خلافت، خلیفہ اور ساورنٹی
ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا سیاسی تصور اور سیاسی ادارہ خلافت ہے اور اسے پوری مسلم تاریخ میں شرعی تائید حاصل رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ خلافت (اور امارت) کوئی سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ عین شرعی تصور ہے۔ خلافت اور خلیفہ کی اصطلاحات سے ساورنٹی کا تصور نہ صرف خارج ہے بلکہ خلافت اور ساورنٹی باہم متضاد ہیں۔ نیابت ساورنٹی کی ضد ہے۔ نیابت عبدیت ہی کی ایک جہت ہے جبکہ جدید ریاست اپنے میکانکی وجود کو ساورنٹی سے متصف کر کے خدا کی replacement بن جاتی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ جدیدیت ماورائے انسان ایک وجود کو قائم کر کے اس کو ساورنٹی سے متصف قرار دیتی ہے، اور یہ وجود حسی اور بدیہی طور پر قابل فہم اور قابل رسائی نہیں ہے۔ اس وجود کی غیرجسمی تشکیلات صرف اور صرف نظری طور پر قابل رسائی اور قابل فہم ہیں جبکہ اس کے جسمی اور مادی مظاہر روزمرہ کا انسانی تجربہ ہیں۔ ہماری دینی روایت میں خلیفہ ساورن نہیں ہے، اور نہ خلافت ساورن ہے بلکہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
جدید پیداواری عمل اور جدید ریاست
جدیدیت کے دو بنیادی تہذیبی تصورات ہیں: آزادی اور ترقی۔ اور ترقی کی تہذیبی تشکیل میں پیداواری عمل کو مرکزیت حاصل ہے جبکہ آزادی اور حریت کے تصورات سیاسی اداروں، خاص طور پر جدید ریاست کے ذریعے بروئے کار لائے گئے ہیں۔ ہم عصر دنیا میں سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا پیداواری عمل ترقی، خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ جدید دنیا میں خوشحالی اور طاقت کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ فراہم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں فروغ پانے والے علوم سے پیداواری عمل کا موضوع خارج ہے۔ علی گڑھ نے بھی استعماری جدیدیت کے کلچر کو اخذ کیا اور تعلیم میں ریس گری کو فروغ دے کر ایک پوری غلامانہ تہذیب کی تشکیل کی۔ انیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی ہی میں جاپان کا جدیدیت سے ٹاکرا (encounter) ہوا، اور وہ میجی انقلاب کے ذریعے آقائے سرسید کے انتقال تک جاپان دنیا کے طاقتور ملکوں میں شامل ہو چکا تھا۔ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جان پائے کہ سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا صنعتی پیداواری عمل قوموں کی طاقت و قوت کا واحد مدار ہے۔ ہمارے علوم اس بابت بھی کوئی گفتگو نہیں کرتے کہ پیداواری عمل کے قیام کے لیے کون سے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حالات ضروری ہوتے ہیں۔ صنعتی پیداواری عمل سائنسی علم، مشینی عمل اور مہارتوں (انسانی عمل) کی یکتائی سے اس وقت قائم ہوتا ہے جب سیاسی اور تعلیمی کلچر اس کا مؤید ہو۔
مغربی علوم میں پیداواری عمل ایک مستقل موضوع ہے اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سائنسی، فنی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پیداواری عمل براہِ راست جدید ریاست کی نگہداری میں فروغ پاتا ہے اور قومی سیکورٹی سے براہ راست متعلق ہونے کی وجہ سے اپنے ترقی یافتہ ترین پہلوؤں میں اسے صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر پہلوؤں میں یہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، اور ہر معاشرہ اسے اپنی خوشحالی اور طاقت کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔ پیداواری عمل کی جو بھی تعریفات متعین کی جائیں اور اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ جس بھی پہلو سے لیا جائے، ایک بات اپنی جگہ مستقل ہے کہ یہ خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ مذہب، کلچر، اقدار یا نظریے کی آڑ میں اس سے دستبردار ہونا مسلم معاشروں کے لیے ازحد مہلک ثابت ہوا ہے۔ تفہیم مغرب یا تفہیم جدیدیت کے نئے مکاتب فکر بھی صنعتی پیداواری عمل کو مسلم معاشروں کے لیے ازحد مضر خیال کرتے ہیں اور فکری طور پر اس کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پیداواری عمل کے انسانی اور سماجی مطالعات سے اس کے وہ پہلو بھی ثابت ہو چکے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کو دیکھنا اور ان کا شرعی حل تجویز کرنا ضروری ہے۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ دو سو سالہ فکرِ اسلامی میں سائنسی پیداواری عمل سرچشمۂ طاقت و خوشحالی کے طور پر خارج ہے۔ جدید ریاست کے حوالے سے بھی بہت خلط مبحث ہے۔ سیاسی اسلام اس کا والہ و شیدا ہے جبکہ فکری تجدد جدید ریاست اور مذہب میں کسی بھی قسم کی نسبتوں کے منکر ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جدید تاریخ کے طاقتور ترین مؤثر یعنی جدید ریاست کو دین سے اس طرح منقطع کر دیا جائے۔ یہ کہنا کہ جدید ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اصلاً مذہب ہی کا انکار ہے۔
لیکن اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست ایک میکانکی اور ٹکنالوجیائی وجود ہے۔ یہ ماورائے انسان ایک entity یا وجود ہے جو ساورنٹی کا حامل ہے کیونکہ اگر یہ وجود نہ ہو تو ساورنٹی سے متصف کیونکر ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں مذہبی اہل علم نے جدید ریاست کے ساورن ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس کا نام نہاد حل یہ کہہ کے نکالا کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہے بلکہ ”حاکمیت اعلیٰ“ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس طرح ایک جدید سیاسی تصور اور ایمانی تصور میں ایسا خلط مبحث پیدا کیا گیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ابھی تک سجھائی نہیں دیتا، اور اس نے ہمارے دینی تصورِ الٰہ کو اساسی سطح پر تبدیل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سیاسی حاکم اعلیٰ ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا درست جواب یہ ہے کہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
سیکولر قانون اور شریعت کی جدید ریاست سے نسبتیں قطعی مختلف اور متضاد ہیں جس کو سمجھنے میں ہمارے اہل علم فاش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قانون جدید ریاست کا سب سے بڑا اور مؤثر ترین آلہ ہے، اور جو مسلمان شریعت سے ادنیٰ واقفیت بھی رکھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے ریاست کا آلہ (instrument) کسی صورت نہیں بنایا جا سکتا۔ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو سیکولر قانون پر محمول کر کے ”نفاذِ قوانین اسلامی“ کی جدوجہد میں مصروف چلی آتی ہیں، اور وہ شریعت کو سسٹم اور ریاست کی میکانکی اوضاع کا آلہ بنا دینا چاہتی ہیں تاکہ جدید ریاست کے نہادِ جبر کو شرعی جواز بھی دیا جا سکے۔ یہ موقف ترک شریعت اور قطعی انسان دشمن ہے۔
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ جدیدیت اور تہذیب مغرب کی نادرست تفہیمات نے مسلمانوں میں بالعموم ایک ایسی منتقمانہ داخلیت (revengful subjectivity) پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کا تاریخی معروض ان کے مدرکات سے خارج ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر وہ جدیدیت کے پیدا کردہ سب سے بڑے دو مظاہر یعنی ریاست اور سرمایہ داری نظام کو قطعی غیر اسلامی قرار دے کر ان کے خلاف نبردآزما ہیں حالانکہ جدید عہد میں یہی دو مظاہر طاقت اور قوت کا سرچشمہ ہیں۔ اسلام مکمل ہدایت ہے تو ہمیں ان کا بھی کوئی شرعی حل سامنے لانا چاہیے، اور یہ حل ان دونوں کی درست علمی تفہیم سے مشروط ہے۔
کمنت کیجے