بنکاری نظام ___اصل مسئلہ
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کنونشنل بنکس کی ٹرانزکشنز قرآن کی قطعی الثبوت قطعی الدلالت نصوص کی بنا پر سود ہیں ۔ اور نہ یہ کہ اسلامی بنکاری کسی قطعی الثبوت قطعی الدلالت نص کی رو سے اسلامی ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے جو واقعتاً گھمبیر ہے کہ بنکاری نظام خواہ کنونشنل ہو یا مروجہ اسلامی دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے آلہ کار ہیں۔جس میں وسائل معیشت ارباب ثروت کے طبقے میں گردش کرتے رہتے ہیں، اسلامی بنکاری میں کچھ زیادہ ہی رہتے ہیں ۔
جس کی قرآن نے ممانعت کرتے ہوئے “کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم”کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
سود کی اساس بھی اسی نقطے پر ہے کہ ارباب ثروت اپنے پیسے کو خلق خدا کی افادیت میں استعمال کرنے کے بجائے اس سے مزید دولت کشید کرتے ہیں اور وہ بھی محروم طبقات سے۔ جبکہ اسلامی نظام معیشت کی بنیاد زکوٰۃ پر ہے جس میں ارباب ثروت اپنی دولت کا کچھ حصہ ایسے لوگوں کے لیے بے مزد وقف کر دیتے ہیں جو محروم معیشت ہوتے ہیں۔ گویا یہ دو متعارض اور متحارب نظام ہائے معیشت ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ سود خوری سے بظاہر دولت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ کم ہو رہی ہوتی ہے۔جبکہ زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے بظاہر دولت میں کمی آرہی ہوتی ہے لیکن درحقیقت وہ بڑھ رہی ہوتی ہے۔یہ نکتہ محض ادبی یا مذہبی لطیفہ نہیں بلکہ معاشی ترقی کا اساسی نکتہ ہے اور وہ یوں کہ سود میں دولت کا بہاؤ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ غریب مزید قرض لے کر امیر کو سود ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا نتیجتاً امیر کا بھی بھرکس نکل جاتا ہے۔جبکہ زکوٰۃ میں دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہوتا ہے غریب اس سے ضروریات زندگی خریدتا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں مال کی طلب بڑھتی ہے۔معاشی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔مزید کارخانے لگتے ہیں مزید دولت پیدا ہوتی ہے اور مزید تقسیم ہونے سے معاشی سرگرمیاں مسلسل بڑھتی رہتی ہیں۔لیکن دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی کی وجہ سے اسلامی معاشی نظام کی خوبیوں پر لٹریچر تو بہت ملتا ہے لیکن کوئی عملی نمونہ موجود نہیں ہے۔
آج کل اسمبلی کے اندر اور باہر سود کے مسئلے پر داد سخن دے کر سیاست کی جا رہی ہے۔کچھ لوگ یہ کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ہم نے فلاں عدالت سے سود کو حرام قرار دلوا دیا ہے۔سود یا ربا کی وہ قسم جس کو قرآن نے قطعی حرام قرار دیا ہے اسے حرام قرار دینے کے لیے کسی عدالت کے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے۔ جسے اللہ نے حرام قرار دے دیا ہے اس پر حلت و حرمت کی بحث کرنا فاتر العقل ہونے کی علامت ہے۔
تاہم قرآنی ربا سمیت درجنوں معاشی، اقتصادی، کاروباری اور مالی امور میں مروجہ اسلامی بنکاری نے ہر طرح کے wayout دے کر عملا قانون الہی کو بے اثر کر دیا ہے۔ اسلامی بنکاری کے حق میں اور خلاف لکھنے والے جس بنیادی غلطی کا شکار ہیں وہ یہ ہے کہ اسلامی بنکاری کے ماہرین کے خیال میں مروجہ سسٹم میں فقہی جزئیات کی درست تطبیق نہ ہونے کے باعث کچھ خرابیاں در آئی ہیں اور ان جزئیات کی درست تطبیق کر دی جائے تو یہی سسٹم اسلامی ہو جاتا ہے۔تردید میں لکھنے والے بھی جزئیات کی تطبیق پر اعتراضات کرتے ہیں۔
جب کہ میری رائے میں اختلافات جزوی نہیں اصولی ہیں۔اسلام کا نظام معیشت کلیتا سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم سے مختلف ہے۔اور اس کے مطابق جس طرح کا بنکنگ سسٹم بنانے کی ضرورت ہے اس کی مہارت موجود نہیں ہے۔ شریعہ ایڈوائزرز کی کارکردگی پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے مقاصد شریعت میں سیر حاصل بحث کی ہے۔نیزاسلامی نظام معیشت کے مطابق بنکنگ سسٹم پر بھی نظری بحث ان کی کتاب اسلامی بنکاری میں بہت عمدہ ہے۔
مسئلہ سود کو اسلامی تعلیمات کے ماہرین بلکہ مجتہدین اور ماہرین معاشیات پر مشتمل ایک مجلس تدوین نظام معیشت تشکیل دے کر اس مسئلے کو کتاب اللہ کی قطعی الدلالۃ نصوص کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے کتاب اللہ کی نصوص کی روشنی، قرآنی کلیات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک براڈ بیس اسلامی معاشی سٹرکچر بنایا جائے۔ اس سلسلے میں جو آیات بطور خاص پیش نظر رکھنا ہونگی ان میں ایک یہ ہے کہ قرض دینے والے کو اپنا راس المال واپس ملنا چاہیے، دائن اور مدیون کسی پر بھی ظلم نہ ہو” ان تبتم فلکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون”
یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ راس المال کیا ہے؟ کیا راس المال سے گنتی مراد لینا درست ہے؟ کیونکہ گنتی کے ڈی ویلیو ہونے سے قرض دھندہ پر ظلم ہے اور ویلیو بڑھ جانے یا اضافہ لینے سے مقروض پر ظلم ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ یہودی یہودی سے کبھی سود نہیں لیتا. آپ نیٹ پر امریکن سٹاک ایکسچینج کو دیکھیں تو آپ کو ہر انوسٹمنٹ کے ساتھ انڈکسیشن الگ اور انٹرسٹ الگ درج ملے گا۔ ماہرین معیشت کے نزدیک انڈیکسیشن سود نہیں ہے بلکہ راس المال کو مستحکم رکھنا ہے۔
قرآن کا دوسرا حکم یہ ہے کہ سرمایہ گردش میں رہنا چاہیے تاکہ اس سے سرمایہ دار کو بھی فائدہ ہو اور معیشت بھی مضبوط ہو ملک و قوم ترقی کریں” والذین یکنزون الذھب والفضۃ”تیسرا حکم یہ ہے کہ سرمایہ کی گردش اس طرح نہ ہو کہ وہ ارباب ثروت میں ہی گردش کرتا اور ان کے لئیے مزید دولت سمیٹنے کا باعث ہو” لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم” نام نہاد اسلامی بنکاری قرآن کے ان قطعی مقاصد کے خلاف ہے۔ اس کی ایجاد درحقیقت نیک دل مسلمانوں سے، جو بنکوں سے سودی نظام کے باعث معاملات نہیں رکھتے تھے، سرمایہ نکالنے کا حیلہ ہے اور بس۔ میرے خیال میں جس پہلو سے اجتہاد کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انڈیکسیشن کو، جیسا کہ امام ابویوسف نے جائز قرار دیا ہے رواج دیا جائے۔زر، جو زمین، محنت اور تنظیم کی طرح ایک مستقل عامل پیدائش ہے، سالانہ شرح افزائش زر کی اساس پر اس کا حصہ متعین کر کے دوسرے عاملین پیدائش کی طرح اس کے حصے کو مضاربت پر قیاس کرتے ہوئے اسے سود کے بجائے منافع قرار دیا جائے۔
یہ امر بھی لائق تحقیق ہے کہ بنکوں اور مالیاتی اداروں میں رکھوائے گئے اثاثے کوئی شخص بنک کو بطور قرض نہیں دیتا بلکہ یا تو بنکوں میں امانت رکھوائی جاتی ہے جو کرنٹ اکاؤنٹ کہلاتا ہے اس پر کوئی بنک منافع نہیں دیتا یا سیونگ اکاؤنٹ ہوتا ہے جس کو بنک کاروبار میں استعمال کرتا ہے اور اس سے منافع کماتا ہے۔ مضاربت کے اصول کے تحت اس میں سے کھاتہ دار کو حصہ ملنا چاہیے تاہم اس پر زیادہ گہرائی سے ماہرین معیشت غور کر سکتے ہیں۔ علماء کرام کی اب تک کی تحقیقات علمی اور عملی دونوں اعتبار سے محل نظر ہیں۔
لیکن کیا سود کے مسئلے پر بات نعرہ بازی سے آگے بڑھے گی؟
شاید نہیں، کیوں کہ یہود ،جو ساری دنیا کی اکانومی پر قابض ہیں، ایسا کبھی نہیں ہونے دیتے اور ہم لوگ جو قدیم فقہی جزئیات کو ہی اساس دین سمجھتے ہیں بآسانی ان کے بھرے میں آ جاتے ہیں بالخصوص جب اس سے مادی مفادات بھی وابستہ ہو جائیں،تاہم مجھے معیشت کے اسلامی ہونے اور سود سے پاک ہونے کی ہرگز امید نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں جو واحد رکاوٹ تھی وہ اسلامی بنکاری نے دور کر دی ہے۔
قرآن حکیم نے علماء، فقہاء اور دولت مند طبقات کی ملی بھگت کو ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل، اسلامی تعلیمات کی راہ میں رکاوٹ اور آخرت کے عذاب الیم کا موجب ہے۔
کمنت کیجے