Home » نام نہاد ادیب کے بے بنیاد دعوے: قرآن اور تورات کے متعلق (2)
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار کلام

نام نہاد ادیب کے بے بنیاد دعوے: قرآن اور تورات کے متعلق (2)

نقدِ بائبل کا پہلا مرحلہ: اصل عبرانی متن تک رسائی
عبرانی زبان میں صرف حروف صحیحہ (Consonants) ہیں اور اس میں حروف علت (Vowels) نہیں پائے جاتے۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں (سیدنا موسی علیہ السلام سے تقریباً 900 سال بعد) جب سُفریم (کاتب) عبرانی بائبل کی کتابت کررہے تھے، تو ابھی اعراب (زیر ، زبر ، پیش یا سکون) بھی وضع نہیں کیے گئے تھے۔ اس لیے بعد کے دور میں جب عبرانی زبان صرف کتابوں اور چند علما تک ہی محدود ہوگئی اور بولی جانے والی زبان (       Spoken Language) کے طور پر باقی نہیں رہی تو ایک ہی لفظ کو مختلف اعراب لگا کر مختلف انداز میں پڑھنا ممکن ہوگیا۔
سُفریم نے آیات اور ابواب کی تقسیم بھی نہیں کی۔ نیز ان سے کتابت اور نقل میں سماعت اور بصارت کی غلطیاں ہوتی تھیں اور مغربی محققین نے دکھایا ہے کہ ان غلطیوں میں بعض قصدا بھی ہوتی تھیں اور یہ کہ ان میں بہت سی غلطیاں متون میں داخل بھی ہوگئی ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا نے عبرانی متن کی کتابت میں درج ذیل نوعیت کی غلطیاں ذکر کی ہیں:
(1) لفظ سننے میں غلطی: مثلاً عبرانی تلفظ میں لفظ ’’کاف ‘‘دو طرح سے بولاجاتا تھا؛ ایک تو عربی کاف ہی کی طرح اور ایک عبرانی ’’خیت‘‘ (عربی خ)کی طرح ۔ چنانچہ ایک سامع لفظ ’’اخ ‘‘ میں خاء کی آواز کو خیت سمجھ کر اسے ’’بھائی ‘‘ لکھ سکتا تھا، جبکہ کوئی اور سامع اسے لفظ کاف سمجھ کر ’’یقینا‘‘ لکھ سکتا تھا۔
(2) دیکھنے میں غلطی: بعض عبرانی حروف ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتے ہیں، مثلاً حرف ’’بیت‘‘ (عربی ب) اور حرف ”کاف“۔ اس قسم کی غلطیوں کو درج ذیل چار صورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
(الف) کبھی لفظ میں کوئی حرف آگے پیچھے ہوجاتاتھا ۔ مثلاً ”قربم“ (ان کے اندرونی خیالات) کی جگہ ”قبرم“ (ان کی قبر) لکھا گیا۔
(ب) کبھی ایک ہی حرف یا لفظ دو دفعہ لکھا گیا۔
(ج) کبھی ایک ہی جملے میں ایک لفظ دوبار آیا ہے تو ان الفاظ کے درمیان کے الفاظ چھوٹ گئے۔
(د) کبھی دو جملے ایک ہی لفظ پر ختم ہوتے ہیں تو کاتب ایک جملے کے بجائے دوسرے کو دیکھ کر اس کے بعد لکھنا شروع کردیتا ہے ۔
(3) اعراب اور تلفظ کی غلطی: اعراب کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک لفظ کا تلفظ دو یا زائد طریقوں پر ممکن ہوتا تھا ۔ ایسے میں کاتب اپنے طور پر مناسب تلفظ اختیار کرلیتا تھا ۔ نیز چونکہ رموزِ اوقاف بھی نہیں تھے، اس لیے ایک ہی لفظ کو دو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ممکن تھا ۔ مثلاً ”ب ب ق ر ی م“ کو کسی نے ”ببقریم“ سمجھ لیا (بیلوں کے ساتھ)، اور کسی نے اسے ”ببقر – یم“ سمجھ لیا (بیل اور سمندر کے ساتھ)۔
(4) قصداً غلطی: کبھی کاتب متن میں اپنے طور پر تصحیح بھی کرلیتے تھے۔ مثلاً کسی مبہم لفظ کی جگہ آسان اور عام فہم لفظ لکھ دیا، یا کسی لفظ کی تشریح کردی جو کبھی حاشیے پر لکھ دی جاتی اور کبھی متن میں ہی، کبھی حاشیے کے الفاظ متن میں داخل کردیے جاتے تھے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کاتب کے سامنے ایک سے زائد مخطوطات ہوتے تھے اور وہ اختلاف کی صورت میں کسی ایک کو ترجیح نہیں دے پاتاتھا تو دونوں کو ہی درج کردیتا تھا۔
اس طرح کی غلطیوں اور تبدیلیوں کی وجہ سے ایک ہی صحیفے کی مختلف روایات گردش کرنے لگتیں ۔
اصل متن کے قریب تر پہنچنا نقدِ بائبل کی جدید مغربی روایت کے پہلے مرحلے کا کام ہے۔ اس وجہ سے اسے ’’متن کی تنقید“(Textual        Criticism) کہاجاتا ہے ۔ اسے ’’تنقید ابتدائی“ (Lower        Criticism) بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اصل متن کی نشاندہی کے بعد تنقید کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے ’’تنقید عالی“ (Higher        Criticism) کہاجاتا ہے۔
یہاں ایک لمحے کےلیے رک کر دو اہم باتوں پر توجہ کریں:
ایک یہ کہ بائبل کے متن کے زبانی حفظ کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ آج بھی پوری بائبل کا تو ایک طرف اس کے کسی ایک چھوٹے صحیفے کے اصل متن کا بھی کوئی ایک حافظ نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس قرآن کریم کے ہزاروں لاکھوں حفاظ ہر دور میں، دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں تراویح میں قرآن کریم کے اصل متن کی تلاوت جاری ہے۔ قرآن کریم کا یہ معجزہ ملحدین اور لبرلز تو ایک طرف، ہمارے الموردی دانشوروں کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔
دوسری یہ کہ یہود ونصاریٰ میں بائبل کے اصل متن کی حفاظت سے زیادہ توجہ دیگر زبانوں میں تراجم کی طرف رہی، حالانکہ تراجم کا انحصار بھی روایت شدہ کسی نسخے پر ہی ہوتا تھا اور پھر ہر مترجم کے اپنے بھی مسائل ہوتے ہیں، اس لیے ایک ہی آیت کے کئی مفاہیم سامنے آگئے۔ ان میں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی خاص نام کو جوں کا توں نقل کرنے کے بجاے اس کا ترجمہ کیاگیا، تو جملے کا مفہوم ہی تبدیل ہوگیا، اور کبھی اس کے برعکس کسی عام بات کو خاص نام سمجھ کر اصل میں نقل کیا گیا، تو اس سے بھی پورا مفہوم ہی تبدیل ہوگیا۔ اس کی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
تاہم فی الحال ہم ان کو نظر انداز کرکے ”اصل عبرانی متن“ کی بات کرتے ہیں۔
صحیح عبرانی متن کی دریافت کے لیے ماہرین جن مآخذ کی طرف جاتے ہیں، ان پر کچھ بات ضروری ہے۔
عبرانی مسوراتی متن (Masoretic        Text/MT)
عام طور پر ”مسوراتی علما“ (Masoretic        Scholars)کے وضع کردہ ’’مستند متن‘‘ کو بنیاد بناتے ہیں۔مسوراتی علما سے مراد چھٹی اور گیارھویں صدی عیسوی کے درمیانی عہد سے تعلق رکھنے والے وہ یہودی علما ہیں جنھوں نے عبرانی متن میں اعراب لگاکرسفریم کے کام کو تکمیل تک پہنچایا۔ عبرانی زبان میں ’’مسورۃ‘‘ کا مطلب روایت ہے۔ اس وقت دستیاب قدیم ترین مسوراتی متن، جس میں پوری یہودی بائبل موجود ہے ، لینن گراڈ بائبل ہے جسے 1008ء کی دستاویز سمجھاجاتا ہے ۔ (یاد کیجیے، نام نہاد ادیب کا مبالغہ: ”ہزاروں سال“!)
بحر مردار کے طومار (Dead Sea        Scrolls)
پچھلی صدی کے نصف اول تک صورتحال یہ تھی کہ قدیم ترین عبرانی نسخہ نویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا تھا ۔ صرف ایک چھوٹا سا قطعہ ایسا تھا جو پہلی صدی عیسوی کا تھا ۔ اس قطعے میں تورات کے سفر خروج باب 20 اور سفر استثنا باب 5 اور 6 کی چند آیات تھیں ۔ تاہم 1947ء میں بحر مردار کے کنارے واقع وادیٔ قمران میں بائبل کے قدیم طوماروںکی دریافت ہوئی جو پہلی اور دوسری صدی قبل از مسیح سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں ”سفر آستر“ کے ماسوا یہودی بائبل کے تمام صحائف کے ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں تورات کے ”سفر احبار“ کے علاوہ زبور کے، اور انبیاء کے صحائف میں ”سفر یسعیاہ“کے نسبتاً بڑے ٹکڑے ملے ہیں ۔
ان ٹکڑوں کی مدد سے پرانے تراجم پر نظر ثانی بھی کی جاتی ہے۔ چنانچہ انگریزی بائبل کے ’’نظر ثانی شدہ مستند نسخے“(Revised          Standard Version/RSV) میں کم از کم 13 مقامات ایسے ہیں جن میں مترجمین نے اختلافِ روایت کی صورت میں بحرِ مردار کے ان ٹکڑوں کو مسوراتی متن پر ترجیح دی ہے۔
یونانی ہفتادی ترجمہ(Septuagint/LXX)
بائبل کے قدیم تراجم سے بھی متن پر تنقید کے کام میں مدد لی جاتی ہے۔ ان تراجم میں سب سے اہم یونانی ’’ہفتادی ترجمہ‘‘ ہے، جو پہلی اور دوسری صدی قبل از مسیح میں مصر میں یونانی بولنے والے یہودی علما نے کیا تھا۔اس ترجمے میں 2-عزرا کے ماسوا وہ تمام صحائف بھی شامل ہیں جنہیں ’’متنازعہ/خفیہ اسفار“ (Apocrypha) کہاجاتا ہے اور جنھیں پروٹسٹنٹ مسیحی مستند نہیں مانتے، نہ ہی وہ ان کی بائبل کا حصہ ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ وادیٔ قمران کے طومار بعض مقامات پر اس ترجمے سے، اور بعض پر مسوراتی متن سے موافقت رکھتے ہیں۔
ارامی ترگوم (Targom)
بابل جلاوطنی کے بعد جب عبرانی زبان بولنے میں باقی نہیں رہی اور اس کی جگہ ارامی زبان نے لی، تو یہودی علما نے یہ سلسلہ شروع کیا کہ عبادت خانوں میں پہلے عبرانی متن پڑھتے تھے، پھر اس کامفہوم ارامی زبان میں بیان کرتے تھے۔ تورات کا ترگوم ایک ایک آیت کی تشریح پر مشتمل تھا، جبکہ صحائف انبیا کا ترجوم تین تین آیات کی تشریح پر مبنی تھا۔ارامی زبان کے ان ’’ترگوم‘‘ (تراجم) کو سیدنا مسیح علیہ السلام کی بعثت کے بہت عرصے بعد تحریری شکل دی گئی۔
سریانی پشیطہ (Peshitta)
عیسائی علما نے ان صحائف کے جو تراجم کیے ان میں دو نے کافی اہمیت اور شہرت حاصل کرلی۔ ایک سریانی زبان میں ترگوم تھا جو پہلی صدی عیسوی کے آخر یا دوسری صدی عیسوی کے اوائل میں کیا گیا۔ اس کو ’’پشیطہ‘‘ کہتے ہیں، جس کا ارامی زبان میں مطلب ہے ’’سادہ‘‘ یا ’’عوامی‘‘۔ پشیطہ پر ارامی ترگوم اور یونانی ہفتادی ترجمے کا گہرا اثر نظر آتا ہے ۔ یہ ترجمہ سریانی عیسائیوں میں تقریباً چار صدیوں تک باقاعدہ رائج رہا۔
لاطینی ولگاتا (Vulgate)
دوسرا مشہور مسیحی ترجمہ 382ء میں پوپ دماسس کے حکم پر مشہور عیسائی عالم سینٹ جیروم نے کیاتھا۔ اس کوولگاتا (’عوام تک پہنچانا‘ یا ’عوامی اشاعت‘) کہا جاتا ہے۔ اس ترجمے کی اہمیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1546ء میں کونسل آف ٹرینٹ نے اس ترجمہ کو رومن کیتھولک کلیسا کے لیے واحد مستند لاطینی ترجمہ قرار دیا تھا۔ نیز ولیم ٹنڈیل کے انگریزی ترجمے (1529ء) تک تمام انگریزی تراجم کا انحصار ولگاتا پر ہی تھا۔
ماہرین ان متون اور تراجم کا آپس میں موازنہ کرکے یہ متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل متن کیا تھا ۔ کبھی مسوراتی متن کو دیگر پر ترجیح دے دی جاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ تراجم میں کسی کو اصل عبرانی متن پر ترجیح دے دی جاتی ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ مسوراتی متن میں قائن (قابیل) کے یہ الفاظ موجود نہیں ہیں: ’’آ کھیت کو چلیں۔‘‘ تاہم یہ الفاظ سامریوں کی تورات، ہفتادی ترجمے، سریانی پشیطہ اور چند تغیرات کے ساتھ لاطینی ولگاتا میں موجود ہیں۔ چنانچہ کنگ جمیز ورژن (KJV) میں یہ الفاظ نہیں تھے، لیکن نظرِ ثانی شدہ RSV میں یہ الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔ پروٹسٹنٹ اردو ترجمے میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں جبکہ کیتھولک اردو ترجمے میں یہ الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔ (نام نہاد ادیب ہی بتاسکتے ہیں کہ ان الفاظ کو تورات کا حصہ مان لیا جائے یا نہیں؟)
تنقید جدید کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر مقامات پر مسوراتی علما نے عبرانی متن پر جو اعراب لگائے ہیں، وہ صحیح ہیں اور متن کا مفہوم صحیح طور پر ادا کرتے ہیں۔ تاہم کئی مقامات ایسے ہیں جہاں مسوراتی علما کے لگائے گئے اعراب صحیح نہیں ہیں۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ سِفر سلاطین میں سیدنا الیاس علیہ السلام کے متعلق مذکورہے کہ کوّے ان کے لیے خوراک لایا کرتے تھے۔ (1-سلاطین: باب 17، آیات 4-7) بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہاں مسوراتی علما نے لفظ پر صحیح اعراب نہیں لگائے ۔ اصل لفظ ”عربیم“ہے۔ مسوراتی علما نے اس کا تلفظ ”عُربیم“ کیا، جس کا مطلب ہے ’’کوّے‘‘ (عربی میں ع کی جگہ غ کے ساتھ: غُراب) ۔ ناقدین کے نزدیک اس کا صحیح تلفظ ”عَربیم“ تھا، جس کا مطلب ہے ’’عرب‘‘ ۔ گویا ناقدین کے نزدیک متن کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ عرب، نہ کہ کوّے، ان کے لیے خوراک لایا کرتے تھے۔
اس بات کی زد کہاں تک پڑتی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ ماضی ِ قریب میں لبنانی مؤرخ کمال صلیبی (م 2011ء) نے اسے اس کے منطقی نتائج تک پہنچاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بائبل میں مذکور واقعات کی اکثریت کا تعلق مصر یا فلسطین کی سرزمین سے نہیں، بلکہ مغربی عرب سے ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
Kamal        Salibi, The        Bible         Came         from         Arabia (London: Jonathan Cape, 1985).
کمال صلیبی نے پورے عبرانی متن سے اعراب ہٹا کر خود ہی اس پر اعراب لگانے کا کام کیا ۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے بعض نہایت اہم عبارات کا بالکل ہی مختلف ترجمہ کیا ۔ (ہمارے نام نہاد ادیب بتاسکتے ہیں کہ کیا قرآن کے متن کے ساتھ اس قسم کا کھلواڑ ممکن ہے؟)

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں