دس برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ سترہ برس کی عمر میں علم طب کی تکمیل کی اور اصول طب پر ”القانون“ لکھنے لگے جو کہ طب کی اولین کتاب ہے۔ ابن سینا نے فلسفہ و منطق اور طب پر کئی کتابیں لکھیں۔ ذوق و مزاج کے لحاظ سے وہ بھی الکندی کی طرح آزاد منش معتزلی عالم تھے۔ انہیں علمیت میں عقلی استدلال کی برتری پر اصرار تھا۔ روایتی مولویوں کی شر سے حفاظت کےلیے انہوں نے بھی اہل اقتدار کی قربت کو مجبوری سمجھا۔ علمیت سے متاثر ہوکر کچھ عرصہ تک امیر ہمدان کے کابینہ میں وزیر بھی رہے۔ بہت جلد فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ان بن ہوگئی، جس سے معاملہ بایں جا رسید کہ اسٹیبلشمنٹ نے ابن سیناؒ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ قتل سے بچنے کےلیے ابن سیناؒ کو وزارت چھوڑ کر ایک دوست ابو سعید دفدق کے گھر میں روپوش ہوگئے۔ روپوشی سے موقع پاکر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی کتابوں پر پابندی عائد کردی۔ دوستوں نے انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا جب کہ ان کا جواب تھا کہ:
”میں کم طویل لیکن زیادہ وسیع زندگی کو زیادہ طویل مگر تنگ زندگی پر ترجیح دیتا ہوں۔“
ابن سیناؒ نے نہایت جراتمندی کے ساتھ کام جاری رکھا۔ نتیجتاً انہیں بار بار روایتی مولویوں کی طرف سے غیض و غضب کے فتاوی کا سامنا رہا۔ یہ فتاوی ان پر بدعتی ہونے کا تھے۔ فتوی لگانے والوں میں پیش پیش امام غزالیؒ تھے۔
________________
ابن رشدؒ (ولادت 1126ء – وفات 1198ء)
ابوالولید محمد بن رشدؒ کو ان کے فلسفیانہ فکر اور مذہبی اعتقادات کے بنا پر کٹر عیسائی اور روایتی مسلم علماء مشترکہ طور پر ملحد اور زندیق قرار دیتے تھے۔ ان کی کتابیں بار بار نذر آتش کردی جاتی۔ یعنی ابن رشد بھی اپنے پیش روؤں کی طرح بار بار روایتی مذہبی طبقہ کی طرف سے زیر عتاب رہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی عقلی تفسیر کےلیے ایک تفصیلی پروگرام تشکیل دیا۔ امام غزالیؒ کے دلال پر رد کرنے پر انہیں پذیرائی بھی ملی۔ جان بچانے کی غرض سے انہیں بھی دربار کے سائے میں محفوظ رہنے کی مجبوری محسوس ہوئی، عیسائی مسلم روایتی مذہبی طبقہ کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں نے بالآخر رنگ لایا جب 1184ء میں حاکم ابویعقوب کی رحلت ہوگئی تو ان کے بیٹے ابویوسف کی تخت نشینی سنبھالنے کے بعد ابن رشد پر زندگی تنگ ہونے لگی۔ حاکم وقت نے فیصلہ کیا کہ فلسفہ و منطق کی کتابیں پڑھنا سرکاری طور پر ممنوع اور قابل سزا جرم ہے۔ ابن رشد کو جلا وطن کردیا گیا۔ قرطبہ میں ان کا داخلہ بند کردیا گیا۔ دستیاب کتابیں ایک بار پھر نذر آتش کردی گئیں۔
________________
علامہ ابن خلدونؒ (وفات 1332ء – وفات 1406ء)
مسلم دنیا کا آخری دانشور علامہ حافظ عبدالرحمن بن خلدونؒ ایک ایسے مسلم فلاسفر رہے جو خود مسلم تاریخ سے بھی 19 ویں صدی تک گمنام رہے۔ گمنامی کا سبب انگریز فلاسفر فلپ ہٹی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
”یہ فلسفی غلط عہد میں، غلط مقام پر پیدا ہوا۔ وہ اپنے دور کے لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کےلیے بہت تاخیر سے آیا۔ یورپ کو اس کا مترجم بھی بہت دیر سے ملا۔ اس کا بالواسطہ کوئی پیش رو نہ تھا اور نہ ہی براہ راست کوئی جانشین تھا۔ کوئی مکتب فکر ایسا نہ تھا جس پر ان کی چھاپ ہو، اس کی حیات عمل شمالی افریقہ کے آسمان سے اس شاہانہ طرز پر گزری کہ اپنے پیچھے کوئی منعکس بھی چھوڑی۔“
ٹو آئن بی لکھتا ہے:
”ابن خلدون نے تاریخ کے فلسفہ کی تخلیق و تدوین کی۔ یہ کام بلاشبہ اپنی قسم کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جو کسی بھی زمان و مکان میں سرانجام دیا گیا ہے۔“
ابن خلدونؒ اپنے پیشروؤں کی طرح معتزلی تو نہ تھے لیکن اس کے باوجود مسلم روایتی مذہبی فکر کے ہاتھوں زیر عتاب رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بعد کئی صدیوں تک منظر سے غائب رہے یہاں تک مغربی مفکرین نے انہیں دریافت کیا۔ جس طبقہ کے ہاتھوں اپنے دور میں فتوے سہنا پڑے اور گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ دریافت ہونے کے بعد اسی طبقہ کے ورثاء انہیں قابل فخر شخصیت قرار دے کر تعریف و توصیف میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کررہے ہیں۔ اللہ کے بندو! پہلے تو یہ طے کرو کہ ان کے اپنے دور کے علماء ٹھیک کہہ رہے تھے یا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں؟ اگر اپنے دور کے علماء غلط تھے تو آپ اپنے دور میں جن پر رد و قدرح کرتے ہو، کیا گارنٹی ہے کہ وہ بھی غلط نہ ہوں؟ بہرحال مجموعی طور پر ہمارے مذہبی طبقہ ہمیشہ یہی روش غالب رہی ہے کہ وہ جن شخصیات کو ان کی زندگی میں ستاتے ہیں، بعد میں ان کے ورثاء ان شخصیات کو سروں پر بٹھا کر ان کے حق میں زمین و آسمان کی قلابیں ملاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمعیل حسنی صاحب جامعہ امدادیہ کوئٹہ کے فاضل ہیں اور جمیعت علمائے اسلام کے سرگرم کارکن ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز جیسے سنجیدہ علمی پلیٹ فارم پر ایسی تحریر پڑھ کر بہت افسوس ہوا ۔
سب سے پہلے کندی کو ہی لے لیجیے ، پروفیسر پیٹر ایڈمسن کی لکھی ہی بائیو گرافی پڑھ لیجئے ،
الکندی کے خلاف اکسانے والے مولوی نہیں بلکہ اس وقت سائنسدان اور ریاضی کے ماہر بنو موسی برادران تھے
کندی کا کتب خانہ ضبط کرنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں سند بن علی نے واپس کر وا دیا تھا ۔