کراچی میں پاکستان کا پہلا ذخیرۂ انسانی دودھ (ہیومن مِلک بینک قائم ہوا ہے)، پاکستان جیسے ملک میں اس کے چلنے کے کتنے امکان ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، البتہ سوشل میڈیا پر مولوی اور انٹی مولوی دونوں طبقوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا آگیا ہے. ایک طبقے کی نظر میں کبائر کے درجے کا ایک منکَر وجود میں آگیا ہے جس کا فوری خاتمہ ضروری ہے، دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے اور ان مولویوں کو پتا ہی نہیں ہے. اصل بات یہ ہے کہ یہ معاملہ پاکستان میں پہلی مرتبہ نمایاں ہوا ہے وگرنہ دنیا میں یہ تصور تقریباً نصف صدی پرانا ہے اور علما بھی کئی فورمز پر دہائیاں پہلے اس پر بحث شروع کر چکے ہیں. 1985 میں مجمع الفقہ الاسلامی جدہ میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آچکا ہے، اسی طرح اس سے چند سال پہلے کویت کے کسی فورم پر بھی یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا تھا، اس لیے یہ مسئلہ نیا نہیں ہے.
مجمع الفقہ الاسلامی کے متعلقہ اجلاس سے پہلے دو صرف دو مقالے موصول ہوئے (حالانکہ عموماً ایک ایک موضوع پر کئی کئی مقالات آئے ہوتے ہیں) ، ایک ڈاکٹر یوسف القرضاوي کی طرف سے جس میں اس عمل کو مستحسن قرار دیا گیا ہے، اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس دودھ سے رضاعی رشتہ ثابت نہیں ہوگا. دوسرا مقالہ ڈاکٹر محمد علی البار کا ہے جس میں ڈاکٹر قرضاوی کے بر عکس رائے اختیار کی گئی ہے. مباحثے میں بھی چند حضرات ہی شریک ہوئے ہیں، جن میں ڈاکٹر مصطفی زرقاء نے قرضاوی صاحب کی حمایت کی ہے اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ڈاکٹر علی البار کی. ڈاکٹر محمد المختار السلامی نے حرمت رضاع کے بارے میں فی الحال کوئی رائے قائم نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے. یہ ساری شخصیات عالم اسلام کی بھاری بھر کم شخصیات ہیں. ہمارے وہ لوگ جو اپنے چند بزرگوں کو ہی علمی دنیا سمجھتے ہیں انھیں یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ زرقاء خاندان کا حوالہ فقہی مسائل میں کتنا وزن رکھتا ہے.
آخر میں مجمع کی قرار داد میں یہ کہا گیا ہے کہ اس طرح کے ملک بینک قائم کرنا ناجائز ہے، دو وجہ سے، ایک تو اس پر مرتب ہونے والے مفاسد کی وجہ سے دوسرے اس دودھ سے حرمتِ رضاع ثابت ہو جائے گی اور پتا نہیں چلے گا کہ کون کس کا رشتہ دار بن رہا ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ قرار داد میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ قرار داد کثرتِ رائے سے منظور ہوئی ہے یا اتفاق رائے سے. بظاہر عدمِ حرمت اور توقف والی رائے سے ان حضرات نے رجوع نہیں کیا ہوگا. (ساری تفصیل کے لیے مجمع کے مجلہ کے شمارہ نمبر 2 میں دیکھی جا سکتی ہے).
بہرحال نہ تو مولویوں کو کوئی طعنہ دینا بنتا ہے کہ اتنا بڑا کام ہو گیا اور انھیں خبر بھی نہ ہوئی اور نہ ہی اس مسئلے کو لے کر جذباتی ہونے کی ضرورت ہے کہ کوئی بڑا منکَر پیدا ہونے جا رہا ہے. مسئلہ بہر حال اختلافی ہے اور اہلِ سنت کی چاروں فقہوں کے مطابق ایسے مسائل میں فیصلہ کن بات ولاۃ الامر کی ہوتی ہے. ویسے بھی جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ پاکستان جیسے ملک میں معلوم نہیں یہ کام چلتا بھی ہے یا چند تنظیموں کا وقتی شوق ثابت ہوتا ہے. اس طرح کے مسائل کو فوراً جذباتی مسئلہ بنانے کا مطلب تفقہ کا دروازہ بند کرنے کا مترادف ہے.
باقی میری ذاتی رائے میں مفاسد والی دلیل پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے، مغرب کی اندھی تقلید کی بجائے باقی دنیا کے تجربات اور نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، تاہم اس دودھ سے رضاعی رشتہ ثابت ہونے والی بات خاصی کمزور معلوم ہوتی ہے اور اس کے بر عکس رائے قرآنی تعبیرات کے زیادہ قریب ہے، تفصیل پھر سہی.
کمنت کیجے