تہافت الفلاسفہ اور تہافت التہافت کا مطالعہ کرنے والوں کو سب سے پہلے ان بیس مسائل کی فہرست بہت غور سے دیکھنی چاہیے جو غزالی کی تہافت الفلاسفہ میں زیر بحث آئے ہیں اور جنہیں ایک فہرست کے عنوان سے خود غزالی نے کتاب کے آغاز میں ذکر کیا ہے۔ اگر امعان نظر کے ساتھ اس فہرست کو دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اپنی اس کتاب کے اندر غزالی کے پیش نظر صرف دو امور ہیں:
نمبر1
فارابی اور بوعلی سینا کے فلسفہ کے ان امور کی نشان دہی جو خلاف اسلام ہیں، اب ظاہر ہے کہ ان امور کی نشان دہی کے لیے فلسفیانہ ابحاث چھیڑنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، یہ کام نصوص شرعیہ کی روشنی میں ہوگا اور آج بھی بآسانی ہوسکتا ہے۔ سو یہ پہلو نہ تو تہافت کا غالب موضوع ہے اور نہ ہی اس حوالہ سے دین کے طالب علموں کو تہافت الفلاسفہ کا زیادہ مطالعہ کرنے کی احتیاج!
نمبر2
تشکیکی دلائل کو واضح کرکے یہ بات ثابت کرنا کہ فلاسفہ کے الہیاتی نظریات ہرگز کسی قطعیت کے حامل نہیں جیساکہ فلسفی سمجھتے ہیں، بلکہ محض ظنی افکار ہیں اور اسلامی نکتہء نظر سے کسی بات کا ظنی وغیر یقینی ہونا ہی اسے الہیات کے باب میں مسترد کرنے کے لیے کافی ہے۔ سو جتنے فلسفیانہ ابحاث غزالی نے اپنی اس کتاب میں چھیڑے ہیں، وہ در اصل یہی ثابت کرنے کے لیے ہیں کہ فارابی اور بوعلی سینا کا فلسفہ الہیات قطعا کوئی حتمی چیز نہیں ہے۔ یہ بات جہاں بیس مسائل کی فہرست سے معلوم ہوتی ہے، وہیں غزالی کی بعض صریح عبارات سے بھی معلوم ہوتی ہے۔
یہ ساری گفتگو متعلقہ حوالہ جات کے ساتھ ہماری کتاب غزالی اور ابن رشد کا قضیہ’ کے باب دوم اور سوم میں’ موجود ہے۔
اگر اس مذکورہ گفتگو کو ہضم کرلیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ غزالی کا یہ دوسرا موضوع ہی دراصل غزالی کی کتاب کا غالب موضوع ہے، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ آج کے زمانہ میں ہمیں اس پہلو سے بھی غزالی کی کتاب کا تدقیقی مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ کیوں؟ جی ہاں، اس لیے کہ فلسفہء الہیات اپنے موجودہ مغربی عہد کے اندر اس بات کا خود ہی اعتراف کرچکا ہے کہ فلسفہ کی کل کائنات ظنیت ہے اور اس سے بڑھ کر ایک انچ بھی نہیں۔ آپ اسے غزالی ہی کی لگائی گئی تشکیکی ضرب کا اعجاز کہیں یا پھر مغربی فلاسفہ کی حقیقت پسندی، مگر حقیقت یہی ہے کہ فلسفہء الہیات اپنے موجودہ مغربی عہد میں اپنی اس ظنی حیثیت کا اعتراف کرچکا ہے۔
سو اس عہد کے تناظر میں ہمیں غزالی کی اس گفتگو کا بھی تدقیقی مطالعہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جو انہوں نے فلسفہء الہیات میں تشکیک کو اجاگر کرنے کے لیے ذکر کی۔ اگر اس عہد میں مغربی فلاسفہ کے بالمقابل ہمیں کچھ کہنے یا بتانے کی کوئی ضرورت ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اسلامی نکتہء نظر کی رو سے الہیات کے باب میں کوئی ظنی اور غیر یقینی نکتہء نظر کیوں ناقابل قبول ہے؟ نیز یہ کہ غیبیات کے حوالہ سے انبیاء کی قطعی الثبوت اور بدیہی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے خود میں عبودیت اور بندگی کو استوار کرنے کے بامقصد کام میں مشغول ہونے کی بجائے، غیبیات کے حوالہ سے ظن وگمان کے فلسفیانہ تیر چلانے میں مشغول رہنا ایک فضول اور خطرناک کام ہے۔
یہ وہی بات ہے جو ہم نے اپنی کتاب کے باب پنجم وششم میں تفصیل سے لکھی ہے اور اس حوالہ سے ایک تفصیلی کلام اپنی کتاب “فلسفہ الحادِ جدید اور امام غزالی کا منہِ نکیر” میں کی ہے۔
غزالی کے ضمنی ابحاث کو چھوئے بغیر ان کے بنیادی مقدمات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر آپ اس نہج پر آگے بڑھیں تو نہ صرف غزالی کی کتاب کے بہت سے ضمنی ابحاث میں بلاوجہ الجھنے سے محفوظ رہیں گے، بلکہ آپ کو غزالی کا جواب لکھنے کی مشقت اٹھانے والے قاضی ابن رشد اندلسی کا جواب سمجھنے میں بھی بہت آسانی رہے گی۔ آپ سوچیں گے کہ وہ کیسے؟ تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
ابن رشد کی تہافت التہافت پڑھنے سے قبل ہمیں غزالی کے حوالہ سے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔
نمبر1
غزالی کا مخاطب تہافت الفلاسفہ کے اندر فلاسفہ کا وہ دبستان ہے جو فارابی اور بوعلی سینا کا پیروکار ہے، انہوں نے کسی اور دبستان کو مخاطب بنانے کی بجائے اسی دبستان کو ہی کیوں چنا، یہ ایک الگ بحث ہے جو ہماری کتاب کے باب سوم وچہارم میں موجود ہے۔ سردست یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کے جواب میں لکھی گئی کوئی بھی کتاب اسی صورت میں جواب کہلاسکتی ہے کہ جب وہ کم ازکم فارابی اور بوعلی سینا کی طرف سے کوئی صفائی دے۔
نمبر 2
غزالی کا مقصود اپنی کتاب تہافت الفلاسفہ کے اندر اسلام کے مقدمہ کو ثابت کرنا نہیں اور نہ ہی فلاسفہ کے نظریات کے بالمقابل دوسرے موقف کو درست سمجھتے ہوئے اس کا اثبات کرنا ہے۔ نہیں، بلکہ اس کے برعکس ان کا مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فلاسفہ اپنے جن الہیاتی نظریات کو قطعی کہتے ہیں، وہ قطعی نہیں، بلکہ ظنی ہیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے وہ جو دلائل دیتے ہیں وہ صرف تشکیک کو اجاگر کرنے کے لیے دیتے ہیں۔ اب اس کے جواب میں کوئی بھی کتاب اسی صورت میں جواب کہلا سکتی ہے کہ جب وہ بتائے کہ غزالی کے دلائل غلط ہیں، نیز فلاسفہ کے نظریات کے قطعی ہونے کے دلائل بیان کرے یا پھر کم از کم یہ پوزیشن اختیار کرے کہ فلاسفہ ان نظریات کو سرے سے قطعی سمجھتے ہی نہیں۔
غزالی کی ان دو بنیادی پوزیشنز کے مقابلہ میں ابن رشد کی پوزیشن کیا ہے؟ ہم نے کتاب کے باب سوم وچہارم میں غزالی اور ابن رشد کی درجنوں عبارات کا حوالہ دے کر، نیز کئی محققین کی عبارات کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ گو یہ بات عجیب ہی سہی، لیکن یہ سچ ہے کہ ابن رشد غزالی کا جواب دینے بلکہ سرے سے ان کا مدعا سمجھنے میں ہی ناکام رہا ہے۔
سو جب مقدمات میں ہی ابن رشد کی پوزیشن غلط ہے تو جزوی معاملات میں پڑ کر ان کا محاکمہ کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ غزالی کی جزوی ابحاث کی طرح انہیں بھی نظر انداز کردیجیے۔ اس زمانہ میں یہ قضیہ دیکھنے پرکھنے کا یہی انداز بامقصد، مختصر اور جامع ہے اور اسی کو ہماری کتاب میں اختیار کیا گیا ہے۔
کمنت کیجے