Home » سنیت کے مخمصے یا منہجِ سنیت سے عدمِ واقفیت
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار کلام

سنیت کے مخمصے یا منہجِ سنیت سے عدمِ واقفیت

جناب ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب نے واقعہ کربلا میں اہل سنت کے موقف کے مخمصوں کو ظاہر کرنے کے لئے تحریر لکھی ہے۔ اس پر ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ کو یہ مخمصے اس لئے نظر آرہے ہیں کیونکہ پاپولر اردو لٹریچر میں جو کچھ لکھا ہوا موجود ہے آپ نے اسے سنیت کے تقاضے فرض کرلیا ہے۔ اس کے برعکس سنی ائمہ کلام کا یہ طریقہ بحث نہیں کہ صحابہ میں سے ہے ہر ہر کردار کے ہر ہر فعل کی تکییف کی ذمہ داری سنیت کے کاندھوں پر لادی جائے۔ صحابہ کے تو آپس میں درجنوں معاملات میں اختلافات تھے یہاں تک کہ بسا اوقات ان کے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ سخت کلمات بھی ثابت ہیں، کیا ہر ہر مقام کو ایمان و کفر اور سنیت کا پیرایہ بنادیا جائے؟ ہرگز نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سنی نکتہ نگاہ سے صحابہ کو دین کی تبلیغ و تشریح میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، اس لئے ان سے متعلق بعض امور کو شعائر اہل سنت میں شمار کیا گیا ہے اور اسی کے تحت ضمناً مشاجرات کے باب میں ان کے چند اصولی احکام مقرر کئے گئے ہیں جیسے یہ کہ:
ا) سب صحابہ عادل ہیں
2) صحابی سے بھی گناہ و خطا کا صدور ہونا ممکن ہے
3) حضرت علی خلیفہ تھے اور ان کے مخالفین (جیسے حضرت عائشہ و حضرت امیر معاویہ) خطا پر تھے لیکن یہ مخالفت نہ کفر تھی اور نہ ہی فسق
4) ہم صحابہ میں سے کسی کو برا نہیں کہتے بلکہ ان سے محبت کرتے اور ان کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ اس کی فرع یہ ہے کہ حضرت حسین چونکہ صحابی رسولﷺ ہیں، اس لئے ان کی بھی تعظیم و محبت لازم ہے اور انہیں برا نہیں کہا جائے گا
اس کے بعد تاریخی روایات وغیرہ کی بنا پر معاشرتی و سیاسی تجزئیے کرکے مختلف گروہوں کے مواقف کی تکییفی تفصیلات مقرر کرنے کی جو کاوشیں کی جاتی ہیں، یہ اجتہادی کاوشیں ہیں اور ایسے مواقف کو اصول سنیت میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان اجتہادی مواقف کو درج بالا نوع کی اصولی باؤنڈریز کے اندر رہتے ہوئے جانچا جائے گا۔ رہے تابعین کے دور کے لوگ، تو ان سے متعلق آراء کو سنیت کے شعائر نہیں بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر قدیم سنی کتب کلام صحابہ کرام کے باب سے متعلق درج بالا قسم کے اصول بیان کرنے کے بعد خاموش ہوجاتی ہیں جیسا کہ مثلاً عقیدہ طحاویة اور عقائد نسفیة وغیرہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ مفسرین و محدثین نے بہت ساری آیات و احادیث کے ضمن میں کئی مسائل پر جو تفصیلات لکھی ہیں، وہ خود بخود اصول اہل سنت میں شمار نہیں ہوجاتیں۔
پس چونکہ سنی مذہب اس بابت اجتہادی آراء کا قائل ہے تو یہاں تنوع کا پایا جانا فطری بات ہے، یہ اس لئے بھی مطلوب و معقول ہے کہ تاریخ کی تمام تفصیلات پوری صحت کے ساتھ منقول نہیں ہوئیں کہ انہیں بنیاد بنا کر ہر ہر واقعے کے ہر ہر کردار کے ہر ہر فعل کی ایسی درست تکییف کی جاسکے کہ اس سے اختلاف پر عند اللہ عقاب کا حکم جاری کیا جاسکے۔ اگر کسی کو یہ مخمصہ لگتا ہے تو یہ ایسا ہی مخمصہ ہے جیسے کسی کو ایک ہی شرعی مسئلے میں فقہ حنفی و شافعی کے مابین حلال و حرام کے فرق سے لگتا ہو۔ اس کے برعکس جس چیز کو اس مسئلے پر آپ بعض گروہوں کی یکسوئی کہہ رہے ہیں وہ دراصل دین کے اس دروازے کو تنگ کردینا ہے جو اصلاً وسیع ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں