Home » علمِ تفسیر کا علمیاتی انتقاد
تفسیر وحدیث زبان وادب فلسفہ

علمِ تفسیر کا علمیاتی انتقاد

ڈاکٹر خضر یسین

علم تفسیر کا علمیاتی انتقاد Epistemological            criticism کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟
علمیات سے بے خبری یا علمی اور ذہنی مناسبت نہ ھو تو بالعموم ایسے لوگ غیرمتعلق اور غیر اہم بات کو اہم اور متعلق بنا کر خلط مبحث کے لئے پیش کر سکتے ہیں۔ علمیات سے عدم واقفیت نااہلی کی بنیاد پر بھی ھو سکتی ھے اور یہ بھی ممکن ھے کہ غیرمتعلق اور غیراہم بات کو متعلقہ اور اہم بات بنا کر پیش کرنے کا طرزعمل حقیقت میں علمی بد دیانتی پر مبنی ھو۔ علمیاتی انکوائری میں علمی دیانت یا بددیانتی موضوع بحث بنانے کی ضرورت ھوتی ھے اور نہ اس ڈسپلن میں یہ کوئی قابل توجہ مسئلہ ھوتا ھے۔ علمیاتی انکوائری کا موضوع فقط اس قدر ھوتا ھے کہ وہ اپنا موضوع بننے والے علم اور اس کے موضوع اور حاصلات کا ایجابی اور سلبی تعین کرے، اس کے مضمرات کو پوری توجہ سے ایک ایک کر کے بیان کرے، آخر میں اس علم کی “حدود صحت” limits         of        validity بیان کرے اور انکوائری ختم کر دی جائے۔ علمیاتی انکوائری کی یہ اہم ترین شرط ھے کہ جب انکوائری آخری حدود ultimate       limits تک پہنچ جائے تو آگے بڑھنے سے اسے روک لیا جائے۔
ھم نے اپنی علمیاتی انکوائری کا موضوع علم تفسیر کو بنایا ھے اور پوری انکوائری کے دوران خود کو صرف علم تفسیر اور اس کے موضوع و حاصلات کے علمیاتی انتقاد و تجزیہ تک محدود رکھا ھے۔ اس انکوائری میں مفسر کا کفر و ایمان موضوع بحث بنانا ھمارا مقصد ھے اور نہ ہماری انکوائری اس کی اجازت دیتی ھے۔ نیت کا فساد اور خیرخواہی علم اور اس کی علمیاتی انکوائری کے دائرہ نہیں آتا۔ کس مفسر کی نیت کیا ھے اور کیا نہیں ھے؟ یہ مسئلہ ہمارا موضوع نہیں ھے اور نہ ہم یہاں مولویانہ فتوی صادر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
علم تفسیر میں “تفسیر” مقصد کا بیان ثانی ھے، جس کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ھے کہ وہ بیان اول سے زیادہ قابل فہم، زیادہ واضح اور زیادہ شفاف ھے۔ اس کی صورت یہ بنتی ھے کہ “بیان اول” متن کہلاتا ھے اور “بیان ثانی” تفسیر متن کہلاتا ھے۔ “متن” اور “تفسیر متن” دونوں میں معنی مشترک ھوتا ھے اور اظہار مختلف ھوتا ھے۔ “متن” اور “تفسیر متن” کا معنوی اشتراک اور لفظی اختلاف ایک دوسرے سے انہیں ممتاز کرتا ھے۔ متن “ماتن” author کا لفظی اور معنوی contribution ھے اور “تفسیر متن” مفسر کا لفظی contribution ھے اور معنوی contribution نہیں ھے۔ اس کا امکان موجود ھوتا ھے کہ مفسر مصنف کے لفظی و معنوی contribution میں سے کسی ایک کو بھی خاطر میں نہ لائے اور “تفسیر متن” کو ایک مستقل تصنیف independent         writing بنا دے۔ لیکن یہ بات طے ھے کہ تفسیر مستقل تصنیف نہیں ھے بلکہ منحصر تصنیف dependent          writing ھے۔ تفسیر کی وہ قسم سردست ہمارا موضوع نہیں ھے، جس میں مفسر اور مصنف کا مدعائے بیان ایک نہیں ھوتا۔ ھم خود کو متن کی اس تفسیر تک محدود رکھنا چاھتے ہیں اور اسے علمیاتی انکوائری موضوع بنانا چاھتے ہیں جس میں مفسر کا contribution اظہار و بیان کو آسان بنانا ھے اور متن کے معنی میں دخل اندازی سے خود کو دور رکھنا ھے۔
ہر متن تفسیر کا محتاج نہیں ھوتا اور نہ ایسا ھے کہ کوئی بھی متن، تفسیر کا محتاج نہ ھو۔ چنانچہ ہماری اس علمیاتی انکوائری کی اہم ترین دریافتوں discoveries میں سے ایک یہ ھے کہ متن کی دو قسمیں ھوتی ہیں، ایک “قابل تفسیر متن” interpretable          text اور دوسری “ناقابل تفسیر متن” non interpretable          text ۔ “قابل تفسیر” اور “ناقابل تفسیر”، متن کی صفات qualities ہیں۔ ان صفات کا مبداء متن ھوتا ھے۔ اگر پہلے مرحلے پر ہم یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ علمیاتی انکوائری کا موضوع بننے والا متن، قابل تفسیر متون کے زمرے میں آتا ھے یا ناقابل تفسیر متون کے زمرے میں آتا ھے تو ہمارے علمیاتی انکوائری شروع ھونے سے پہلے ہی ایک ایسی غلط راہ پر پڑ جاتی ھے جو منزل تک کبھی نہیں پہنچ پاتی۔ چنانچہ علم تفسیر کی اولین ذمہ داری ہمیں قابل تفسیر اور ناقابل تفسیر متن کا شعور فراہم کرنا ھے۔ اس کے بعد وہ اپنے موضوع کی طرف متوجہ ھو سکتی ھے۔ وہ متن جو بالذات واضح اور غیرمبہم اور ناقابل تفسیر ھو، اس کی تفسیر کی جانب متوجہ ھونا، ایک غیرعلمی اور غیرعقلی کام ھے۔ “قابل تفسیر متن” کی تفسیر ایک علمی اور عقل مندانہ کام ھے، جس کی جانب متوجہ ھونا، ہر لحاظ جائز علمی ایکٹیویٹی ھے۔
یہاں یہ مؤقف بالکل غیرمتعلق ھے کہ تفسیر قاری کی محتاجی ھے اور متن کی محتاجی نہیں ھے۔ ھم پوچھ سکتے ہیں؛ جب تفسیر قاری کی محتاجی ھو اور متن کی نہ ھو تو کیا وہ اس تفسیر سے مختلف ھو گی جو متن کی محتاجی کی صورت میں کی جائے گی؟ اگر ہر دو صورتوں میں تفسیر، متن کی ہی کی جانی ھے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ احتیاجی کی نسبت دونوں میں سے کس کی طرف کی جا رہی ھے۔ دونوں صورتوں میں تفسیر بہرحال مقصد کا بیان ثانی ھو گی اور دونوں صورتوں میں متن کی نسبت ابلاغ معنی میں وہ آسان تر ھو گی۔
چونکہ “تفسیر متن” میں مفسر “اصلی متن” original       text کے معنی میں دخل اندازی نہیں کرتا بلکہ صرف اظہار و ابلاغ آسان بناتا ھے تو علمیاتی انکوائری میں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ھوتی ھے کہ مفسر اصلی متن کے معنی میں دخل اندازی نہ کرنے پائے اور صرف اظہار و ابلاغ آسان بنانے تک محدود رھے۔
چنانچہ علمیاتی انکوائری کے اس مرحلے تک آتے آتے ھم یہاں پہنچ جاتے ہیں کہ نمبر ایک یہ کہ “اصلی متن” ناقابل تفسیر متون میں شامل نہیں ھے اور نمبر دو؛ مفسر متن کے معنی میں دخل اندازی نہیں کر رھا، وہ صرف “اصلی متن” کے اظہار و ابلاغ یا اسلوب و بیان بدل رھا ھے۔ نمبر تین؛ “تفسیری متن” interpretational         text اصلی متن original         text کے معنی کا مکمل احصاء کرتا ھے، اس کے معنی میں سے کچھ بھی پیچھے نہیں چھوڑتا۔
اپنی علمیاتی انکوائری کے اگلے مرحلے میں داخل ھونے سے قبل ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ھے کہ ہماری انکوائری کسی نوع کی جذباتیت کا شکار نہ ھو تاکہ ہم پورے اعتماد کے ساتھ اسے آگے بڑھا سکیں۔ اپنی انکوائری میں کسی نوع کے تعصب، جانبداری اور عقیدت کو حائل نہ ھونے دیں۔ چاھے اس کی ہمیں کوئی قیمت بھی ادا کرنی پڑے، کر گزریں۔
روایتی علوم چاہے ان کا تعلق مذہب سے ھو یا وہ غیرمذہبی علوم ھوں، ہمارے ہاں “علمیاتی انتقاد” کی روایت نشوونما ہی نہیں پا سکی۔ جس کا نتیجہ یہ ھے کہ کسی علم کے درست ھونے کا معیار علمی رھا ھے باقی اور نہ علمیاتی رھا ھے۔ کسی علم کے مستند ھونے کا معیار یہ ھے کہ وہ ایک ہزار سال سے چلا آ رھا ھے، لہذا اپنے مستند علم ھونے کے لئے کسی طرح کی علمیاتی انکوائری کا وہ محتاج ہی نہیں ھے۔
علمیاتی انکوائری کا مقصد علم اور اس کے موضوع کا انکار ہرگز نہیں ھوتا، اس طرح کی انکوائری کا مطمح نظر اس علم اور اس کے موضوع کا درست تعین ھوتا ھے۔ یعنی وہ علم جن معنوں میں درست ھے، اسے طے کیا جائے۔
بہرحال علم تفسیر کی موجودہ علمیاتی انتقاد سے نشوونما پانی والی اس انکوائری میں ھم جہاں پہنچ چکے ہیں اس میں یہ بات اب طے ھو چکی ھے کہ “تفسیری متن” اصلی متن کے معنی کا کامل احصاء کرتا ھے، نہیں صرف احصاء نہیں کرتا اس میں کمی بیشی بھی نہیں کرتا۔ اب سوال یہ ھے کہ اس کا معیار یا پیمانہ کیا ھے کہ “تفسیری متن” نے اصلی متن کے معنی میں دخل اندازی نہیں؟ علمیاتی انکوائری یہاں ایک شرط تک پہنچتی ھے۔ جب کوئی “تفسیری متن” اس شرط کو پورا کرتا ھے تو وہ اس معیار کے مطابق ھوتا ھے، جس میں یہ ضمانت پائی جاتی ھے کہ “تفسیری متن” نے اصلی متن کے معنی میں کمی بیشی نہیں کی اور وہ صرف اصلی متن کے اظہار و ابلاغ کو آسان بنانے تک محدود ھے۔ وہ شرط یہ ھے کہ تفسیری متن کا انکار اصلی متن کا انکار متصور ھو۔ گویا جب “تفسیری متن” کا انکار “اصلی متن” کے انکار کو مستلزم ھو تو یہ اس بات کی ضمانت ھو گی کہ تفسیری متن، اصلی متن کے معنی میں دخل انداز نہیں ھوا۔
اس موضوع پر پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب “علم تفسیر کی تنقید و تنقیح” میں وضاحت کے ساتھ میں نے عرض کر دیا ھے۔ جو صاحب علم علمی دیانت کے ساتھ اسے پڑھے گا، سمجھ جائے گا کہ ہمارا مدعا مفسرین کے کفر و ایمان پر فتوی صادر کرنا نہیں ھے۔ اس کے برعکس ہمارے پیش نظر علم تفسیر علمیاتی قدر و قیمت واضح کرنا ھے۔
مفسرین کی جنگ لڑنے والے خودکش حملہ آوروں سے پوچھتا ھوں، علم تفسیر کی خدمت کرنے والوں کی ہزار سالہ تفسیری روایت میں کوئی ایک تفسیر بتا دیں، جس کا انکار، قرآن کے انکار کو مستلزم ھو؟

(أن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التي وقودها الناس و الحجارة اعدت للكافرين)

آخری گزارش؛
نااہل اور علمی بد دیانت لوگوں سے معذرت خواہ ہوں کہ ان کے ساتھ مغز ماری نہیں کر سکتا۔ البتہ “علمیاتی انتقاد” علم کا ایک ایسا شعبہ ھے جس سے علمی دنیا سے متعلق لوگ بہت کم واقف ہیں۔ چنانچہ طلباء اور اساتذہ میں سے کوئی اس شعبہ علم سے واقف ھونا چاھتا ھے یا اس فن میں مہارت کا متمنی ھے تو اس کی خدمت کے لئے دن میں 23 گھنٹے اور ساٹھ منٹس تک حاضر ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر خضر یسین صاحب فاضل علومِ اسلامیہ ہیں اور آپ نے فلسفہء وجود میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں