ایک بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ بعض لوگوں کا اعتراض ہے کہ صوفیاء کشف و الہام کے ذریعے ذات باری کی حقیقت جاننے پر مصر ہیں جبکہ شرع نے اس سے منع کیا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟
تبصرہ
یہ غلط فہمی اس شخص کو لاحق ہوتی ہے جو صوفی و کلامی ڈسکورس کا خارجی مشاہد ہے (الا ماشاء اللہ) اور محض اصطلاحات سے متوحش ہوجاتا ہے۔ بعینہہ یہی اعتراض متکلمین پر بھی کیا جاتا ہے کہ یہ ذات باری سے متعلق بحث کرتے ہیں۔ ائمہ کلام و تصوف کا اس بات پر قریب قریب اجماع ہے کہ ذات باری کی حقیقت کا ادراک انسان کے لئے کسی بھی ذریعہ علم سے ممکن نہیں، نہ حس سے، نہ عقل سے اور نہ ہی کشف و الہام سے۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ خالق کائنات کے بارے میں انسان کا عقلی ادراک اس کے افعال کی روشنی میں طے ہوتے ہوئے اس کی صفات تک جاکر رک جاتا ہے جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ ان صفات سے متصف ایک ذات یقینا موجود ہے۔ صوفیا کا کہنا ہے کہ نبی علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی نے ایسے اشارے فراہم کئے ہیں جن کے ذریعے اللہ کی صفات کے علاوہ اس کے اسما و شئون اور ان کی باہمی ترتیب نیز وجود کے ساتھ اس کے تعلق کا علم بھی ہوجاتا ہے (صوفیا شئون اور صفات میں فرق کرتے ہیں۔ مثلاً جب شان العلم کہتے ہیں تو ذی العلم ذات مراد ہے، اور جب علیم کہتے ہیں تو مراد اگرچہ وہی ذات ہے مگر علم کی نوعیت معلومات مخلوق یا شان کے علاوہ کی ہے۔ صفت علم مخلوقات اور ان کے اعمال و افعال وغیرہ پر مشتمل ہے تو شان العلم وجود یا شیون پر، یعنی علم جو ایک صفت ہے اس کی جہت مخلوق یا معلوم کی جانب ہے جبکہ شان کی نسبت ذات کی جانب۔ چنانچہ “ذی قوۃ” و “ذی علم” شئون جبکہ “قدیر” و “علیم” صفات ہیں اور قرآن نے ہر ایک لفظ استعمال کیا ہے۔ صفات شئون پر متفرع ہیں۔ اسی طرح اسما و صفات میں بھی فرق ہے، اسما صفات کے ظاہر جبکہ صفات اسما کی باطن یا حقائق ہیں)۔ یہ شئون جس مرتبہ وجود سے متعلق ہیں، صوفیا اسے مرتبہ واحدیت کہتے ہیں جس سے ماوراء مرتبہ “احدیت” ہے جو “وجود لاتعین” کا مقام ہے جہاں کسی ذریعہ علم کا گزر نہیں۔ شھودیہ کے نزدیک “ذات مطلق” اس سے بھی ماورا ہے۔ الغرض ہم نہیں جانتے کہ یہ رائے کن محقق صوفیا کی ہے کہ چونکہ ذات باری کی حقیقت کا ادراک ممکن ہے لہذا اس کی جستجو کرنا چاہئے۔ ایسے اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں کلام و فلسفے سے حقیقی شغف نہیں ہوتا اور ظاہر پرستی نے ان کے دل و دماغ کو گھیر رکھا ہوتا ہے اور یا پھر وہ بعض ذو معنی اشعار و عبارات کی یک طرفہ تشریح کو صوفی فکر کی نمائندگی بنا لیتے ہیں۔
صوفی منھج کی تفہییم میں ایک رکاوٹ اصطلاح سے توحش محسوس کرتے ہوئے الفاظ کو اپنے پیرائے میں مفہوم پہنانا بھی ہے، ورنہ فقہا کے ہاں ایسی عبارات کی کمی نہیں جن سے ان کے نظام سے نامانوس شخص کو توحش نہ ہو لیکن ان کے عام ہوجانے کی وجہ سے وہ معمول کے مفاہیم نظر آتے ہیں۔ مثلا فقہا اپنے اجتھادات کے لئے تشریع کا لفظ بے دھڑک استعمال کرتے ہیں، بلکہ ایسی کتابیں لکھی گئیں ہیں جن کا نام ہی “تاریخ التشریع فی الاسلام” ہے اور ان میں فقہا کے اصول و اجتھادات پر بات کی جاتی ہے۔ اب اگر کسی نے بات کا بتنگڑ بنانا ہو تو یہ کہنا کتنا مشکل ہے کہ دیکھو یہ فقہا خود کو نبی کی طرح سمجھتے ہیں اور شریعت سازی کرتے ہیں۔ اسی طرح فقہا نے چند سزاؤوں کا نام “حدود اللہ” رکھا ہے جبکہ قرآن نے حدود اللہ کو بہت وسیع معنی میں برتا ہے اور ان پانچ سزاؤوں کو شاید کہیں بھی حدود اللہ سے تعبیر نہیں کیا۔ اب اگر کوئی کہنا شروع کردے کہ دیکھو فقہا نے اللہ کی اصطلاح کو بدل دیا تو کیا یہ کوئی علمی نقد ہوگا؟ چنانچہ صوفیا کے خلاف اکثر و بیشتر اعتراضات ایسے ہی سوقیانہ ہوتے ہیں، وہ بھی ان لوگوں کی جانب سے جن کا اپنا علمی منھج اسی قسم کی باتوں سے پر ہوتا ہے مگر وہ اس کی جانب توجہ نہیں کرتے۔
کمنت کیجے