Home » طلاق دینا یا خلع لینا گناہ ہے، مکروہ ہے، جائز ہے یا پسندیدہ ہے؟
تفسیر وحدیث فقہ وقانون

طلاق دینا یا خلع لینا گناہ ہے، مکروہ ہے، جائز ہے یا پسندیدہ ہے؟

ازدواجی تعلق (marital             relationship) سے متعلق پچھلی دو پوسٹوں میں ایک کمنٹ یہ سامنے آیا کہ طلاق شریعت میں ایک ناپسندیدہ امر ہے اور دین میں اس کی ترغیب موجود نہیں ہے۔ دیکھیں، ہمارے ہاں دین کتاب وسنت سے زیادہ سوسائٹی سے سیکھا جاتا ہے۔ اکثر وبیشتر علماء بھی دین کے رواجی تصورات اور مروجہ تشریحات جو کہ اپنے اساتذہ سے سن سن کر وہ بڑے ہوئے ہوتے ہیں، انہی کو ساری زندگی دین سمجھتے رہتے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی صریح آیت یا حدیث بھی ان کے ان تصورات یا تشریحات کے خلاف آ بھی جائے تو اس کی دور ازکار یعنی بے سروپا تاویل کر لیں گے لیکن اس صریح آیت یا حدیث کو قبول نہیں کر پائیں گے۔ یہ اس خطے کی مذہبی نفسیات ہیں کہ جہاں رائج مذہبی تصورات یہ طے کرتے ہیں کہ دین کیا ہے اور کیا نہیں، نہ کہ دین کے بنیادی مصادر۔ دین کے بنیادی مصادر کو ان رائج مذہبی تصورات کی تفہیم وتاویل کے لیے ایک ٹول کے طور استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ کام سب مسالک ہی کرتے ہیں۔ بہت کم ہی علماء ان رائج دینی تصورات سے اٹھ کر براہ راست کتاب وسنت سے استفادہ کر پاتے ہیں جو کہ حقیقی سلفی منہج ہے۔

صحیح بات یہی ہے کہ طلاق کا اصل حکم اباحت کا ہے۔ باقی بعض صورتوں میں اس کی ترغیب بھی قرآن مجید میں موجود ہے۔ اب قرآن مجید ہی مطالعے میں نہ رہ گیا تو ذہن کبھی اس استدلال کی طرف جاتا ہی نہیں ہے۔ نالج بس ری پروڈیوس ہو رہا ہے، اس کی کریئیشن پر بین لگا دیا گیا ہے۔ اور نالج کری ایئیشن کا مطلب یہ بنا دیا گیا ہے کہ سلف کی خلاف ورزی۔ اگر نالج کری ایئیشن یعنی نئی علمی رائے کا اظہار یا مروجہ تصورات سے ہٹ کر براہ راست کتاب وسنت سے استدلال سلف کی مخالفت ہے تو اس مخالفت پر اہل علم کا عملا اجماع رہا ہے کہ ہر دور میں انہوں نے یہ کام کیا ہے۔ لہذا کوئی ایسا بات کرنا جو رائج مذہبی تصورات یا معتقدات کے خلاف ہو، قابل مذمت قرار پا گئی ہے، کبھی فقہاء اور کبھی سلف کی تقلید کے خوشنما نعروں کےساتھ۔ حالانکہ نہ تو فقہاء کی کلی تقلید ہو رہی ہوتی ہے اور نہ ہی سلف کی۔ بس اپنے رائج مذہبی تصورات کو دلیل کی کمک پہنچانے کے لیے فقہاء اور سلف کی منتخب آراء اور تشریحات ایک ہتھیار کے طور استعمال ہو جاتی ہیں۔

قرآن مجید میں ہے: وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ‎﴿١٣٠﴾ [النساء]۔ ترجمہ: اگر وہ دونوں یعنی میاں بیوی جدا ہونا چاہیں یعنی طلاق یا خلع چاہیں تو اللہ عزوجل ان میں سے ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا۔ یہ مقام ترغیب ہے کہ بعض صورتوں میں اگر زوجین نے طلاق کا فیصلہ لے لیا تو اللہ عزوجل ان دونوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور صرف کھڑا نہیں بلکہ مدد کے لیے کھڑا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نکاح ایک سوشل کانٹریکٹ ہے، اس کا ہونا اور ٹوٹنا ایک نارمل شیء ہے جیسا کہ بزنس کانٹریکٹ ہوتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ آپ اس کا روگ نہیں پال لیتے۔ قرآن مجید کا کم از کم بیانیہ یہی ہے کہ اسے ایک نارمل ایکٹوٹی کنسڈر کرو۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے: لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ‎﴿٢٣٦﴾ [البقرۃ]۔ ترجمہ: اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنی ان بیویوں کو طلاق دے دو کہ جن سے تم نے مباشرت نہ کی ہو۔ اب یہاں طلاق کو ایک مباح امر شمار کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے قرآن مجید کی نصوص سے یہی سمجھا ہے۔ کم از کم سلف کے منہج پر چلنے کا دعوی رکھنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ طلاق اور خلع کے باب میں صحابہ، صحابیات، تابعین اور تابعیات کا کیا رویہ اور طرز عمل تھا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ ان کے والد عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں۔ انہوں نے نہ دی کہ انہیں اپنی بیوی بہت محبوب تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بیوی کو طلاق دے دو۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر دے دی۔ یہاں خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ اور اپنی بیوی کے ساتھ ان کی سیٹنگ اچھی ہے۔ انہیں کوئی ایشو نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شکایت ہے۔ خود صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حد درجے متبع سنت ہیں۔ لیکن ان کے والد کو بیوی پسند نہیں۔ اس کی اس سے بہتر کوئی توجیہ ممکن نہیں ہے کہ یہ ایک سوشل کانٹریکٹ ہے کہ جس کا ہونا اور ٹوٹنا ایک نارمل شیء ہے۔

اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ اپنی بیوی عاتکہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دیں۔ انہوں نے نہ دی۔ بعد میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اصرار کیا تو طلاق دے دی۔ وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو محسوس ہوا کہ میرا بیٹا اپنی بیوی کی محبت میں دین سے دور ہو رہا ہے حالانکہ یہی بیٹا دین کی محبت میں طائف کی جنگ میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ اور حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں بھی آئیں بلکہ ان کی چچا زاد بہن بھی تھیں۔ شاعرہ اور بہت نفیس الطبع اور حسین خاتون تھیں۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ان کے فراق میں اشعار بھی کہے ہیں کہ جن میں اپنی بیوی کے اخلاق اور دین کی تعریف کی ہے اور ان سے اپنے تعلق کی گہرائی کو زبان کی وسعتوں کا جامہ پہنایا ہے۔

پھر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے طلاق کے قصے بہت معروف ہیں۔ سنن بیہقی کی ایک روایت کہ جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ، اس میں ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ستر سے زائد عورتوں سے شادی کی۔ اور ان کا کثرت سے طلاق دینا معروف ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ وہ ایک ساتھ چار عورتوں کو طلاق دے دیتے تھے اور چار ہی سے نکاح بھی کر لیتے تھے۔ آپ چونکہ وجیہہ تھے، کشادہ سینہ اور لمبے چوڑے، لہذا عورتوں کو ان سے نکاح میں دلچسپی ایک فطری امر تھا۔ انہیں رشتے مل جاتے تھے، تو وہ کر بھی لیتے تھے۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے بارے امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ انہوں نے ستر سے زائد شادیاں کیں۔ چونکہ بہت خوبصورت اور حسین وجمیل تھے اور تھے بھی سید لہذا رشتے مل جاتے تھے اور وہ کر بھی لیتے تھے۔ لیکن بہت جلد طلاق بھی دے دیتے تھے۔ یہاں تک کہ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ سے یہ کہہ دیا تھا کہ میرے بیٹے کو اپنی بیٹی نہ دو کہ وہ طلاق دینے میں جلدی کرتے ہیں۔ اس پر ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہم تو دیں گے۔ آگے ان کی مرضی ہے، بسائیں یا طلاق دیں۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بہت معروف ہے جو کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک جملے کی وجہ سے جو کہ نا شکری کا کلمہ تھا، اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو کہہ دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اور انہوں نے دے بھی دی۔ اب کہتے ہیں کہ طلاق کی وجہ ہونی چاہیے۔ اور وجوہات بھی کیا منقول ہیں؟ ایک ناشکری کا کلمہ۔ کہ جس کا احساس خاوند کو بھی نہیں ہے بلکہ سسر کو ہوا ہے۔ دین سے دوری کہ جس کا احساس خاوند کو نہیں ہو رہا لیکن حضرات شیخین کو ہو رہا ہے تو اپنے بیٹوں کو طلاق کا حکم دے رہے ہیں۔

صحابہ بلکہ صحابیات کے بھی اس طرز عمل اور رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی نصوص سے یہی سمجھا کہ طلاق ایک نارمل امر ہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کی ناشکری سے ڈرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا علیحدگی چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے شوہر کو حق مہر واپس کروایا اور خلع کروا دی۔ یہ تو خلع کی وجوہات ہوتی تھیں۔ بس شوہر پسند نہیں ہے، دین بھی اچھا، اخلاق بھی اچھے۔ لیکن چونکہ پسند نہیں لہذا ناشکری ہونے کا اندیشہ ہے۔ علیحدہ ہو جائیں۔

البتہ یہ بات درست ہے کہ عرب طلاق کو بھی نارمل سمجھتے تھے اور دوسری شادی بلکہ بیوی، مطلقہ اور خلع یافتہ سے شادی کو بھی اس سے بھی زیادہ نارمل لیتے تھے۔ اسی وجہ سے وہاں توازن تھا کہ ایک مطلقہ اور خلع یافتہ کو فورا رشتہ مل جاتا تھا کہ کثرت ازواج کی وجہ سے کوئی عورت بغیر خاوند رہ نہ پاتی تھی۔ اس لیے کنواری عورت کی طرح خلع یافتہ، مطلقہ اور بیوہ عورت کی بھی قدر تھی۔ اس کے بھی رشتے اسی طرح آتے تھے، جس طرح کہ کنواری کے آتے تھے کہ کثرت ازواج یعنی زیادہ شادیوں کے سبب عورتوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی تھی اور سپلائی کم پڑ رہی تھی۔ یہ ازدواجی زندگی میں عربوں کلچر اور رواج تھا جو خیر القرون میں رائج تھا۔ اب تو طلاق، خلع اور علیحدگی ایک گالی بن چکی ہے۔ اور خلع یافتہ، مطلقہ اور بیوہ سے کوئی نکاح کرنے کو تیار نہیں۔ اور دوسری شادی کو کوئی برداشت نہیں کرتا۔ شادی ایک کانٹریکٹ ہے، بن گئی تو ٹھیک، نہیں تو موو آن، موو آن، موو آن۔ زندگی کو عذاب نہ بنائیں۔ اس سارے پیکج کو سوسائٹی میں رواج دیں۔ یہ کہنا چاہتے ہیں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جَون کی بیٹی کو طلاق دی۔ یہ قصہ بخاری میں مختلف اسانید سے موجود ہے۔ اور وجہ صرف اتنی تھی کہ اس خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دے دی۔ بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں یا کسی زوجہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب زفاف میں یہ کلمات کہنے کے لیے ابھارا تھا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں لیکن اس خاتون کا کچھ جاننا یا نہ جاننا معنی نہیں رکھتا کہ طلاق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ تو اتنی سی بات پر اس طلاق کے دینے کا جواز تھا تو دی تھی۔ بعض مرسل روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو بھی طلاق دے دی تھی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ طلاق کا ارادہ کیا تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔ ان روایات کی ایک ہی معقول توجیہ ممکن ہے کہ طلاق دو پارٹیز کے مابین ایک سوشل کانٹریکٹ کو ختم کرنے کا نام ہے، بس۔ اور یہ ختم کرنے کا اختیار دونوں پارٹیز کے لیے اس کانٹریکٹ کے انعقاد کے وقت ہی سے موجود ہوتا ہے اور بلاوجہ بھی یا معمولی سی وجہ پر بھی ختم کرنے کا اختیار موجود ہوتا ہے۔ تکلف، ذہنی وقلبی اذیت اور مر مر کر رشتہ نبھانے سے زیادہ اہم آپ کے نفس کا سکون اور اطمینان ہے جو دین آپ کو دینا چاہتا ہے لیکن آپ لینا نہیں چاہتے۔ جزاکم اللہ خیرا

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں