معاویہ محب اللہ
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب علم و تحقیق کا بہت ستھرا ذوق رکھتے ہیں، اس سے پہلے بھی آپ کے قلم سے کئی تحقیقی کاوشیں منظر عام پر آ چکی ہیں ؛ فقہ الحدیث میں فقہائے احناف کا منہج، فقہائے احناف اور فہم حدیث، براھین، حدود و تعزیرات، جہاد ایک مطالعہ۔ ماہنامہ الشریعہ کی ادارت آپ کی خدمات کا منھ بولتا ثبوت ہے، جب تک آپ الشریعہ کے مدیر رہے رسالہ کو انتہائی علمی و تحقیقی معیار پر پابندی کے ساتھ قائم رکھا۔زیرِ تعارف کتاب تو گویا آپ کے تحقیقی ذوق آئینہ ہے۔
قرآن وسنت کے درمیان باہمی تعلق کی بحث اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت لطیف اور نازک ہے، صدیوں سے لیکر آج تک ہر زمانہ کے بہترین دماغوں نے اس بحث کو اپنی جد و جہد کا محور بنایا ہے، اس کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر مجتہد نے اپنے زاویۂ نظر سے دوسرے مجتہد کے رجحان پر نقد و تبصرہ کا حق ادا کیا ہے، اور اس کی خامیوں اور کمزوریوں کی طرف رہنمائی کرکے اصلاح کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ احناف آئمہ نے حنفی اصولیین کی اور شوافع ائمہ نے امام شافعی کے اصولی رجحان کی خامیوں کو تسلیم کیا ہے، چنانچہ اس بحث کو سنجیدگی اور گہرائی سے سمجھنے والے اہل علم دونوں کے وزن کو محسوس کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں اسی قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے رجحان کی تاریخی نوعیت کو بالتفصیل بیان کیا ہے، سب سے پہلے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تشریعی مقام اور اطاعت رسول کی اہمیت کو بیان کیا ہے، آپ کی عین ذات بحیثیت رسول احکام کا مآخذ تھی، قرآن مجید میں جا بجا اطاعت الٰہی کے ساتھ اطاعت رسول کو بیان کیا گیا ہے، اس کے باوجود خود دورِ نبوی اور دورِ صحابہ میں یہ رجحان عام تھا کہ فرمانِ رسول کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے، اور صحابہ کو جوں ہی قرآن کی کسی آیت کے مقابل رسول اللّٰہ کے قول سمجھنے میں دشواری ہوتی یا قرآن کی ایک آیت کو دوسری آیت کے مقابل سمجھنے میں پیچیدگی پیش آتی، دفعتاً اپنا اعتراض پیش کرتے، سیدنا عمر، عائشہ، ابن عباس (رضی اللّٰہ عنھم) نے مختلف احادیث کو قرآن کی روشنی میں رد و قبول کے معیار پر پرکھا ہے۔
دوسرے باب میں مذکور ہے کہ ابتدائی اسلامی تاریخ میں حدیث کے تعلق سے کیا کیا نقطاہائے نظر لائے جاتے تھے اور ان کا منھج کیا تھا ؟ خوارج اور معتزلہ کے یہاں قرآن مجید کے فہم میں حرفیت پسندی اور ظاہریت کی بنیاد پر بہت ساری احادیث کو عدمِ قبول کا رجحان عام ہے، اس وجہ سے بے شمار متفق علیہ روایتوں کو بظاہر قرآن کے مقابل ہونے کی وجہ سے رد کردیا گیا، انھیں میں بہت ساری روایات بھی ہیں جن کو احناف اور دیگر صحابہ نے بھی قوبل نہیں کیا ہے، لیکن دونوں گروہوں کے ورلڈ ویو میں بنیادی فرق ہے، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ؛
” اس سوال پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں بنیادی فرق نتیجے میں نہیں، بلکہ ذہنی رویے میں ہے، خوارج کا طرزِ فکر قرآن کے مقابلے میں احادیث سے بے اعتنائی کے رویے کا غماز تھا، جس میں ان کی سادہ فکری اور تفقہ کے فقدان نے ایک خاص طرح کی شدت بھی پیدا کردی تھی ” (72)
امام ابن حزم اور اصحاب ظواھر کے علاؤہ تقریبا تمام علمائے امت کے یہاں قرآن مجید کو مآخذِ احکام میں اصل و بنیاد اور سنت رسول کو شرح و وضاحت کا درجہ دینا مسلّم ہے، نیز قرآن مجید کا من و عن قطعی الثبوت ہونا اور اخبار آحاد کا ظنی الثبوت ہونا مسلم حقیقت ہے، اسی پیراڈائم کو مد نظر رکھتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللّٰہ نے سب سے پہلے کلامی انداز میں کتاب اللہ کے لئے سنت کا تشریح و تبیین ہونا متنوع حیثیات سے بیان فرمایا ہے ؛ (1) مجمل کی تفصیل (2) محتمل کی تعیین (3) ظاہری مفہوم میں توسیع (4) فروع و لوازم کی توضیح (5) قرآن سے استنباط اور (6) عام کی تخصیص۔ یہی عام کی تخصیص ہے جس میں امام شافعی نے اپنی حیرت انگیز ذہانت و فطری صلاحیت کا ثبوت پیش کیا ہے، اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو بالکل منفرد انداز میں بیان فرمایا ہے۔
احناف بھی تشریح و تبیین کے ضمن میں ؛ (1) مجمل کی تفصیل(2) محتمل کی تعیین کے سلسلے میں امام شافعی کے ساتھ ہے، لیکن احناف اور امام شافعی کے درمیان نقطۂ اختلاف نسخ القرآن بالسنہ کے اوپر آکر واضح ہوجاتا ہے، امام شافعی کے نزدیک سنت قرآن کی ناسخ نہیں بن سکتی، جبکہ احناف کے یہاں خبر متواتر، خبر مشہور اور وہ خبر واحد جسے تلقی بالقبول حاصل ہو جائے اس سے نسخ القرآن بھی درست ہے۔بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ احناف کے یہاں عام کی تخصیص کا اسلوب نسخ، تغییر اور تبدیل کے زمرے میں آتا ہے جبکہ امام شافعی کے نزدیک عام کی تخصیص بھی تشریح و تبیین ہی کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے امام طحاوی کے موقف کی وضاحت کی ہے جنہوں نے احناف اور امام شافعی دونوں کے اصولی رجحان سے استفادہ بھی کیا ہے اور اختلاف بھی کیا ہے۔
البتہ امام ابن حزم رحمہ اللّٰہ کا نقطۂ نظر پوری امت کے علماء و فقہاء کے بر خلاف منفرد رجحان پر قائم ہے، ان کے نزدیک کتاب اور سنت دونوں وحی الٰہی پر مبنی ہے، ان میں قطعی و ظنی کا سوال ہی بے معنی ہے، یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کی جو ذمہ دوری لی ہے وہ در اصل وحی الٰہی کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ صحیح حدیث ہو اور اس کی حفاظت کا سامان نہ کیا گیا ہو، چنانچہ امام ابن حزم کے یہاں مآخذ احکام میں قرآن و سنت دونوں کا یکساں مقام ہے، انہوں نے بعض باتوں میں امام شافعی اور احناف سے اختلاف بھی کیا ہے اور اتفاق بھی، اس کی روشنی میں اپنے نقطۂ نظر کو حیرت انگیز انداز میں پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ” جمہور اصولیین اور احناف کا مکالمہ ” کے عنوان کے تحت دونوں کے اصولی موقف میں خامیوں اور خوبیوں کو اجاگر کیا ہے، مثلا ؛ احناف کے رجحان میں یہ کہ ؛ جن دلائل سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کہاں اسلوبِ عموم سے اللّٰہ تعالیٰ کی مراد عام ہے اور کہاں نہیں، ان میں عقلی قرائن اور لفظ کے محتمل ہونے کے علاؤہ ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ ظاہری عموم کے مراد نہ ہونے پر علمائے سلف کا اتفاق ہو یا ان کے مابین اجتہادی اختلاف واقع ہوا ہو، اور انہوں نے اس اختلاف پر کوئی نکیر نہ فرمائی ہو۔ چنانچہ مذکورہ موقف میں آیت کے اپنے اسلوب اور قرائن کے لحاظ سے دلالتِ عموم کے قطعی ہونے میں حدیث جو کہ خارجی قرینہ ہے؛ سے استفادہ نہیں کیا، پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علمائے سلف کے اجماعی فہم یا باہمی اختلاف کی صورت میں عدمِ نکیر کو(جو خارجی قرائن ہے)کیونکر قبول کیا جاتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی، علماء ماوراء النھر اور اخیر دور میں علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی اسلوبِ عام کے ہر وقت قطعی ہونے میں تردد کا اظہار فرمایا ہے۔
ایسے ہی احناف کا دوسرا نقطۂ نظر یہ کہ ” بیان کے مقارن ہونے ” پر بھی فقہاء نے تنقیدیں کی ہیں۔
نیز شوافع ائمہ نے امام شافعی کے موقف کی علمی الجھنوں کی وضاحت فرمائی ہے ؛ اسلوبِ عموم ہر وقت قابلِ احتمال ہوتا ہے، اور وہ ظنی ہونے کے ساتھ تخصیص کا محتاج ہوتا ہے۔ اسی طرح جوازِ نسخ پر بھی شوافع ائمہ میں؛ امام الحرمین الجوینی، الکیا الہراسی وغیرہ نے اختلاف کا اظہار کیا ہے، یہاں تک کہ جمہور اصولیین ؛ رازی، غزالی، آمدی اور زرکشی وغیرہ نے اسی موقف کی تائید کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے آٹھویں باب میں امام شاطبی کے منھج ؛ مقاصدِ شریعت کی روشنی میں باہمی تعلق کی نوعیت کو اجاگر کیا ہے، احکام میں مقاصدِ شریعت کی بہت زیادہ اہمیت ہے، امام شاطبی کے یہاں تشریع کے مقاصد اور احکام شرعیہ میں ملحوظ انسانی مصالح کا تصور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، شاطبی مقاصد شریعت کی روشنی میں مآخذ میں قطعیت و ظنیت کی بحث کو حل کرتے ہیں، اس بحث میں ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے پہلے مقاصد شریعت اور مصالح کا مختصر خلاصہ پیش کیا ہے، اس کے بعد ذکر کیا ہے کہ ؛ امام شاطبی کے یہاں نصوص اپنے ثبوت اور دلالت دونوں اعتبار سے قطعی اور ظنی میں منقسم ہیں۔ نیز شاطبی کے نزدیک شریعت کلیات و اصول اور جزئیات و فروع پر مشتمل ہے، کلیات سے مراد اجتماعی مصالح و مقاصد ہیں اور تمام کلیات قطعی دلائل سے ماخوذ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کلیات ثبوت اور دلالت دونوں اعتبار سے قطعی دلائل پر منحصر ہوتے ہیں، اس بحث میں ڈاکٹر صاحب نے الموافقات سے امام شاطبی کے موقف کی بہترین وضاحت کی ہے۔
امام شاطبی کے نزدیک اخبار آحاد کا ظنی ہونا جس پر فروعات و جزئیات کا انحصار ہوتا ہے، اسے بھی حیرت انگیز نظام کے تحت جوڑتے ہیں، کلیات کے قطعی ہونے کے بعد جزئیات کے ظنی ہونے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، اس کے لئے انہوں نے ظنی دلائل کی قبولیت کے لئے مذکورہ معیار قائم کیا ہے ؛ (1) ظنی دلیل کسی قطعی اصول کی طرف راجع ہو تو قبول ہے (2) قطعی دلیل کی طرف راجع تو نہ ہو البتہ قطعی دلیل کے معارض نہ ہو تو قبول ہے (3) ظنی دلیل کسی ایک قطعی کے معارض تو ہو لیکن دوسری قطعی دلیل کے تحت آجاتی ہو تو قبول ہے (4) ظنی دلیل قطعی اصول سے معارض ہو اور دوسری قطعی اس کے مؤید نہ ہو تو ایسی ظنی دلیل کو رد کرنا واجب ہے اور ناقابل قبول ہے۔ غرض ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے امام شاطبی کے موقف کی دلنشین وضاحت کی ہے، یہ باب علم و فن سے دلچسپی رکھنے والے ہر طالب علم کے لئے نہایت قیمتی ہے۔
اسی مقاصد شریعت کے پس منظر میں شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی کے نقطۂ کو واضح کیا ہے، اور حجۃ اللّٰہ البالغہ سے کتاب وسنت کے باہمی تعلق کے خطوط کی تعیین کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
اخیر میں مکتب فراہی میں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے کے بعد اپنے استاد غامدی صاحب کے موقف کا خلاصہ اور مذکورہ تاریخی ورثہ سے تقابل پیش کیا ہے، غامدی صاحب کتاب و سنت کے باہمی تعلق کی بحث کو تاریخ میں ہونے والی بحثوں سے کیسے استفادہ کرتے ہیں؟ بطور خلاصہ عرض ہے کہ سنت کے کتاب اللہ کی تشریح و تبیین اور نسخ القرآن بالسنہ میں امام شافعی سے اتفاق کرتے ہیں۔ مآخذ شریعت میں ظنی اور قطعی دلائل میں امام شاطبی سے استفادہ کیا ہے، لیکن شاطبی کے یہاں کلیات تمام کے تمام شریعت کے مجموعی نصوص پر مبنی ہوتے ہیں، جبکہ غامدی صاحب کے یہاں تواتر اور عدم تواتر کو بنیاد کی بحث پیدا ہوتی ہے، اور تواتر میں ان کے نزدیک قرآن مجید کے ساتھ سنت بھی شامل ہے۔(مکتب غامدی کے منھج سے اتفاق و اختلاف فی الحال میرا موضوع نہیں ہے، لیکن یہ بھی اپنی نوعیت کی منفرد داستان ہے)
غرض ” کتاب وسنت کا باہمی تعلق ” نہایت عمدہ اور علمی و تحقیقی مواد پر مشتمل ہے، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ایک اعتبار سے امام شافعی کی الرسالہ، امام ابو بکر جصاص کی الفصول فی الاصول، امام ابن حزم کی الإحکام فی اصول الأحکام، امام شاطبی کی الموافقات، شاہ ولی اللّٰہ کی حجت اللّٰہ البالغہ اور جاوید احمد صاحب کی میزان کے اکثر اصولی مباحث کی تلخیص کا گنجینہ ہے، قرآن اور حدیث کے ہر طالب علم کو میں اس بات کا مشورہ دوں گا کہ اس کتاب کو اپنے مطالعہ میں رکھیں ! اور بار بار پڑھیں ! حدیث اور تفسیر پڑھانے والے اساتذہ اس کتاب کے مباحث کو ازبر کرلیں تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجاتا ہے۔ میں ڈاکٹر عمار ناصر صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ اس قدر نفیس تحقیقی کتاب پیش فرمائی ہے، یہ اس موضوع کا نقشِ اول ہے، لیکن نقش اول ہی ان مضبوط ستونوں پر قائم ہے کہ مستقبل میں اس موضوع لکھنے والوں کے لئے شاہ کلید ہے۔
کمنت کیجے