Home » ادب : اخفاء یا ابلاغ ؟
زبان وادب

ادب : اخفاء یا ابلاغ ؟

ادب حقائق کے بیان میں اخفا کا ضامن ہے نہ کہ ابلاغ کا۔ یا یوں کہیے کہ ادب حقائق کو کمی یا بیشی کے ساتھ پیش کرنے کی آرٹ ہے۔ یہ کبھی بھی حقائق کا ترجمان نہیں رہا۔ سچ پوچھیے تو آرٹ (فن) کی ہر قسم صداقت کو چھپانے اور حسّیات سے اوجھل رکھنے کے کام پر مامور ہے۔ شاید سائنس کبھی اِسی ظاہری دروغ بیانی کے ردّعمل میں پیدا ہوئی ہوگی۔ اور شاید اسی وجہ سے قران نے شاعروں کی اتباع کرنے والوں کو گمراہ کہا ہے۔

لیکن ادب کی شان ہی اخفا ہے۔ اگر اخفا نہیں تو وہ آرٹ نہیں سائنس ہوگی۔ میرا ایک دوست کہا کرتا تھا، ’’اللہ تعالٰی نے انسان کو، زبان اپنا مافی الضمیرچھپانے کے لیے عطا کی ہے‘‘۔ یہ بات ہر طرح کی زبان پر منطبق نہیں ہوتی لیکن ادب پر ہرطرح سے منطبق ہوتی ہے۔ اس کی سب سے آسان مثال یہ ہے کہ اگر آپ کسی منطقی طورپر صاف ستھرے اور صادق بیان میں تھوڑا سا ردوبدل کردیں تو وہ اپنی کُنہ میں ایک ادبی جملہ بن جاتاہے۔ بالکل ویسے جیسے آپ منطقی مغالطوں کو ارادۃً اختیار کرنا شروع کردیں تو مزاح نگاری کے بہترین فن پارے تخلیق ہوکر پورے کے پورے دور کو یوسفی یا پطرس کا دور بنادیتے ہیں۔ صنائع بدائع کی تمام قسمیں بلاغت کی بجائے حسنِ زبان و بیان کے طریقے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کو شعروادب کے ساتھ جوڑنا ناانصافی کے مترادف ہے۔ فصاحت و بلاغت کا خالص تعلق منطق اور سائنس کے ساتھ ہے نہ کہ ادب کے ساتھ۔ صنائع میں ہم جب صنعت ایہام، ابہام، تضاد، مراعات النظیر، اہمال، جمع، تفریق وغیرہ پڑھاتے ہیں تو فی الاصل حُسنِِ زبان کے لیے، نہ کہ اظہارصداقت کو آسان بنانے کی غرض سے۔
مشرقی اور مغربی زبانوں میں ایک بہت بڑا فرق ادبی و منطقی کا ہے۔ یونانیوں کی زبان ہی اپنی ماہیت میں منطقی تھی۔ اس کے برعکس عربی ایک ادبی زبان تھی۔ جب متیٰ بن یونس نے ابوسعید السیرافی کو عربی زبان کے فقط ادبی اور منطق کے لیے غیر مناسب ہونے کا طعنہ دیا تو ابوسعید السیرافی نے ایک عجب بات بتائی۔ اس نے کہا، ’’دراصل عربی اتنی فصیح و بلیغ ہے کہ اسے منطق کی ضرورت ہی نہیں۔ جب بیان واضح اور صاف ہو تو اعداد کے استعمال سے وضاحت ضروری نہیں رہتی (فقط مفہوم)‘‘۔ قران مُبین کی وجہ سے میرا بھی یہی خیال ہے کہ عربی جیسی زبان کو منطق کی ضرورت ہی نہیں۔

جب آپ کسی کو اپنے دل و دماغ میں موجود کوئی حقیقت بتانا چاہیں اور آپ کے پاس اسے بیان کرنے کے لیے تمام ذرائع موجود ہوں تو پھر کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ آپ ریاضیاتی منطق کا سہارا لے کر اُس بات میں موجود رُوحانی عنصر جو قلب و نگاہ کے لیے ایک قوتِ عمل کی سی طاقت رکھتاہے، ختم کردیں یا مفقود کردیں؟

اور اس سب پر مستزاد تو یہ حقیقت ہے کہ حقائق کا بیان ادب کا منصب ہی نہیں۔ ادیب ہونا پیشہ نہیں ہے، قدرت ہے۔ ادب حُسنِ بیان کی کوشش ہے لیکن اِس میں جہاں یہ سب سے بڑی خامی ہے کہ وہ حقیقت کو چھپا لیتاہے، وہاں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دلوں پر اثرانداز ہوتاہے۔ وہ شخصیت کو بدل دینے کا اہل ہے۔ وہ سماج میں موجود شخص کے کردار میں تبدیلی کے منصب پر فائز ہے۔ مجھے تو یوں لگتاہے جیسے بیانِ حقیقت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ فقط تبدیلیِ کردار کی ضرورت تھی۔ سائنس اور منطق فقط ردعمل ہے اور اس لیے فقط مادیت پسند۔

قران کے بارے میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ وہ کسی شاعر کا قول نہیں، وہ لاریب ہے اور اس کا منصبِ اوّل ہے ہدایت کی فراہمی۔ یوں گویا وہ شخصیت و کردار کو بدل دینے کی صلاحیت کے اعتبار سے ادبی اور بیانِ حقیقت میں سائنسی طرز کا ایسا امتزاج ہے جو نہ تو نظم کہلائے گا، نہ نثر اور نہ ہی مقالہ۔ وہ ایک بالکل ہی مختلف، واحد و یکتا اسلوب ہے، جو فقط قران کو ہی حاصل ہے۔

مختصر یہ کہ یکچشم اُسے نہیں کہا جاسکتا جسے ایک آنکھ سے دکھائی نہ دیتاہو، بلکہ فقط اسی کو کہا جاسکتاہے جو تصویر کا دوسرا رخ نہ دیکھ سکے۔ ادب کسی سماج کو تباہ کرنے میں ایٹم بم سے کم کردار ادا نہیں کرتا، کیونکہ اس میں زبان زدعام ہونے اور سماج کا حصہ بن کر کردار کو بدل دینے کی بدرجۂ اتم صلاحیت موجود ہے۔ شاعری کی بہتات اور ادبیات میں تقلید کی روش کسی سماج کے خاتمے کی طرف تیزرفتار سفر کی نشانی ہے۔
مجھے اس وقت حد سے زیادہ افسوس ہوتاہے جب میں اعلٰی تخلیقی اذہان کو فقط شعر گوئی کی کوشش میں اپنا وقت برباد کرتے ہوئے دیکھتاہوں۔ میرا جی چاہتاہے میں ان کے ساتھ لڑجاؤں۔ تخلیق کا وفور کسی اور جگہ استعمال میں لانا شاعری سے کم آسان ہے اس لیے ہماری تن آسانی ہمارے اعلٰی تخلیقی اذہان کو مسخ کیے چلی جارہی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ادریس احمد آزاد

ادریس آزاد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور متعدد دیگر تعلیمی اداروں میں فلسفہ اور سائنس کے شعبوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔
idrisazad@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں