Home » خدا کے وجود پر استدلال اور مثال و دلیل میں فرق
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

خدا کے وجود پر استدلال اور مثال و دلیل میں فرق

جدلیاتی فلسفہ نامی گروہ میں یہ ایک شذرہ چھپا ہے اسے ملاحظہ کیجیے:

 

مذہبیوں کا سارا مقدمہ ایک باطل قضیے پر کھڑا ہے کہ ہر چیز کا خالق ہوتا ہے۔ ہمیں یہ مثال دیتے ہیں کہ ایک کرسی، ایک میز کو دیکھ کر خالق کا خیال آتا ہے۔ لہذا کائنات کا بھی ایک خالق ہے۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز خیال ہے۔ انسان کی عملی فعلیت سے کرسی یا میز وجود میں آئے جو ایک پورا عمل ہے اور قابل مشاہدہ ہے۔ جبکہ نہ ہی ساری کائنات اور نہ ہی عقیدہ پرستوں کا خدا قابل مشاہدہ ہیں۔ قیاس کی انتہا دیکھیں کہ قابل مشاہدہ پر ناقابل مشاہدہ چسپاں کر دیا گیا ہے۔

عقیدہ پرست کھربوں کہکشاوں پر مشتمل ایک ایسی کائنات کے بارے میں فیصلہ سناتا ہے کہ جس کے بارے میں اس کا علم ایک ذرے برابر بھی نہیں ہے۔ کھربوں کہکشاوں میں سے ایک ذرے برابر ہماری کہکشاں اور اس کہکشاں میں ایک ذرے برابر زمین کا باشندہ اپنی ہی عملی فعلیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتوی دیتا ہے کہ کائنات کا بھی ایک خالق ہے۔ اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز نتیجہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ خدا کو خالق ثابت کرنے کے لیے اپنی مثال پیش کرتا ہے نہ کہ خدا سے کوئی مثال لیتا ہے۔ اس حماقت کو عقیدہ کہتے ہیں۔ یعنی خدا کا وجود انسانی کی اپنی فعلیت کا مرہون منت ہے۔

 

اس ٹکڑے میں جو اعتراض کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہمارے علم کلام میں وہ زیادہ سلجھے ہوئے انداز میں “قياس الغائب على الشاهد” کے نام سے مذکور ہے۔ موصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا کو ماننے والے “کرسی” پر جو ہمیں نظر آتی ہے، “خالق” کو قیاس کرتے ہیں جو ہمارے مشاہدے کی حدود میں نہیں سما سکتا۔

لیکن معمول کے مطابق، یہ تنقید کلامی نظام اور مسلمانوں کے استدلال کی رعایت کے بغیر کی گئی جس کی وجہ سے یہ بے جان ہے۔

۱: سب سے پہلے، یہاں “مثال” اور “دلیل” کا فرق نہیں کیا گیا۔ اس ٹکڑے میں خود تسلیم کیا گیا ہے کہ خدا پرست کرسی کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ اسے بطور استدلال بھی پیش کرتے ہیں۔ مثال محض تصور سمجھانے کے لیے دی جاتی ہے۔

۲: دوسری بات یہ کہ ہمارا استدلال یوں ہے کہ ہر حادث کے لیے محدث کی ضرورت ہے۔ یہ ایک “بدیہی قضیہ” ہے اور “بدیہی قضیے” پر استدلال (Demonstration) نہیں ہوتا ورنہ وہ بدیہی نہیں رہے گا۔ تاہم اس سے غفلت وذہول ہو سکتا ہے۔ اس لیے، اس پر تنبیہ کی جاتی ہے۔ چنانچہ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ کرسی کو دیکھ کر کوئی بنانے والا ذہن میں آتا ہے، تو یہ مقصود نہیں کہ خدا کو اس کرسی پر قیاس کر لیا گیا۔ بلکہ یہاں اس قضیے پر تنبیہ مقصود ہوتی ہے کہ حادث کا تصور ہی محدث کو چاہتا ہے اور اس پر تنبیہ کرسی سے کر دی جاتی ہے۔

۳: اس ٹکڑے میں ایک جملہ یہ بھی کہا گیا کہ: “خدا کا وجود انسان کی اپنی فعلیت کا مرہون منت ہے”۔ اگر ہم احترام کو برقرار رکھیں تو اس جملے کی بابت یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں “تسامح” ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ: “خدا کا وجود نہیں، خدا کے وجود کا علم مرہون منت ہے۔

والله الهادي إلى الحق!

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں