Home » تعددِ ازواج ، خلع، تنسیخِ نکاح اور ہماری سپریم کورٹ
فقہ وقانون

تعددِ ازواج ، خلع، تنسیخِ نکاح اور ہماری سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ زیرِ بحث ہے جس میں سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر پہلی بیوی کے ساتھ نکاح کے فسخ ہونے کا فیصلہ کیا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر شوہر نے دوسری عورت سے نکاح کیا تھا (ڈاکٹر فریال مقصود بنام خرم شہزاد درانی)۔ فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے اور جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ان سے اتفاق کیا ہے۔
اس فیصلے پر بہت دلچسپ سوالات پیدا ہوتے ہیں اور معزز ججوں نے جس طرح یہ فیصلہ کیا ہے، اس کے تجزیے سے کئی اہم حقائق سامنے آتے ہیں۔ تھوڑی فرصت ملتی ہے، تو اس پر بات کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر راغب نعیمی کی راے پر تبصرہ مقصود ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواہ یہ فیصلہ ملکی قانون کے مطابق ہو، لیکن یہ شریعت سے متصادم ہے کیونکہ شریعت میں دوسرے، تیسرے یا چوتھے نکاح کےلیے ایسی کوئی قید موجود نہیں ہے۔
اس سلسلے میں چند نکات عرض ہیں:
کوئی مسلمان خاتون کن اسباب کی بنا پر عدالت کے ذریعے اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے، اس کےلیے ہمارے ہاں 1939ء سے ’مسلم تنسیخِ نکاح ایکٹ‘ کے نام سے قانون رائج ہے۔ یہ قانون کیسے وجود میں آیا اور اس میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا کیا کردار رہا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ بہرحال اس قانون کی دفعہ 2 میں متعدد اسباب ذکر کیے گئے تھے جن کی بنیاد پر کوئی مسلمان خاتون تنسیخِ نکاح کا دعوی دائر کرسکتی تھی۔
1961ء میں جنرل ایوب خان نے مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس جاری کیا جس کی دفعہ 6 میں تعددِ ازواج کو منضبط کرنے کےلیے یہ اصول طے کیا کہ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرنے سے قبل ثالثی کونسل سے اجازت طلب کی جائے گی؛ ثالثی کونسل میں میاں بیوی کا ایک ایک نمائندہ ہوگا اور کونسل کی سربراہی یونین کونسل کے چیئرمین کو حاصل ہوگی؛ یہ کونسل فیصلہ کرے گی کہ اجازت دی جائے یا نہیں، اور اگر دی جائے، تو کن شرائط پر؟ اس ضابطے کی خلاف ورزی کو قابلِ سزا جرم بھی قرار دیا گیا، اگرچہ اس کی خلاف ورزی میں کیے گئے دوسرے (یا تیسرے یا چوتھے) نکاح کو ناجائز نہیں قرار دیا گیا۔ اس قانون کی دفعہ 13 کے ذریعے تنسیخِ نکاح کے ایکٹ کی دفعہ 2 میں ایک اور شق کا اضافہ کرکے اس بات کو بھی تنسیخ نکاح کے اسباب میں شامل کیا گیا کہ ثالثی کونسل کی اجازت کے بغیر دوسرا (تیسرا یا چوتھا) نکاح کیا جائے، تو پہلے سے موجود بیوی ( یابیویوں) کو حق ہوگا کہ وہ تنسیخِ نکاح کےلیے عدالت میں دعوی دائر کریں۔
1967ء میں سپریم کورٹ نے خورشید بی بی بنام بابو محمد امین کے مقدمے کے فیصلے کے ذزیعے تنسیخِ نکاح ایکٹ کو عملاًغیر مؤثر کردیا کیونکہ اس فیصلے نے ’عدالتی خلع‘ ایجاد کرکے عورت کو یہ حق دیا کہ اگر وہ شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، تو اسے کوئی سبب بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، بس اس کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، تو محض اس بنیاد پر ہی عدالت اس کا نکاح فسخ کردے گی۔ البتہ اسے اس کے عوض میں شوہر کو مہر لوٹانا ہوگا۔
اس کے بعد تنسیخِ نکاح کا قانون تو محض کاغذات میں ہی رہ گیا؛ عدالتی خلع نے سب کچھ لپیٹ لیا؛ البتہ مہر کا معاملہ پیچیدہ ہوگیا کیونکہ اکثر یہ تنازعہ جاری رہا کہ شوہر نے مہر ادا بھی کیا تھا یا نہیں، یا کتنا مہر معجل تھا اور کتنا مؤجل، نیز عورت جہیز میں کیا کچھ لائی تھی اور وہ اب ہے یا نہیں ہے، وغیرہ۔
جنرل مشرف نے ایک اور قانون عائلی عدالتوں کے ایکٹ کی دفعہ 10 میں ترمیم کرکے ’عدالتی خلع‘ کو ’آٹو میٹک خلع‘ میں تبدیل کردیا کیونکہ اب یہ طے پایا کہ عورت کی جانب سے خلع کے دعوے کے بعد پہلی پیشی میں ہی، اگر صلح کی کوشش ناکام ہو، تو عدالت پر لازم ہوگا کہ وہ نکاح فسخ کردے۔ البتہ مہر کا تنازعہ باقی رہا۔
اس تنازعے کے حل کےلیے ایک جانب ہماری عدالتوں نے اور دوسری جانب ہماری مقننہ نے عجیب ہی قلابازیاں کھائی ہیں، اور معاملہ وہی رہا کہ:
ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں!
بہرحال، اس دوران میں 1999ء میں وفاقی شرعی عدالت نے اللہ رکھا بنام وفاقِ پاکستان کے مقدمے کے فیصلے میں قرار دیا کہ مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس کی دفعہ 6، جس میں تعددِ ازواج کےلیے ثالثی کونسل کی اجازت کی شرط رکھی گئی ہے، اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہے۔ اسی طرح عدالتی خلع کو بھی وفاقی شرعی عدالت سندِ جواز عطا کرچکی ہے۔
ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کو خلافِ شریعت قرار دے رہے ہیں، تو اس کےلیے انھیں کہانی موجودہ مقدمے سے نہیں، بلکہ بہت پیچھے سے شروع کرنی ہوگی۔
اور ہاں۔
موجودہ مقدمے کی سماعت 3 مئی 2024ء کو ہوئی تھی لیکن فیصلہ 23 اکتوبر 2024ء کو سنایا گیا ہے، یعنی 5 مہینے اور 20 دن بعد۔ یہ تاخیر بھی افسوسناک ہے؛ اور مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ معزز جج جس نے یہ فیصلہ لکھا ہے، کی جانب سے اس طرح کی تاخیر کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئی ہے۔ وہ کئی دوسرے مقدمات کے فیصلے بھی اسی طرح مہینوں بعد سناتے رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں