Home » علامہ اقبال کا خط مسٹر تھامپشن کے نام
تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

علامہ اقبال کا خط مسٹر تھامپشن کے نام

آج کل علامہ اقبال کا ایک خط انٹرنیٹ پر گردش کررہاہے جو اقبال نے 4 مارچ 1934 کے روز ایڈورڈ تھامپسن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں اقبال کے مندرجہ ذیل الفاظ کی وجہ سے اس خط کو انٹرنیٹ پر وائرل کیا گیاہے،

’’مائی ڈیئر مسٹر تھامپسن!

میری کتاب پر آپ کا تبصرہ ابھی موصول ہوا ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ پیرائے کا تبصرہ ہے اور میں ان تمام کلمات خیر کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے میرے متعلق کہے ہیں۔ لیکن آپ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی طرف آپ کو فوراً متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ آپ مجھے ’’منصوبۂ پاکستان‘‘ کا حامی قرار دیتے ہیں۔اب(بات یہ ہے کہ) پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبۂ صدارت میں جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف ایک مسلم صوبہ کی تشکیل ہے۔ یعنی ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ یہ نیا صوبہ میرے منصوبہ کے مطابق مجوزہ ہندوستانی فیڈریشن کا ایک حصہ ہوگا۔ جبکہ (اِس نئے) پاکستان کے منصوبے میں ایک جداگانہ وفاق کی تجویز رکھی گئی ہے، جو براہِ راست انگلستان سے مربوط ایک علیحدہ ریاست ہوگی۔ یہ منصوبہ کیمبرج میں پیدا ہوا اوراس کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ ہم راؤنڈٹیبلرز نے مسلم قوم کو ہندوستان کی نام نہاد قومیت کی بھینٹ چڑھادیاہے۔‘‘

اس خط سے یہ تاثر دیا جارہاہے کہ پاکستان علامہ اقبال کے نظریے پر وجود میں نہیں آیا، بلکہ اقبال تو اس کے مخالف تھے۔ یقیناً اقبال ایک ایسی ریاست کے قیام کے تو بہر طور مخالف تھے جو براہِ راست انگلستان کے زیرتسلط ہوتی، اور اس خط کا حقیقی تاثر بھی یہی ہے۔ لیکن 23 مارچ 1940 کی قراردادِ پاکستان میں جس پاکستان کا منصوبہ سامنے آیا تھا، اقبال اس کے ہرگز مخالف نہیں تھے۔ اس کا ثبوت اقبال کے ان خطوط میں موجود ہے جو انہوں نے 1937 میں قائدِ اعظم کو لکھے۔ ان خطوط میں سے ایک خط میں، جو اقبال نے 28 مئی 1937 کے روز قائدِ اعظم کو لکھا ، اقبال کے یہ الفاظ بھی نہایت وضاحت کے ساتھ موجود ہیں کہ،

’’ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔‘‘

اسی خط میں آگے چل کر دوبارہ لکھا کہ

’’ میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھرم اشتراکی جمہوریت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریّت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصولِ شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہوگا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے، مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا؟‘‘

اقبال کے، قائدِ اعظم کے نام باقی خطوط میں بھی ایسی ریاست یا ریاستوں کے واضح اشارے موجود ہیں جن کے قیام کا خیال اقبال، قائد کے ذہن میں ڈال رہے تھے۔ تاہم اس خط سے واضح ہوجاتاہے کہ اقبال نے نہ صرف مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کی تائید کی بلکہ یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کے لیے کسی بہت بڑے وفاق کی ضرورت کوئی خاص امرِ ناگزیر نہیں ہے۔ اگر ایک ریاست نہیں ملتی تو ایک سے زیادہ مل جائیں۔ گویا بنگلہ دیش کا وجود میں آجانا بھی قطعاً اقبال کے نظریۂ پاکستان کا ہرگز اِنہدام نہیں تھا۔

سچ یہ ہے کہ قائدِ اعظم 1947 میں جب بے حد کمزور صحت کے ساتھ دن رات پاکستان کے حصول کے لیے انتھک محنت کررہے تھے، تو اس وقت ان کے اطراف میں مسلم لیگ کے وہی لوگ جو نواب اور سردار تھے یا طبقۂ امرأ سے تھے اور غریبوں کے ہرگز نمائندہ نہیں تھے، بکثرت جمع ہوگئے تھے ۔ یہی وہ لوگ تھے جن سے اقبال ، قائدِ اعظم کو گاہے بگاہے منتبہ کرتے رہے تھے۔ مثلاً اسی خط میں جو میں نے اوپر دیا، اقبال کے مندرجہ ذیل الفاظ بھی موجود ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجیے!

’’ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی، جنھوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی۔‘‘

یہاں ذراغورکیجیے! ’’مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ’’بالائی طبقوں‘‘ کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی‘‘۔ یہی وہ بالائی طبقہ ہے جو بنگال میں تو کم، لیکن پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ یہ جاگیردار اورسردارلوگ تھے۔ عوام سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب انگریز کی حکومت تھی تو ان میں سے زیادہ تر مخدوم ، سید، وڈیرے، نواب اورجاگیردار انگریز کے بہی خواہ اور نمک خوار تھے۔ چنانچہ یہ لوگ 1947 میں جب قائدِ اعظم کے چاروں طرف بکثرت جمع ہوگئے تو قائدِ اعظم کو بھی بہت جلد احساس ہوگیا کہ پاکستان کا پروگرام ہائی جیک ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متعدد مواقع پر فوج کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کی ہدایت کی اور ان سرداروں کو موقع بموقع ڈانٹا اور غیر جمہوری حرکتوں سے منع کیا۔ سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب والے دن تو قائد نے لیاقت علی خان سمیت بڑے بڑے سرداروں کے لیے رکھی گئی کرسیاں ہال سے فقط اس لیے اٹھوادی تھیں کہ یہ لوگ تقریب میں پہنچنے کے لیے وقت کی پابندی نہ کرپا ئے تھے اور دیر سے پہنچے تھے۔ الغرض قائد ان نوابوں اور سرداروں سے قطعاً خوش نہیں تھے۔

اور یہ بھی سچ ہے کہ اقبال کے بعد قائدِ اعظم بالکل اکیلے رہ گئے تھے۔ وہ اقبال کی ہدایات اور نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے الگ ریاست کے حصول کی جدوجہد تو کررہے تھے لیکن اس بات سے بھی واقف تھے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد پاکستان کو ہائی جیک کرنے کی کوشش بھی کی جائےگی، جو کہ کی گئی۔ قائدِ اعظم کو دُور زیارت میں رکھ کر پیچھے کیا کچھ کیاجاتا رہا اس سے متعلق بہت کچھ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد اور خصوصاً قائد کی بیماری اور پھر ان کی بے وقت وفات سے دشمن طاقتوں نے جس طرح کے پاکستان کا نقشہ قوم کے سامنے رکھا ، قوم ہرگز اس پاکستان کے لیے تیار نہیں تھی۔ پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفرللہ نے تو علی الاعلان قائدِ اعظم کا جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس پر مستزاد پاکستان کا پہلا چیف آف دی آرمی سٹاف انگریز تھا، جبکہ ہندوستان کا پہلا چیف آف دی آرمی سٹاف ہندو تھا۔ پھر چیفوں کی دسترس میں پاکستان آیا تو اس کے بعد کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ خصوصاً قائدِ اعظم کی بہن مادرِ ملت فاطمہ جناح کے خلاف جنرل ایوب کا الیکشن اس نئے پاکستان کا سب سے بڑا ثبوت ہے جو ہم سے چھین کر،یعنی فارم سینتالیس پر بنا لیاگیاتھا۔

ادریس احمد آزاد

ادریس آزاد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور متعدد دیگر تعلیمی اداروں میں فلسفہ اور سائنس کے شعبوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔
idrisazad@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں