Home » عورتوں کی باہم جماعت وامامت اور امام ابو حنیفہ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار فقہ وقانون

عورتوں کی باہم جماعت وامامت اور امام ابو حنیفہ

زندگی میں متعدد بار اس موضوع پہ گفت وشنید کی نوبت آئی اور آج بھی ایک صاحبِ علم کے سوال پر فون پہ ان کے ساتھ اس حوالہ سے تقریبا دس پندرہ منٹ کی گفتگو کی۔ اس حوالہ سے اپنا حاصلِ مطالعہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق حضرت عائشہ، ام سلمہ اور بعض دیگر صحابیات کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے باہم جماعت کرنا ثابت ہے اور ایسی بعض روایات امام محمد نے بھی کتاب الآثار میں خود امام ابو حنیفہ کی سند سے نقل کی ہیں۔ چنانچہ انہی روایات کی وجہ سے شوافع بلا کراہت اس کے قائل ہیں۔

تاہم بعض حنفی فقہاء نے اسے مکروہ لکھا ہے، جبکہ امام محمد نے کتاب الآثار کے اندر امام ابوحنیفہ سے صرف اتنی بات نقل کی ہے کہ “لا یعجبنی” یعنی عورتوں کا کسی عورت ہی کی اقتداء میں باجماعت نماز ادا کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا جو ظاہر ہے کہ مکروہ تحریمی وغیرہ سے کہیں کم درجہ کا لفظ ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت دے رہے ہیں تو امام صاحب اس فعل کو ناخوشگوار کیوں کہہ رہے ہیں؟ بظاہر یہ بات عجیب ہے اور اسی وجہ سے مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی جیسے حنفی فقیہ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ “تحفۃ النبلاء” لکھ کر امام صاحب سے اختلاف بھی کیا ہے۔

اولا اپنا رجحان مولانا لکھنوی کی تحقیق کی طرف تھا۔ تاہم یہ خلجان رہتا تھا کہ امام صاحب کے اسے ناپسندیدہ کہنے کی توجیہ کیسے کی جائے گی۔ مجتہد ظاہر ہے کہ نبی سے اختلاف تو نہیں کرسکتا اور جب امام صاحب خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فعل کی صریح اجازت نقل کر رہے ہیں تو پھر خود ہی اسے ناخوشگوار کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ اولا یہ خلجان صرف امام ابو حنیفہ کی طرف سے تھا، مگر پھر مسند امام احمد بن حنبل میں ام المومنین عائشہ رضہ اللہ عنہا کا قول پڑھا کہ عورتوں کے باہم جماعت وامامت کرانے میں کوئی خیر نہیں، اسے پڑھ کر خلجان دو چند ہوگیا کہ جب حضرت عائشہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت نقل کرتی ہیں تو پھر یہ کس طرح کہہ سکتی ہیں کہ اس میں کوئی خیر نہیں۔

کچھ غور و خوض کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ اس مسئلہ میں امام صاحب اور حضرت عائشہ کی رائے کو شاید ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا۔ یہ شاید ایسا ہی ہے کہ جیسے امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہوتا رہا کہ وہ نمازِ استسقاء کو سنت نہیں سمجھتے، حالانکہ نمازِ استسقاء حدیث سے ثابت ہے۔ اس پر بھی اہلِ علم کے ہاں سوال اٹھتا رہا کہ امام ابو حنیفہ حدیث سے ثابت ایک عمل کو غیر مسنون کیوں کر کہہ سکتے ہیں، بعض محققین نے اس کے جواب میں بھی یہی لکھا کہ امام ابو حنیفہ اس کی مطلق سنیت کے منکر نہیں، بلکہ اسے عام معمول بنانے کی سنیت کے منکر ہیں۔ (دیکھیے: حاشیہ مولانا احمد علی سہارنپوری بر صحیح البخاری) اور یہ ظاہر ہے کہ بالکل درست بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ استسقاء بے شک ثابت ہے، مگر اسے معمول بنانا ثابت نہیں، بلکہ بعض موقعوں پر اس کے لیے صرف دعا کرنا ثابت ہے۔

سو امام ابو حنیفہ کے جس قول کو سنت کا انکار سمجھا جا رہا تھا، وہ دراصل سنت کے زیادہ دقیق فہم پر مبنی ہے۔ امام ابو حنیفہ گویا یہ چاہتے ہیں کہ جس عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے ہر وقت کا معمول نہیں بنایا، اسے ہر وقت معمول بنانے کو سنت نہ سمجھا جائے۔ جیساکہ بعض علماء قبروں پر تازہ شاخیں رکھنے کے منکر تو نہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کام ایک آدھ دفعہ کرنا ثابت ہے اور باقاعدہ معمول بنانا ثابت نہیں، اسی طرح ہمیں بھی کام اکا دکا بار کرنا چاہیے اور باقاعدہ معمول نہیں بنانا چاہیے۔

ہمارے خیال میں کچھ ایسا ہی معاملہ شاید عورتوں کے باہم جماعت وامامت کرانے کا بھی ہے۔ امام صاحب یا حضرت عائشہ اس حوالہ سے مطلق ناپسندیدگی کا اظہار کس طرح کر سکتے ہیں جبکہ وہ خود اس حوالہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح اجازت کے ناقل ہیں، یہ ناپسندیدگی ضرور کسی ایسے پہلو ہی کی وجہ سے ہے جو مثلا ہم نے ذکر کیا کہ وہ اسے پنج وقتہ نماز کا معمول بنانے کے خلاف ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت بے شک منقول ہے، مگر آپ ہی کے عہد میں عورتوں کے ہاں اس کا پنج وقتہ نماز کا کوئی باقاعدہ معمول نظر نہیں آتا۔ سو اکا دکا بار عورتوں کا باہم جماعت کرنا الگ چیز ہے، مگر سیدہ عائشہ اور امام ابو حنیفہ کی رائے میں اس کو باقاعدہ معمول بنانا گویا اچھا نہیں۔

واللہ اعلم

مولانا محمد عبد اللہ شارق

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں