Home » عدم اور خلق : صوفیاء کرام کا موقف
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

عدم اور خلق : صوفیاء کرام کا موقف

ناقدین کا صوفیاء کرام پر الزام ہے کہ یہ لوگ کائنات کو وجوداً ذات باری کہتے ہیں۔ اس بحث میں تین بنیادی سوالات ہیں: 

1۔ عدم کی حقیقت یا معنی کیا ہے؟

2۔ کائنات کے عدم سے تخلیق کا کیا مطلب ہے؟ یعنی مخلوق کی صورت جو موجود ہوا اس کا مسالہ یا مواد کیا ہے؟

3۔ کائنات کے ذات باری کا غیر ہونے کا کیا مطلب ہے؟

یہاں ہم دو پر بات کرتے ہیں کہ تیسرا کچھ الگ تفصیل کا متقاضی ہے۔

 عدم کا مطلب

صوفیا “ثبوت” اور “وجود” میں اور نتیجتاً “ثبوت” اور “عدم” میں فرق کرتے ہیں (علم کلام میں ثبوت اور وجود کا یہ فرق بعض معتزلہ جیسے کہ ابو ھاشم (م 933 ء / 321 ھ) وغیرہ کے ہاں روا رکھا گیا نیز یہ حضرات نظریہ “احوال” کے بھی قائل تھے جس کا مطلب وجود اور عدم کے مابین ایک واسطے یا منزل کو ماننا ہے جسے یہ “حال” کہتے تھے جو ان کی اصطلاح میں نہ وجود ہے اور نہ عدم، بعض ائمہ اشاعرہ بھی اس کے قائل رہے ہیں جیسا کہ قاضی باقلانی (م 1013 ء / 403 ھ))۔ وہ شے جو خارج کے اعتبار سے صفتِ وجود سے عاری ہو لیکن بطور عین ثابتہ علم میں موجود ہو، ایسی موجودگی کو “ثبوت” کہتے ہیں۔ ثبوت کا مطلب ایک شے کا دوسری سے متمیز و الگ ہونا ہے، اگرچہ یہ مرتبہ علم میں ہو، یعنی کوئی چیز جو پائی جاتی تھی یا پائی جائے گی مگر فی الحال موجود نہیں تو یہ اس کا ثبوت ہے۔ ایک عین اور دوسرا عین (مثلاً زید و عمر) اگرچہ علمی صور ہونے اور خارجی لحاظ سے فی الحال معدوم ہوں مگر اپنے خارجی اعیان کی شناخت و پہچان کا سبب ہیں اور علم الہی میں ثابت ہیں۔ نیچے یعنی مخلوق کی جہت سے دیکھا جائے تو یہ مرتبہ ثبوت عدم دکھائی دے گا لیکن فوق (یعنی وجود مطلق و ذات باری) کی جہت سے دیکھا جائے تو تعین کا ایک درجہ ہے اور اس لئے اس مرتبہ وجود (یعنی ثبوت) کو صوفیا عدم محض سے الگ کرتے ہوئے عدم کو دو اقسام میں رکھتے ہیں جسے سمجھنا ضروری ہے۔

عدم کسی شے کی نفی کو کہتے ہیں (یعنی وہ نہیں پائی جارہی)، لہذا عدم کا حکم کسی شے کے پائے جانے کے ساتھ ہے (اگرچہ وہ اعتباری ہو یا حقیقی)۔ دوسرے لفظوں میں عدم کسی وجود کی وجہ سے ہوتا ہے، یعنی کسی شے کے وجود کی نفی اس کی “ہویت” (ہونے) کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ مثلاً قدرت کا عدم عاجزی ہے، علم کا عدم جہل ہے، عدل کا عدم ظلم وغیرہ۔ انہیں “عدمات خاصہ” کہا جاتا ہے۔ ہر تعیین (یعنی خاص قید کے ساتھ شے کے ہونے) کی نفی سے خاص قسم کا عدم ثابت ہوگا۔ چنانچہ زید کا معذور ہونا ایک عدم ہے تو زید کا نابینا ہونا ایک اور قسم کا۔ ہر عدم خاص عدم متمیز کے طور پر مفہوم ہے کہ وہ ایک خاص حکم کا منشا ہے۔ الغرض ہر اسم الہی کا عکس ایک عدم خاص ہے۔ اس کے برعکس “عدم عامہ” کا مطلب ایسا عدم ہے جو کسی بھی حکم (اثبات و نفی) کو قبول نہ کرے، یہ عدم محض (یا امکان محض) ہے جو “وجود محض” (یا واجب) کے مقابلے پر ہے۔ چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ عدم (یعنی “پایا نہ جانا”) بھی اللہ کی طرف سے ہے کہ اللہ قادر ہے تو اس بنا پر اس کا عدم عاجزی ہے، وہ موجود ہے تو اس اعتبار سے عدم محض ہے۔

عدم سے خلق کا مطلب

عدم کی وضاحت کے بعد دوسرے سوال کی جانب چلتے ہیں۔ شیخ ابن عربی (م 1240 ء / 638 ھ) کا کہنا ہے کہ اسمائے الہیہ ازلی حقائق یا قابلیتیں ہیں جو اپنی حقیقتوں کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ مطلوبہ حقیقتیں عالم کی صورت ظاہر ہیں۔ مثلاً الوہیت (یا معبودیت) عبد کا تقاضا کرتی ہے، اسم خالق کا تقاضا ہے کہ مخلوق ہو نیز اللہ کے انگنت اسماء میں سے بعض وہ ہیں جو اپنے جلوے کے لیے مخلوق کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ رب و مربوب کا تعلق ہے کہ ذات باری جب چاہے جس پر چاہے تجلی کرے، نہ بھی کرے تو کوئی اسے پابند نہیں کرسکتا۔ اسماء الہیہ سے ظاہر ہونے والے یہ اعیان ان کے محتاج ہیں اور اسماء کا ثبوت کائنات سے متحقق ہے۔

درج بالا وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ عدم کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے موجودگی یا عدم کے احکام کو بنایا ہے۔ جس کا حصہ وہ اس کے عین ثابتہ سے کاٹ دے وہ معدوم کہلائے گی اور جس کا حصہ ظاہر کردے وہ موجود ہو جائے گی۔ لہٰذا جس وجودی نسبت یا حکم کو اللہ نے عدم فرمایا ہے اور اس کے وجود کی غیر موجودگی (یا عکس) پر اس کو لاگو کردیا ہے، صوفیا نے اس کو اشیا کے وجود کا مواد یا مسالہ ماننے یا نہ ماننے پر بحث کی ہے۔ لہذا مخلوق کے مسالے یا مواد سے متعلق اب سوال یوں ہے کہ یہ مخلوقات اسماء الہیہ (جو کہ مراتب وجود میں وجودی حقائق ہیں) کی وجہ سے ہیں یا ان کے عدمات کی وجہ سے؟ اس پر تین مواقف ہیں:

الف) یہ اسماء کی تجلی ہے،

ب) یہ ان کا عدم (یعنی عکوس) ہے،

ج) یہ ان دونوں کا مرکب ہے

پہلا موقف وجودیہ کا ہے، دوسرا شھودیہ کا اور تیسرا شاہ ولی اللہ صاحب (م 1762 ء / 1176 ھ) کا، یعنی ایک جہت سے دیکھو تو تجلی اور دوسری سے عدم ہے۔ اشیاء کو اعتباری وجود کہنے والوں نے ان کو اسماء کی تجلیات کہا جو بس اپنے عدمات خاصہ پر چمک اٹھی ہیں۔ مطلب یہ کہ قدرت نے عجز (یعنی قدرت کے عکس) کو وجود اعتباری دے کر اسے چمکا دیا ہے تو اب عاجز بھی ہیں اور قادر بھی۔ جنہوں نے مخلوق کو وجود اعتباری نہیں حقیقی مراد لیا انہوں نے کہا کہ معاملہ تو یوں ہی ہے مگر ہماری موجودگی کی اصل عاجزی یا میت ہونا ہے، ہم صرف اس لیے قادر یا زندہ ہیں کہ قادر مطلق کی نیست پر تجلی ہوئی ہے۔ ان دو آراء والوں کے مابین معاملہ بڑھ گیا تو شاہ صاحبؒ نے رفع دفع کردیا۔

پس مخلوق کا مسئلہ ہونے کے لحاظ سے چند امکانات تھے:

1) خود صفات ہی مسالہ بن کر عالم کی صورت ڈھل گئیں

2) صفات کی نفی یا عکوس عدمات خاصہ کی صورت تھی، قادر نے انہیں اپنے اسماء کے ذریعے چمکا کر ظاہر کردیا، یوں جو نیست تھا وہ ھست ہوگیا

صوفیاء کا موقف یہ دوسرا بیان ہے جس کی دو تعبیرات ہوئیں کہ اسما کی تجلی اپنے عدمات کو (بذریعہ اعیان ثابتہ) چمکاتی ہیں یا یوں کہا جانا چاہئے کہ اسما کی تجلی ان اعیان کو چمکاتی ہیں جن کی حقیقت اسماء کے عکوس ہونا ہے۔ پس اسماء کی وجہ سے اشیاء ہیں، مگر صوفیا کے نزدیک وہ ان کا عین نہیں ہیں جیسا کہ ناقدین کو شبہ لگا۔ ان کے نزدیک بھی کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے لیکن عدم از خود کچھ نہ تھا بلکہ اسماء کے عکوس تھے۔ پس یہاں جو بھی مسالہ بنا وہ نیستی محض یا فاقد الذات ہے اور اس لحاظ سے اپنی حقیقت میں عدم ہی ہے۔ اور جو نیست تھا وہ بھی اپنی ذاتی حیثیت میں متحقق نہیں تھا بلکہ ذات باری ہی کی بنا پر تھا جسے ذات باری نے بس چمکا دیا۔ اسی لئے شیخ ابن عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ “اعیان ثابتہ نے وجود کی بو تک نہیں سونگھی نیز وہ اب بھی عدم پر ہیں”۔ اور جب وہ کہتے ہیں کہ صرف ذات باری ہی کائنات میں متحقق و جلوہ گر ہے تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ الغرض ایک فیضان ہے جو کائنات کا نظام جاری کررہا ہے، وہ نہ ہو تو کائنات میں خود قیام کی کوئی صلاحیت نہیں ہے اور اس کو فنا ہونے کے لیے بے ترتیب نہیں ہونا پڑے گا بس فیضان منقطع ہوجائے تو یہ ہے ہی نہیں، بس عدم ہے۔

یہاں سے وجودیہ کی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مخلوق (ممکنات) کا کوئی حقیقی وجود نہیں، وجود صرف واجب کو حاصل ہے جو از خود قائم ہوتا ہے۔ کائنات کی تخلیق کا مطلب نہ یہ ہے کہ ذات باری نے اپنے سوا پہلے سے موجود کسی شے (مثلاً ھیولی) کو کسی خاص ڈھب پر ڈھال دیا ہے اور نہ یہ ہے کہ اس نے وجود کو اس طرح کسی شے کی ذاتی صفت بنادیا ہے کہ خلق کے بعد دو مستقل وجود ہوگئے ہیں اور نہ یہ کہ اپنی ذات اور صفات ہی کو کائنات بنا دیا ہے۔ کائنات کے وجود کو خدا کے وجود سے اتنی نسبت بھی نہیں جتنی کہ مثلاً ہاتھ میں پکڑے پین کی حرکت کو حاصل ہے جو ہاتھ کی حرکت سے بالواسطہ حرکت کرتا ہے کہ پین کی حقیقت ہاتھ کے مقابلے میں عدم نہیں۔ جب وجود اور اسماء کی طرف نظر کرو گے تو ان کے عکوس (یعنی مخلوق) معدوم ہی نظر آئیں گے، جب عدم کے ظہور کے پس پردہ کار فرما تجلی کی جانب نظر کرو گے تو ظاہر شدہ مخلوق کے باطن میں اسماء ہی کا عکس جھلکتا دکھائی دے گا۔ شہودیہ اور وجودیہ میں اس سے زیادہ فرق نہیں کہ دونوں ایک سکے کے دو رخوں (flip sides) میں سے ایک جانب پر زیادہ زور دیتے دکھائی دیتے ہیں: وجودیہ کہتے ہیں عکوس اسماء میں جو چمکا ہے اس کا منبع و حقیقت اسما کی تجلی ہے، شہودیہ کا زور اس پر ہے کہ جو چمکا ہے اس کی حقیقت معدوم ہونا ہے اور دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چمکا ہے وہ وجود میں شامل نہیں (شہودیہ کی جانب سے دوسرے پہلو پر زور دئیے جانے کی وجہ بعض جاہل وجودیہ کا غلو تھا)۔ الغرض صوفیاء کی اس بات کو مجموعی تناظر سے کاٹ کر اور ان کی بعض عبارات کو بنیاد بنا کر ناقدین کی جانب سے شیخ ابن عربی پر چڑھائی کی جاتی ہے کہ ان کے نزدیک ذات باری یا اس کی صفات ہی کا بطور مواد یا مسالہ کائنات کی صورت ظہور ہوگیا ہے۔ شیخ ایسی بات کہنے سے کوسوں دور ہیں۔ جو کائنات وجود میں شامل نہیں بلکہ صرف وجود اعتباری اور اپنی اصل میں نیست ہے بھلا وہ ذات باری کیسے ہوگئی جو کہ وجود ہے؟ اس بات کو سمجھو۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں