کاسمولوجیکل دلیل کے نقد پر ایک تحریر نظر سے گزری جس میں “علت اولی” کی دلیل پر چند نمائندہ مغربی فلاسفہ کے درج ذایل اعتراضات بحث کی خاطر درج تھے:
– برٹرینڈ رسل:
برٹرینڈ رسل اس دلیل کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دلیل خود ہی خود کو کاٹتی ہے کیونکہ اگر ہر چیز کی ایک علت ہوتی ہے تو خدا کی بھی ایک علت ہونی چاہیئے اور خدا بغیر علت کے وجود رکھ سکتا ہے تو کائنات کیوں نہیں۔
If A can exist without a cause, B can also exist without a cause
– ڈیوڈ ہیوم:
ڈیوڈ ہیوم دلیل کے پہلے قضیے (ہر چیز کی کوئی علت ہوتی ہے) کو یوں کرتے ہیں کہ یہ ایک تجرباتی حقیقت ہے کہ ہر چیز کی ایک علت ہوتی ہے، اس لیے یہ قضیہ ان چیزوں کے بارے میں فرض نہیں کیا جاسکتا جن کا ہم نے مشاہدہ نہیں کیا ۔ یعنی ہم ایک گھڑی کے بارے میں اس لیے یہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہم نے گھڑی کو بنتے ہوئے دیکھا ہے اور گھڑی ساز کو بھی دیکھا ہے جبکہ ہم نے کائنات کو بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لہذا کائنات کے باہر وہ حکم لگانا جو اس کے اندر چیزوں پر لگتا ہے غیرمنطقی ہے۔
تبصرہ
رسل کی بات تو بالکل سطحی ہے کیونکہ اصول یہ نہیں ہے کہ “ہر چیز کی علت ہونا لازم ہے” بلکہ یہ ہے کہ “حادث کے لئے علت (محدث) ہونا لازم ہے”۔ درست اصول پر اس کا اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ ذات باری حادث نہیں ہوسکتی۔ تو رسل کو جواب یہ ہے کہ علت اس وجود کے لئے ہونا لازم ہے جو معلول ہو اور چونکہ کائنات معلول ہے اور یہ موجود ہے اس لئے اس کی علت موجود ہونا لازم ہے۔ کائنات معلول ہے کیونکہ وہ حادث ہے اور حادث وہ موجود ہے جو عدم سے وجود میں آئے۔ جو عدم سے وجود میں آئے اس کے لئے لازما محدث موجود ہوتا ہے کیونکہ عدم وجود کا سبب نہیں ہوسکتا۔ جو یہ کہتا ہے کہ عدم وجود کا سبب ہوسکتا ہے اسے اپنے ذہن کا علاج کروانا چاہئے، یہ نرا مکابرہ ہے۔ چنانچہ
If A can exist without a cause, B can also exist without a cause
سے ہمارا مدعا غلط ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ “حادث خود سے موجود نہیں ہوسکتا” اور نہ ہی ہم کسی حادث کے از خود موجود ہونے کے قائل ہیں کہ یہ اعتراض متعلق ہو۔
ھیوم کا مفروضہ ہی غلط ہے کہ علت و معلول حوادث کے تجربے پر مبنی کوئی تصور ہے۔ ہم نے علت کو اس طرح نہیں پہچانا کہ دو امور ساتھ ہوئے تو ایک کا نام ذہن نے علت اور دوسرے کا معلول رکھ دیا۔ علت اس طرح پہچانی جاسکتی ہی نہیں کیونکہ علت اس دنیا کے اندر حسی مشاہدے میں نہ آتی ہے اور نہ آسکتی ہے۔ جو حسی مشاہدے میں آسکتا ہے وہ تعیینات و تخصیصات (determinations and specifications) کو قبول کرنے والا وجود ہوگا اور جو وجود معین و مخصص ہو وہ حادث یعنی معلول ہوتا ہے اور اس لئے وہ محدث کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ قضیہ بدیہی طور پر درست ہے کہ “حادث کے لئے محدث ہوتا ہے”، جو اس کا انکار کرتا ہے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ وجود کی نفی بھی وجود کے ہم معنی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ھیوم کا یہ شبہ کہ “جہاں تجربے کے ذریعے ہم نے واقعات کا مشاھدہ نہیں کیا وہاں علت و معلول کا اطلاق درست نہیں” یہ بات ہمارے استدلال کے تناظر میں غیر متعلق ہے۔ یہ کہنا تب درست ہوتا جب ہم یہ کہتے کہ علت کا تصور حسی مشاہدات پر مبنی ہے۔ ھیوم نے غلط طور پر فرض کر رکھا ہے کہ علت کا لیبل اس عالم میں بعض چیزوں پر لگانا درست ہے، اس کا یہ مفروضہ ہی باطل ہے کیونکہ اس نے یہ غور نہیں کیا کہ عالم حادث ہے اور حادث علت نہیں معلول ہوتا ہے۔ پس ھیوم اتنی بات تو درست سمجھے کہ علت مشاہدے میں نہیں آتی لیکن اس بات کو سمجھنے میں ٹھوکر کھا گئے کہ حادث علت نہیں معلول ہوتا ہے اور اس غلط فہمی کی بنا پر نتیجتا وہ معلول ہی کے بعض افراد کو علت قرار دینا جائز کہتے رہے اور اس غلطی کو بنیاد بنا کر پھر تجربے سے ماورا علت پر معترض بھی ہوگئے۔
کبھی کبھار حیرانی ہوتی ہے کہ مغرب کے چوٹی کے فلاسفہ آخر ایسی سطحی باتیں کیوں کرتے رہے جبکہ متکلمین نے ان امور کو صدیوں پہلے درست اصولوں پر حل کر رکھا تھا!
کمنت کیجے