علامہ ابن القیم کے حوالے سے دنیا کی مختلف تہذیبوں میں ان کی اپنی وضع کردہ “عقلیات” کو معیار ماننے کا ذکر کیا گیا تھا۔ دور جدید کی غالب تہذیب بھی اس سے مستثنی نہیں۔ ہر تہذیب اپنی خاص “عقلیات” کو داخلی سطح کی فکری گفتگو میں بھی بنیاد بناتی ہے اور مخالف عقلیات پر کوئی حکم لگانے کا جواز بھی اسی سے اخذ کرتی ہے۔ جدید عقلیات بھی بعینہ یہی کام کرتی ہے۔
اس کی ایک مثال جدید الحاد کی طرف سے متبعین مذہب پر اچھالا گیا یہ سوال ہے کہ مذہبی افراد کی اکثریت اس خاص مذہبی روایت ہی کی پیروی کر رہی ہوتی ہے جو اسے اپنے والدین کی طرف سے ملی ہو۔ چونکہ انھوں نے غیر جانب داری سے مختلف مذہبی روایتوں کا مطالعہ کر کے درست اور صحیح مذہب کا انتخاب نہیں کیا ہوتا، اس لیے انھیں مان لینا چاہیے کہ مذہب کی اس کے سوا کوئی حقیقت ہے ہی نہیں کہ انسان اپنے والدین اور ماحول کے سکھائے ہوئے تعصبات کو نبھانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اگر انسان فکری جرات سے کام لے کر اس نفسیاتی دباؤ سے خود کو آزاد کر لے تو وہ فوراً اصل حقیقت یعنی الحاد کو پا لے گا۔
استدلال میں جدید تہذیبی فکر کی “جمالیات” تو نمایاں ہے، یعنی یہ کہ انسان کے فکری وعقلی شرف کا اصل معیار یہ ہے کہ ہر فرد خود اپنی ذاتی جستجو سے کسی نتیجے تک پہنچے۔ تاہم منطقی طور پر اس استدلال میں دو واضح جھول ہیں:
ایک یہ کہ اس میں انسانوں کے کسی امر سے متعلق فیصلے یا انتخاب کے طریقے کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ چونکہ لوگوں کا معیار عموماً موضوعی ہوتا ہے، اس لیے فی نفسہ وہ سوال بھی ایک موضوعی امر ہے، اور کوئی معروضی حقیقت نہیں ہے۔ ظاہر ہے، یہ منطق صرف مذہب کے معاملے میں ہی کارآمد مانی جا رہی ہے، ورنہ کسی دوسرے فکری سوال میں کوئی معقول آدمی اس منطق کو استعمال نہیں کرتا۔
دوسرا یہ کہ یہ استدلال اس عام مشاہدے کی کوئی توجیہ پیش نہیں کرتا کہ دنیا میں بہت سے لوگ اپنی ذاتی جستجو سے مختلف مذہبی روایتوں کے مطالعے کے بعد بھی کسی مذہب کا انتخاب کرتے رہتے ہیں۔ اگر واقعی اصل مسئلہ شخصی اور ذاتی جستجو کے اہم ہونے کا ہے تو پھر ایسے لوگوں پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ لیکن کیا الحادی فکر ایسے لوگوں کے فیصلے اور انتخاب کو قبول کرتے ہوئے مذہب کو ایک معروضی اور قابل تحقیق امر مان لیتی ہے؟ ظاہر ہے، نہیں بلکہ اب ایک اور حکم لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، یعنی یہ کہ صرف خاص مذہبی روایتوں کے پیروکاروں کا مسئلہ نہیں، بلکہ دراصل مجموعی طور پر پوری انسانیت ہی مذہبی جستجو کی صورت میں ایک غیر عقلی سرگرمی میں مصروف رہی ہے جس سے اس کو صرف جدید “عقلیات” پر ایمان ہی نجات دلا سکتا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ جو استدلال بظاہر ایک عام اور سادہ سا عقلی استدلال لگ رہا تھا، اس کی جڑیں دراصل ایک خاص تہذیبی عقلیت کے اس “حکم” میں پیوست ہیں جو وہ مخالف تہذیبی عقلیات پر لگاتی ہے۔
اس وضاحت سے ہم اس تلبیس کو بھی سمجھ سکتے ہیں جو زیربحث استدلال میں انفرادی جستجو کی مدد سے “درست اور صحیح” مذہب کے انتخاب کے نکتے میں پائی جاتی ہے۔ جدید عقلیات سرے سے کسی درست اور صحیح مذہب کے امکان کو ہی نہیں مانتی کہ اس کے لیے انفرادی جستجو کی اہمیت باور کرا سکے۔ یہ محض ایک تلبیس ہے جو سطحی ذہنوں کو الجھانے میں کارآمد ہو سکتی ہے۔ البتہ صحیح اور درست مذہب کے امکان کو ماننے کی صورت میں بھی مختلف تہذیبی “عقلیات” میں تصادم موجود رہتا ہے جو ختم نہیں ہو سکتا، یہ ایک الگ اور مستقل سوال ہے۔ اس پر کسی دوسری نشست میں بات کی جا سکتی ہے۔
کمنت کیجے